نمک زخموں میں تم میرے جو بھر جاتے تو اچھا تھا

شعیب سراج شعروسخن

نمک زخموں میں تم میرے جو بھر جاتے تو اچھا تھا

عزیزو! مجھ پہ یہ احسان کر جاتے تو اچھا تھا


مرے کچے مکاں تک غم کے آتے ہیں سبھی رستے

تمھارے بھی محل تک کچھ ڈگر جاتے تو اچھا تھا


مجھے معلوم ہے کہ طول غم کے بعد ہیں خوشیاں

مگر یہ دن ذرا جلدی گزر جاتے تو اچھا تھا


لہو میں جسم لت پت اور زباں پر شکر کا نغمہ

پرندے لوٹ کر ایسے نہ گھر جاتے تو اچھا تھا


نہ اڑنے کی تمنا میں جہاں میں یوں لیے پھرتا

اگر تم بال و پر میرے کتر جاتے تو اچھا تھا


بھرم آنکھوں کا میری ٹوٹنے پاتا نہیں ہمدم

نقاب رخ ہٹا کر تم گزر جاتے تو اچھا تھا


مجھے تو آب بھی انگور کا مخمور کردے گا

شرابی آنکھ لے کر تم ٹھہر جاتے تو اچھا تھا


چھپے ہیں زخم جو دل کے نہاں خانے میں صدیوں سے

وہ سانچے میں غزل کے اب اتر جاتے تو اچھا تھا


مرے دل میں سراج اب تو یہی خواہش ہے اک باقی

غریبوں کے مقدر کچھ سنور جاتے تو اچھا تھا

آپ کے تبصرے

3000