کسی نے قدر نہ کی یوں تو زندگی! تیری

سحر محمود شعروسخن

کسی نے قدر نہ کی یوں تو زندگی! تیری

مگر کھلی ہے جدائی بھی واقعی تیری


بتا کہ مسئلہ کیا ہے تو کوئی بھید کھلے

غلط گمان دلاتی ہے خامشی تیری


تری نگاہ سے رہتا ہوں تازہ دم جاناں!

کرے نہ سست مجھے بے توجہی تیری


سواے تیرے کسی پر بھی اعتماد نہیں

“جو منصفی ہے جہاں میں تو منصفی تیری”


میں تجھ سے یوں ہی جھگڑتا ہوں بحث کرتا ہوں

بھلی لگے ہے مجھے دوست برہمی تیری


میں کیوں نہ تیری خوشی اور غم کی فکر کروں

عزیز جاں سے زیادہ ہے زندگی تیری


یہ بات اور کہ میں تجھ کو یاد آ نہ سکوں

بسی ہے یاد مرے دل میں آج بھی تیری


تجھے سفر کے دکھوں کی خبر کہاں ہے سحر

نیا سفر بھی ہے اور رہ گزر نئی تیری

آپ کے تبصرے

3000