اللہ تعالی نے دنیا کی ترکیب میں تنوع رکھا ہے۔ اسی تنوع کا اس کے حسن وجمال اور توازن وتناسب میں اہم کردار ہے۔ اگر مخلوقات کی ترکیب وتخلیق میں بوقلمونی نہ ہوتی تو نظام کائنات کی کشتی ڈانواں ڈول ہوجاتی۔انسان ہی کی بات لے لیجیے کہ اگر سارے انسان مال ودولت، عزت وشہرت اور طبقات ومراتب میں یکساں ہوتے، خادم ومخدوم اور کم تر وبرتر وغیرہ کا تصور نہ ہوتا تو زندگی کی گاڑی کے پہیے کیسے جام ہوتے آپ سوچ نہیں سکتے۔ سارے لوگ مالدار ہوتے تو مال کی وقعت ختم ہوجاتی اور انسان سونے کا بے کار مجسمہ بن کر رہ جاتا۔ اس لیے افلاس وغنا کے امتزاج ہی میں جمال کائنات کا راز پنہاں ہے۔ غنا کی اہمیت کا تصور افلاس کے وجود کے بغیر ممکن نہیں۔ چنانچہ نظام کائنات کو اللہ تعالی نے اس طرح بنایا ہے کہ امیر وغریب میں سے ہر کوئی ایک دوسرے کے تعاون کا کسی نہ کسی طرح محتاج ہے۔ امیر اپنی امیری میں اور غریب اپنی غریبی میں محبوس ہوکر نہیں رہ سکتا۔
امیروغریب کے اس باہمی رشتے کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے اسلام نے زکات کا خوبصورت نظام نافذ کیا ہے۔ قرآن کریم کے اندر بیاسی مرتبہ نماز کے ساتھ زکات کی ادائیگی کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے۔ زکات کو غرباومساکین اور یتامی وبیوگان کی کفالت کا ذریعہ بنایا گیا ہے اور اس کی ادائیگی سے سرمو انحراف کرنے والوں کے بارے میں رونگٹھے کھڑے کردینے والی سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں۔
فرض زکات کے علاوہ نفلی صدقات وخیرات پر ابھار کر غریب طبقہ کی معاشی ضروریات کی تکمیل کا بندوبست کیا گیا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم کی مختلف آیات اور نبیﷺ کی متعدد احادیث میں غرباومساکین اور فاقہ زدہ افراد پر خرچ کرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اس پر زوردیا گیا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
《وماأنفقتم من شيئ فھو يخلفه وھو خير الرازقين》 (سبا:39)
تم جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کروگے اللہ اس کا (پورا پورا) بدلہ دے گا اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔
یہ بدلہ دنیا میں بھی ممکن ہے اور آخرت میں تو یقینی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
قال الله تعالى:《أنفق ياابن آدم أنفق عليك》 (بخاري :5352)
اے اولاد آدم! خرچ کرو (اس کے بدلے) میں تم پر خرچ کروں گا۔
دوسری روایت میں اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: 《ما من يوم يصبح العباد فيه إلا ملكان ينزلان، فيقول أحدھما :اللھم أعط منفقا خلفا، ويقول الآخر :اللهم أعط ممسكا تلفا》 (بخاري :1442)
ہر دن صبح جب بندے اٹھتے ہیں تو دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں۔ ایک کہتا ہے اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ دے اور دوسرا کہتا ہے اے اللہ! خرچ نہ کرنے والے کا مال ضائع کردے۔
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بڑے فائدے ہیں۔ دنیا کے بینکوں میں آدمی مال جمع کرتا ہے تو اسے ہمہ وقت تشویش رہتی ہے کہ کہیں عرق ریزی وجانفشانی اور جان توڑ کدوکاوش سے جمع کی ہوئی پونجی ڈوب نہ جائے۔بینکوں کی موجودہ صورت حال سے اس کا اندازہ لگانا بالکل مشکل نہیں۔ لیکن اللہ تعالی کا بینک ایسا ہے جس کی تعطل پذیری کا کوئی خدشہ نہیں اور جس میں جمع شدہ رقم کے اتلاف کا کوئی امکان ہی نہیں۔ اس بینک میں رقم جمع کرنے سے مال میں کمی بھی نہیں ہوتی بلکہ اس بینک کا مالک اپنے ڈپازٹر کے مال میں کئی کئی گنا اضافہ فرماتا ہے۔ کبھی ظاہری طور پر اور کبھی معنوی وروحانی طور پر اس میں برکت ڈال کر۔ اور آخرت میں تو یقینا اس میں اضافہ حیران کن ہوگا۔
اللہ تعالی فرماتا ہے: 《من ذا الذي يقرض الله قرضا حسنا فيضاعفه له أضعافا كثيرة والله يقبض ويبسط وإليه ترجعون》 (البقرة: 245)
ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالی کو اچھا قرض دے، پس اللہ تعالی اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے، اللہ ہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے او تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:
《من تصدق بعدل تمرة من كسب طيب، ولا يقبل الله إلا طيبا،فإن الله يتقبلھا بيمينه ثم يربيھا لصاحبه كما يربي أحدكم فلوه حتى تكون مثل الجبل》 ( البخاري:1410)
جس نے پاکیزہ کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کیا اور اللہ تعالی صرف پاکیزہ کمائی کے صدقے ہی کو قبول کرتا ہے۔ تو اللہ تعالی اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے پھر صدقہ کرنے والے کے فائدے کے لیے اس میں زیادتی کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی اپنے جانور کے بچے کو کھلا پلا کر بڑھاتا ہے۔ حتی کہ اس کا صدقہ پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔
کورونا کی قہرسامانیوں نے پوری دنیا کو معاشی بحران کا شکار بنادیا ہے۔ لوگ فاقہ کشی سے دوچار ہورہے ہیں۔ بطور خاص ہندوستان میں فاقہ زدہ افراد کی تعداد میں آئے دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں اللہ تعالی نے اگر آپ کو دولت دی ہے تو ضروتمندوں کی دل کھول مدد کریں، ان کی معاشی کفالت کریں۔ درحقیقت یہی مال آپ کے کام آئے گا اوراس وقت آپ کو فائدہ پہنچائے گا جب اس کی آپ کو بڑی ضرورت ہوگی۔ دنیاوی بینک میں جمع شدہ مال آپ کے لیے اس وقت تک کارآمد ہے جب تک جسم اور روح کا تعلق برقرار ہے۔ جیسے ہی دونوں کے تعلق میں انقطاع پیدا ہوگا سارا کا سارا مال دھرا کا دھرا رہ جائے گا، دوسروں کا ہوجائے گا اور آپ کو ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں پہنچاسکے گا۔ اس حقیقت کو اس حدیث میں سمجھنے کی کوشش کیجیے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:《يقول العبد : مالي،مالي، وإن ماله من ماله ثلاث:ماأكل فأفنى،أو لبس فأبلى،أو أعطى فاقتنى، وماسوى ذلك فھو ذاھب وتاركه للناس》(مسلم:2959)
بنده کہتا ہے کہ میرا مال (اتنا ہے) میرا مال (اتنا ہے) حالانکہ اس کے مال میں سے اس کا مال صرف تین قسم کا ہے(1) جو اس نے کھا لیا اور ختم کردیا(2) جو اس نے پہن کر پرانا کردیا(3) جو اس نے عطیہ کیا اور (آخرت کے لیے) ذخیرہ کرلیا۔ ان اموال کے علاوہ جو بھی مال ہے اسے وہ لوگوں کے لیے چھوڑ کر جانے والا ہے۔
معلوم ہوا کہ آدمی کا حقیقت میں فائدہ رساں مال اتنا ہی ہے جتنا اس نے اللہ کے بینک میں ڈپازٹ کیا ہے، باقی دوسروں کے کام آنے والا ہے۔ اس لیے میرا مال میرا مال کی رٹ لگانا چھوڑ دیجیے۔ میرا بینک بیلینس میرا بینک بیلینس کی پکار بند کیجیے۔ اس کی پرفتن وتباہ کن محبت کے نرغے سے اپنے آپ کو نکالیے۔ موجودہ ناگفتہ بہ صورت حال میں اپنی دینی واخلاقی ذمہ داری کو ادا کیجیے۔ فاقہ زدہ افراد کو تلاش کر ان کا معاشی تعاون کیجیے۔ یقینا آپ کا معمولی سا پرخلوص تعاون بھی بے شمار فوائدوثمرات کے حصول کا ذریعہ ثابت ہوگا اور آپ دنیاوی واخروی کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔
ما شاء الله. بہت خوب. مال ودولت کی محبت فطری طور پر انسان کے دل میں وديعت كى گئی ہے. اسی فطرى محبت میں فى سبيل الله خرچ کرنے کا مزاج پیدا کرنا شريعت کا مقصد ہے اور یہی مال و دولت میں الله کی آزمائش ہے.ایک بہت ہی اہم نقطۂ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کی زكاة کی ادائگی کر کے انسان قطعا دھوکے میں نہ پڑے کہ اس نے تو کمال کر دیا کیونکہ وہ تھا ہی دوسرے کا مال جسے آپ نے ادا کر دیا اور یقینا آپ عند الله مأجور ہوں گے. مزہ تو تب ہے… Read more »