ہم سب کا ایمان و ایقان ہے کہ روزی روٹی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور موت و حیات اس کی مرضی کے بغیر نہ آسکتی ہے اور نہ ہی مل سکتی ہے۔ نماز کے بعد ہم یہ دعا بھی کرتے ہیں اور اعتراف بھی کرتے ہیں کہ اللهم لا مانع لما اعطيت ولا معطي لما منعت (صحيح البخاري 844)
اے اللہ جو تو دے گا اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جو تو روک دے گا اسے کوئی دے نہیں سکتا۔
ہمارا ایمان اور ہماری دعائیں تو چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں کہ ہم روزی روٹی اور موت و حیات کا مالک اسی اللہ کو مانتے ہیں جس کی مرضی سے ایک پتا بھی حرکت نہیں کرسکتا مگر جب جائزہ لیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ عمل ایسا نہیں ہے۔ کیوں کہ جہاں حق اور سچ بولنے کی وجہ سے رزق متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے وہاں ہم خاموش ہوجاتے ہیں اور اگر کہیں اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ ہماری گردن بھی زد میں آسکتی ہے تو وہاں بھی چپ رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔
ہم لوگ ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں، جس ملک کی جمہوریت کا اعتراف دنیا کو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر پانچ سال کے بعد جب ہم اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہیں تو نقشہ بدل جاتا ہے، امید پر پانی پھر جاتا ہے، تخت و تاج کے پرخچے اڑ جاتے ہیں۔ اس وطن عزیز میں جمہوری دائر ہ میں رہ کر ہم سب کو اپنی بات کہنے اور احتجاج درج کرانے کا پورا حق ہے اور حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ پر امن مظاہروں اور احتجاج کو بھی اپنی بات کہنے اور پیش کرنے میں کوئی مداخلت نہ کرے اور جو جائز مطالبات آئینی دائرہ میں ہوں ان کو سنے اور تسلیم کرے۔ اگر حکومت پر امن مظاہروں پر بھی قدغن لگاتی ہے اور جائز مطالبات کو بھی نہ سنے تو پھر جمہوریت بے معنی ہوکر رہ جا ئے گی۔
چند مہینہ قبل جب پورے ہندوستان میں CAA اور NRC کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے تو اس وقت ہمارے قائدین اور نمائندے خاموش رہے، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ان مظاہروں کے قائد تھے، جو اسی وقت سے حکومت کی نگاہوں میں کھٹک رہے تھے۔ حالانکہ ان کا کردار و عمل مثبت تھا، نہ تو وہ توڑ پھوڑ کر رہے تھے اور نہ ہی حکومت یا عوام کے املاک کو نقصان پہنچا رہے تھے، اس کے باوجود کہ وہ آئین کے دائرے میں اپنا مظاہرہ اور احتجاج درج کرا رہے تھے مختلف مواقع پر ان پر لاٹھی چارج ہوئی، برخلاف اس کے مظاہرہ کی مخالفت کرنے والے کھلے عام آئے فضا میں اپنا طمنچہ لہراتے ہوئے فائرنگ کی اور فرار ہوگئے اور ان کا سراغ نہ لگ سکا۔
اس وقت جب کہ پوری دنیا کورونا کی مہاماری سے بری طرح جوجھ رہی ہے، کندھے پر بھی جنازہ ہے اور ذہنی طور پر بھی لوگ جنازہ کی اذیت کو محسوس کر رہے ہیں۔ ایسے پر خطر اور اذیت ناک حالات میں حکومت اس مہاماری سے نمٹنے کی کتنی کوشش کر رہی ہے یہ کسی سے مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے، برخلاف اس کے جو نوجوان طبقہ CAA اور NRC کے مظاہرے اور احتجاج میں صف اول میں تھے ان کی گرفتاری ہو رہی ہے اور مختلف دفعات کا مجرم قرار دے کر ان کا مورل ڈاؤن کیا جا رہا ہے تاکہ جیل سے باہر آنے کے بعد اس قدر شکستہ دل ہوں کہ پھر تاحیات احتجاج و مظاہروں کا تصور ان کے ذہن و دماغ کے قریب آنے کی جسارت نہ کرے۔
۔CAA اور NRC کا مسئلہ صرف ہمارے نوجوان اور خواتین کا تو نہیں تھا مگر انھوں نے سنبھالا اور ہمارے مذہبی، سیاسی اور سماجی تمام قائدین چپ رہے اور شاید انھوں نے چپ رہنے میں عافیت سمجھی ہو اور اب ہمارے نوجوانوں کی گرفتاری ہو رہی ہے، ان پر بہت ساری مجرمانہ دفعات لادی جا رہی ہیں کیونکہ ان کے مظاہرے تو پر امن تھے، آئین کے دائرے میں تھے، قانون کے مطابق تھے، اس کو تو بنیاد نہیں بنا سکتے، اس لیے دوسری وجہ اور دوسری سرگرمیاں دکھلا کر مجرم قرار دیا جا رہا ہے تب بھی ہمارے مذہبی، سیاسی اور سماجی قائدین مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں شاید اب بھی اسی میں عافیت سمجھ رہے ہیں، جس کا عوام میں غلط پیغام جا رہا ہے اور کیوں نہیں جائے گا، اب اس سے زیادہ مشکل اور مصیبت کا وقت کب آئے گا جب یہ لوگ سکوت توڑیں گے۔
اس مجرمانہ خاموشی کا عوام میں یہ پیغام جا رہا ہے کہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول پر یقین ضرور رکھتے ہیں، روزی رساں اور موت و حیات کا مالک اللہ کو ہی سمجھتے ہیں مگر صرف سمجھتے ہیں، عمل کی دنیا میں ایسا نہیں ہے، ہر ایک قائد کو اسلاف کی قربانیاں یاد ہیں ہنستے ہوئے تختہ دار پر جھول جانے والے واقعات بھی ازبر ہیں مگر صرف عوام کو سنانے اور بتانے کے لیے عمل کے لیے نہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ایک جمہوری ملک میں آئین کے دائرے میں رہ کر اپنی بات کھل کر کہتے مگر ایسا نہیں ہے، ہمارے قائدین اس قدر آرام دہ اور لگژری لائف کے عادی ہو گئے ہیں کہ جیل اور تھانے کے تصور سے لرز جاتے ہیں، تختہ دار تو بہت دور کی بات ہے، لیکن یاد رکھیں ہمارے قائدین کی آرام دہ زندگی پوری قوم و ملت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے اور مستقبل مزید تاریک ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہمارے قائدین کو آئین کے دائرے میں رہ کر اپنی جائز اور حق بات کہنے کی جسارت اور ہمت پیدا کرنی چاہیے، ایسا نہ ہو کہ طویل خاموشی کے بعد کچھ کہنے اور بولنے کا موقع ہی ہاتھ سے نکل جائے اور پھر ندامت و شرمندگی کے علاوہ ہمارے ہاتھ کچھ بھی نہ لگے، اگر ہمارے قائدین اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ کچھ بولنا مصائب و آلام کو دعوت دینے کے مترادف ہے تو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مسلسل مصائب کو برداشت کرنا اور نہ بولنا اس سے بھی بڑی مصیبت کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے جس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ امت پر رحم فرمائے۔ آمین
آپ کے تبصرے