مذہبی رجحان اور سیاسی مفاد

محمد مظہر الاعظمی سیاسیات

ہندو مذہب، مذہب ہے یا نہیں مجھے اس سے کوئی بحث نہیں، کیوں کہ ایک بہت بڑا طبقہ جو ہندوستانی اور غیر ہندوستانی پر مشتمل ہے اسے بہر حال مذہب مانتا ہے۔ اور اب روز بروز اس مذہب کے ماننے والوں میں شدت اور جوش و خروش بڑھتا ہوا محسوس بھی کیا جارہا ہے اور دکھلائی بھی دے رہا ہے۔ کچھ دنوں پہلے تک زعفرانی لباس اور قشقہ مذہبی علماء اور دھرم گروؤں کے ساتھ خاص تھا، عوام میں یہ چیزیں نہ معروف تھیں اور نہ ہی دکھلائی دیتی تھیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مذہبی تعلیمات پر عمل صرف ان کے دھرم گرووں کا ہی کام ہے، تہواروں پر پوجا پاٹ اور بتوں پر نذرانہ وغیرہ پیش کرنے کا کام عام طور پر عورتیں کرتی تھیں مگر عام ہندو کو مذہبی تعلیمات سے بہت زیادہ سروکار نہیں ہوتا تھا، زیادہ سے زیادہ میلہ وغیرہ میں شرکت کرتے تھے مگر اب صورت حال بالکل بدل گئی ہے، عام ہندو زعفرانی لباس کو ترجیح دیتا ہے، قشقہ صبح کے وقت بیشتر کی پیشانی پر دکھلائی دیتا ہے، بہت سارے ہندو اپنی بلڈنگوں اور گھروں میں رنگ و روغن کے وقت زعفرانی رنگ کو اولیت دیتے ہیں، اس جمہوری ملک کے حکومتی اداروں پر آپ کو زعفرانی رنگ نظر آئے گا جبکہ اس کا ملکی آئین کے اعتبار سے کوئی جواز نہیں ہے۔
دو روز پہلے کی بات ہے، میں نے کچھ کتابیں جلد سازی کے لیے دیا تھا، جب کتاب لینے کے لیے گیا تو اس جلد ساز نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ تین کتابوں پر جلد کا رنگ زعفرانی ہے، کیوں کہ میں بازار سے لا نہیں سکا اور بر وقت میرے پاس زعفرانی کے علاوہ کوئی رنگ نہیں تھا، میں نے پوچھا کہ زعفرانی رنگ کا کہاں استعمال ہوتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ ہمارے گھر سے قریب جو تھانا ہے وہ لوگ جو رجسٹر وغیرہ جلد سازی کے لیے دیتے ہیں تو اس پر زعفرانی رنگ کی ہی جلد بنواتے ہیں۔
یہ بات بظاہر بڑی چھوٹی معلوم ہو رہی ہے مگر سنجیدگی سے غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ ہندوؤں میں مذہبی رجحان بڑھ کر کہاں تک پہنچ چکا ہے۔ اور یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ مذہبی رجحان کی ظاہری علامتیں جو ہم دیکھ رہے ہیں، اس سے بہت زیادہ ان کے ذہن و دماغ میں ہیں۔ نیز یہ بھی مسلم ہے کہ یہ مذہبی رجحان پیدا کرنے والے ان کے دھرم گرو نہیں ہیں، اگر مذہبی رجحان ان کے دھرم گرو پیدا کرتے تو ان کو ان تعلیمات کی بنیاد پر انسان بنانے کی کوشش کرتے کیوں کہ تمام مذاہب نے انسانیت کو فوقیت دی ہے اور آدمی کو انسان بنانے کی تعلیم دی ہے۔
اگر یہ مذہبی رجحان مذہب کے راستے سے آتا اور دھرم گرو اسے فروغ دیتے تو تصویر کچھ اور ہوتی اور ہندوؤں میں مذہبیت کے ساتھ انسانیت بھی بڑھتی مگر اس مذہبی رجحان کے پس پردہ دوسرے مذاہب سے عداوت، دشمنی اور نفرت پیدا کی گئی ہے کیوں کہ یہ رجحان سیاست کے راستے سے آیا ہے اور اسے سیاسی لوگوں نے فروغ دیا ہے اور سیاسی فائدے کے لیے فروغ دیا ہے اس لیے یہ مذہبی رجحان انسانیت کے لیے مفید ہونے کے بجائے نہایت مضر ہے۔
ہندوؤں میں اس مذہبی رجحان کی وجہ سے مسلمانوں میں اضطراب اور بے چینی ہے، حالانکہ اصولی طور پر اضطراب کی کوئی وجہ نہیں ہے، مگر ہے۔ کیوں کہ یہ ہندو اصولی ہندو نہیں بلکہ سیاسی ہندو ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب بول بم کا نعرہ لگاتے ہوئے بلا وجہ پوری سڑک پر قبضہ کرلیتے ہیں تو ہر گزرنے والے مسلمان کی روح کانپ جاتی ہے، وہ سڑکوں پر چلتے ہوئے صرف مذہبی نعرے نہیں لگاتے بلکہ سیاسی نعرے بھی لگاتے ہیں اور اپنے سخت گیر و متشدد قائدین کا بھی نام لیتے ہیں جو خالص مذہبی رجحان کے خلاف ہے۔
اس مذہبی تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان کا مقابلہ ہم تشدد سے نہیں کرسکتے کیوں کہ تشدد کا مقابلہ تشدد سے کیا جائے اس کی اجازت نہ مذہب دیتا ہے اور نہ ہی ملکی آئین۔ اس کا مقابلہ صرف محبت اور اخلاق سے کیا جاسکتا ہے۔
مشکلیں امت مرحوم کی آساں کردے
مور بے مایہ کو ہمدوش سلیماں کردے
جنس نایاب محبت کو پھر ارزاں کردے
ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کردے

آپ کے تبصرے

3000