این آر سی: رنجن گوگوئی کی جانب سے حکومت ہند کو ایک بیش بہا تحفہ

راشد خورشید سیاسیات

تحریر: ارشو جون
ترجمہ: راشد خورشید


جولائی 2018 کو جب انڈین ایکسپریس گروپ(Indian Express Group) نے سپریم کورٹ کے اس وقت کے دوسرے سب سے سینئر جج رنجن گوگوئی (Ranjan Gogoi) کو رام ناتھ گوینکا لیکچر (Ramnath Goenka Memorial Lecture) کے لیے بطور مقرر منتخب کیا تو چند ترقی پسند اعتراض کر بیٹھے۔
مستقبل قریب میں چیف جسٹس آف انڈیا کے عہدے پر فائز ہونے والے رنجن گوگوئی کا تعارف کراتے ہوئے انڈین ایکسپریس کے ایڈیٹر انچیف راج کمل جھا (Raj Kamal Jha) نے تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ انھوں نے کہا کہ صحافیوں اور اراکین عدلیہ کو اپنے فرائض کی انجام دہی ”خوف اور جانبداری سے بالاتر ہوکر“ کرنی پڑتی ہے تاکہ وہ اسے بحسن و خوبی ادا کر سکیں۔ اور ان کے مطابق گوگوئی نے بالکل ویسا ہی کیا۔
جھا نے کہا کہ انڈین ایکسپریس کے بانی رام ناتھ گوینکا کو اس سے بہتر خراج عقیدت پیش ہی نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے کہا، ”نیوز روم کی وہ موٹی سرخ لکیر جس کے بارے میں ہم اپنے رپورٹرز کو بتاتے ہیں، وہ کبھی کسی فیصلے یا جج کی نیت پر الزام نہیں ہے… میں وہی لکیر کھینچنے جا رہا ہوں اور یہاں پر مجھے تھوڑی آزادی چاہیے۔ گوگوئی کے اقوال و افعال سے اس تصور کی مزید تائید ہوتی ہے کہ حق کو بے خوف اور غیر جانبدار ہوکر ہی تلاش کیاجاسکتا ہے۔ گوہاٹی ہائی کورٹ سے لے کر پنجاب وہریانہ ہائی کورٹ تک، سپریم کورٹ سے لے کر جنوری کی ٹھنڈی صبح میں اس برآمدے (Lawn) تک، گوگوئی نے ہر جگہ اور ہمیشہ اس فرق کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے جسے وہ قانونی مثالیت (Constitutional Idealism) اور آئینی حقیقت پسندی (Constitutional Realism) سے تعبیر کرتے آئے ہیں“۔
جھا اس برآمدے کا ذکر کر رہے تھے جہاں اسی سال 12 جنوری کو گوگوئی سمیت سپریم کورٹ کے چار ججوں نے پریس کانفرنس کی تھی۔ سپریم کورٹ کی تاریخ میں پہلی باراس کے چارجج بیک وقت میڈیا سے روبرو ہونے جارہے تھے۔ انھوں نے اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا (Dipak Mishra)کے عدالتی طور طریقوں کے بارے میں کھل کر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔انھوں نے مرکزی حکومت بی جے پی کے حق میں مشرا سے صادر متنازعہ فیصلوں کا ذکر کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ وہ ان اہم مقدمات کو جن میں سرکار بھی ملوث ہے، ایسے ججوں کے سپرد کر رہے ہیں جن کے بارے میں لگتا ہے کہ وہ حکومت کی طرف داری کریں گے۔ اس پریس کانفرنس کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ مشرا کے جانشین گوگوئی کی جرأت کو خوب سراہا گیا مگر ساتھ ہی خطرہ بھی لاحق ہوگیا کہ خدا نخواستہ اس وجہ سے انھیں اپنے متوقع منصب سے ہاتھ نہ دھونا پڑجائے۔ گوگوئی اب ایک ہیرو کا روپ دھار چکے تھے۔ انھوں نے ایک ایسے چیف جسٹس کی امید پیدا کر دی تھی جو دستور کا محافظ بن کر سپریم کورٹ کی کھوئی ہوئی ساخت کو بحال کرسکتا تھا۔
گوگوئی نے اپنی لمبی تقریر- جس میں بے شمار علمی خامیاں تھیں- میں ایسی متعدد باتوں کا تذکرہ کیا جس سے ان کے لبرل خیال مداح بہت خوش ہوگئے۔ انھوں نے انڈین ایکسپریس کے ایک مضمون کا یہ اقتباس، ”آزاد جج اور شوروغل کرنے والے صحافیان ہی جمہوریت کے اولین محافظ ہوتے ہیں“، نقل کرتے ہوئے کہا، ”میں اس بات سے متفق ہوں مگرحالیہ تناظر میں قدرے تغیر کے ساتھ… اور وہ یہ کہ صرف آزاد جج اور شوروغل کرنے والے صحافی ہی نہیں بلکہ آزاد صحافی اور شوروغل کرنے والے جج بھی“ (جمہوریت کے اولین محافظ ہوتے ہیں)۔اگلے دن گوگوئی کا یہ بیان متعدد اخباروں کی سرخیوں کی زینت بن چکا تھا۔
لیکن اکتوبر 2018 میں چیف جسٹس بنتے ہی گوگوئی نے بالکل الگ انداز میں واویلا مچانا شروع کر دیا۔ دراصل چند دنوں بعد ہی ان کے سامنے ایک ایسا معاملہ درپیش ہوا جس کا بھیانک انجام مستقبل بعید میں مودی حکومت کو بھگتنا پڑ سکتا تھا، یعنی رافیل معاملہ (Rafale Deal) جس کے تحت حکومت ہند نے فرانسیسی کمپنی Dassault Aviation سے 36 جنگی طیارے خریدے تھے۔ گوگوئی کی ماتحت ایک سہ رکنی بینچ نے اس ڈیل کے خلاف دائر کردہ چاروں عرضیوں پر سماعت کی۔
اس معاملے میں گوگوئی کا رد عمل بالکل غیر واضح تھا۔ حزب مخالف کا الزام تھا کہ حکومت نے جنگی طیاروں کی قیمت میں جو غیر معمولی اضافہ کیا ہے اس کے متعدد اسباب میں سے ایک سبب ان کمپنیوں کو فائدہ پہنچانا ہے جو خرید و فروخت میں شریک تھیں۔ گوگوئی نے شفافیت کے اصولوں (Principle of Transparency) کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے جنگی طیاروں کی قیمتوں سے متعلق تفصیلات کو ایک مہر بند لفافے میں طلب کرکے فضائی فوج کے چند افسران کے ساتھ ایک غیر رسمی”تبادلۂ خیال“ کیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسی سال دسمبر میں عدالت نے ساری درخواستوں کو مسترد کردیا۔ اخیر فیصلے میں کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل کی ایک ایسی رپورٹ کا حوالہ دے دیا گیا جو اس وقت تک پارلیمنٹ میں پیش بھی نہیں کی گئی تھی چہ جائیکہ عمومی طور پر دستیاب ہوتی۔
ایس کے کَول نے گوگوئی اور اپنی جانب سے اکثریتی رائےدیتے ہوئےکہا، ”ہم اس بات سے مطمئن ہیں کہ اس پورے عمل میں شک و شبہ کی ذرا بھی گنجائش نہیں ہے اور اگر کوئی معمولی سی چُوک سرزد بھی ہوئی ہوگی تو اس وجہ سے نہ تو معاہدہ رد کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی عدالت کے ذریعہ کسی تفصیلی جانچ کی“۔
بینچ کے تیسرے جج کے ایم جوزف نے کافی حد تک اکثریتی رائے سے اتفاق ظاہر کرتے ہوئے علیحدہ طور پر مزید لکھا، ”حکومت ہند کے ذریعہ خریدے گئے 36 جنگی طیاروں جیسے حساس معاملے میں عدالت کے دخل اندازی کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی“۔
عدالت نے ”قومی سلامتی“ (National Security) کا حوالہ دے کر اپنے فیصلے کی وضاحت کی۔ فیصلے میں کہا گیا تھا، ”ہمیں درپیش اس چیلنج کی تحقیق قومی سلامتی کے دائرے میں رہ کر کرنی ہوگی کیونکہ ان طیاروں کی خریداری کا مسئلہ ملک کی خود مختاریت کے تعلق سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے“۔ طیاروں کی قیمتیں ظاہر کرنے سے قومی سلامتی کس طرح خطرے میں پڑ سکتی ہے، یہ ہر کوئی سمجھ سکتا ہے۔ آخر کار اس سہ رکنی بینچ نے ان عرضیوں کی تفصیلی تحقیق کیے بغیر ہی خارج کردیا جن میں حکومت پر کرپشن کے سنگین الزامات عائد کیے گئے تھے اور ان کی جانچ پڑتال کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
گوگوئی سے وابستہ ساری امیدوں پر پانی پھر چکا تھا اور لوگ پھر سے اس بارے میں قیاس آرائیاں کرنے لگے تھے کہ گڑبڑی کہاں واقع ہوئی۔ جنھوں نے گوگوئی کے کیرئیر کا باریک بینی سے مشاہد کیا تھا انھیں توقع نہیں تھی کہ وہ سپریم کورٹ میں کسی تبدیلی کا ذریعہ بنیں گے۔ سینئر ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے نے مجھے بتایا، ”وہ غیر معمولی ذہانت کے حامل شخص تھے۔ لا یعنی اور فضول باتوں سے اجتناب کرتے تھے۔ فیصلہ کرنے میں تاخیر نہیں کرتے تھے۔ لیکن اس کے ساتھ کوئی غیر معمولی عدالتی تصور نہیں تھا۔ انھوں نے مشرا کے خلاف جو رویہ اختیار کیا تھا اس کی وجہ سے چیف جسٹس بنتے ہی ان سے بہت ساری امیدیں وابستہ ہوگئی تھیں۔ مگر پھر یہ واضح ہوگیا کہ ان کے نزدیک یہ عہدہ دیگر غیر معمولی مسائل سے کہیں زیادہ اہم اور محبوب تھا۔ اور جب ان کے عادات و اطوار حکومت سے میل کھانے لگے تب لوگوں نے اپنا قبلہ تبدیل کرنا شروع کردیا“۔
گذشتہ سال جب میں نے گوگوئی کے اہل خانہ اور ان کے رفقاء کار سے گفتگو کی تو کسی نے بھی انصاف کے معاملے میں ان کے عزم و حوصلے پر انگلی نہیں اٹھائی۔ ایک مشہور و معروف گھرانے میں پیدا ہونے والے گوگوئی کے لیے سیاسی اور قانونی دنیا میں تعلقات کی کوئی کمی نہیں تھی۔
گوگوئی نے اپنی مدت کارکردگی کے دوران ایسے کئی مقدمات کی سماعت کی جس سے لوگوں کو کافی حیرت ہوتی اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے تھے کہ کیا یہ وہی جج ہے جس نے جسٹس دیپک مشرا کے خلاف پریس کانفرنس کی تھی !؟ رافیل کے علاوہ اور بھی ایسے کئی مقدمات ہیں جہاں وہ کافی حد تک حکومت کی طرفداری کرتے نظر آئے، جیسے جموں کشمیر میں دفعہ 370 کا معاملہ، رام جنم بھومی و بابری مسجد تنازعہ، سی بی آئی (Central Bureau of Investigation) کے ڈائریکٹر آلوک ورما کی برطرفی کا معاملہ وغیرہ۔ اس دوران Republic TV اور Times Now جیسے گودی میڈیا کے رویے میں بھی ان کے لیے کافی تبدیلی نظر آئی۔ وہی چینل جو ابھی تک پریس کانفرنس اور چاروں ججوں پر دل کھول کر تنقید کر رہے تھے۔ مگر جب سے گوگوئی پر جنسی زیادتی کا الزام عائد کیا گیا تو وہی اینکرز اور ٹی وی چینلز ان کے خاص طرفدار بن گئے۔
قانونی حلقوں میں کافی چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں کہ آخر وہ کیا بات تھی جس نے گوگوئی کو لبرل مخالف شخص سے بدل کر حکومت کی نظروں میں عزیز ترین چیف جسٹس بنا دیا۔ جنوری 2019 میں سپریم کورٹ کے سابق جج مارکنڈے کاٹجو نے گوگوئی پر کئی سنگین الزامات عائد کیے، جس سے مزید قیاس آرائیاں ہونے لگیں۔ کاٹجو نے مطالبہ کیا تھا کہ گوگوئی خود کو ان الزامات سے بری اور “بے گناہ” ثابت کریں۔
انھوں نے لکھا کہ 2016 میں جب ٹی ایس ٹھاکر چیف جسٹس تھے، تو کولیجیم (Collegium) – سپریم کورٹ کے پانچ سب سے سینئر ججوں کی کمیٹی – نے دہلی ہائی کورٹ کے جج بالمیکی مہتا کے فوری تبادلے کی سفارش کی تھی، کیونکہ ”ان پر کچھ نہایت ہی سنگین الزامات عائد تھے“۔ یاد رہے گوگوئی نے اپنی بیٹی کی شادی مہتا کے بیٹے سے کی ہے۔ کاٹجو نے لکھا، ”میرے سننے میں آیا ہے کہ جسٹس گوگوئی جو اس وقت سپریم کورٹ میں جونیئر جج تھے، مودی یا اس کی کیبنٹ کے کسی پائے کے عہدیدار سے ملاقات کی اور گڑگڑا کر اس سے التجا کی کہ ان کے رشتے دار کا تبادلہ نہ کیا جائے“۔ کاٹجو لکھتے ہیں کہ اگر ایسا ہے تو ”ضرور گوگوئی پر بی جے پی کا احسان تھا جسے انھیں ہر حال میں لوٹانا ہی تھا“۔ کچھ ایسے لوگوں سے میری بات چیت ہوئی جو اس گمان میں تھے کہ شاید جنسی زیادتی کے اس الزام نے ان کو اس قدر کمزور کر دیا ہے اور جس کی وجہ سے وہ اپنی مدت کارکردگی کے دوران دن بدن حکومت کے طرفدار ہوتے چلے گئے۔
قانون داں گوتم بھاٹیا نے مجھ سے کہا، ”آپ کو ان میں سے کسی بھی بات کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملے گا۔ مگر حقیقی بات یہی ہے کہ ایسے تمام کام جو انھوں نے کیے ہیں ان کے بارے میں بتانا بہت مشکل ہے۔ ان سے ایسی بہت ساری حرکتیں سرزد ہوئی ہیں جو بالکل سمجھ سے پرے ہیں۔ بس یہی سوچنا پڑتا ہے کہ وہ کس کی ہدایت پر یہ سارے کام انجام دے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کی بے ترتیبی و بدنظمی کو دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے“۔
گوگوئی کی طرف سے بی جے پی حکومت کے لیے سب سے بیش قیمت تحفہ آسام میں این آر سی (National Register of Citizens) کا اپڈیٹ ہے، جس نے حکومت کے لیے ایک بڑے پیمانے پر نیشنل پالیسی تیار کرنے کی راہ ہموار کر دی۔ اپریل 2013 سے اکتوبر 2019 تک گوگوئی نے این آر سی سے متعلق متعدد مقدمات کی سماعت کی اور ایک ایسا خاکہ تیار کیا جس سے ریاست میں غیرملکی (Foreigners) تصور کیے جانے والے افراد کی شناخت ہوسکے اور انھیں ملک بدر کیا جا سکے۔ اس کے لیے انھوں نے جو طریقۂ کار سجھایا وہ بہت ہی دشوار گزار اور زبردست تکنیکی عمل سے گزرنے کے بعد، جس میں غلطی ہونا لازمی تھا، لاکھوں لوگوں سے ان کی شہریت چھیننا تھا۔ اس پر تشدد عمل کی بھاری قیمت چکانی پڑسکتی تھی اور جسے درست کرنے کی بھی کوئی گنجائش نظر نہیں آرہی تھی۔ لیکن گوگوئی کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ انھیں اس کی زد میں آنے والے لوگوں سے ذرا بھی ہمدردی نہیں تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ سپریم کورٹ میں اس بینچ کی صدارت کر رہے تھے جو کارروائی کے نظم و نسق اور تحفظ کا بندوبست کر رہی تھی۔ حالانکہ یہ سب حکومت کی ذمہ داری تھی۔
بہرحال، اس پراجیکٹ کی گوگوئی کے ذریعہ کی گئی نگرانی سے بی جے پی حکومت کو کوئی فائدہ حاصل ہوا بھی ہوگا تو وہ بھی انجانے میں۔ آزادی کے بعد سے ہی آسام سیاست کا ایک بڑا جزو ہجرت مخالف تحریک (Anti-immigration movement) سے عبارت ہے، جس کے تحت غیر قانونی باشندوں کی شناخت کرنا اور انھیں ملک بدر کرنے کی کوشش شامل حال ہے۔ گوگوئی کا تعلق اہوم (Ahom) نامی خاندان سے ہے جو ایسی تحریکات کی قیادت کرتا رہتا ہے۔ ریاست میں غیر قانونی شہریوں کے متعلق گوگوئی کے رجحان کی ایک جھلک این آر سی والے مقدمات کی سماعت میں دیکھی جا چکی ہے۔ سماجی کارکن ہرش مندر نے آسام کے ڈٹینشن سینٹرز میں رہنے والے لوگوں کی ابتر حالت کے خلاف ایک عرضی دائر کی تھی۔ بعد میں جب ہرش کو لگا کہ گوگوئی ان کی عرضی کا استعمال مزید ڈٹینشن سینٹرز کھولنے اور غیرملکی ثابت ہونے والوں کو ملک بدر کرنے میں کر رہے ہیں تو انھوں نے ایک اور عرضی دائر کرکے مطالبہ کیا کہ اس مقدمے کی سماعت سے گوگوئی کو علیحدہ کر دیا جائے۔ وجہ یہ بتائی کہ سماعت کے دوران جج کے تبصرے سے “لاشعوری طور پر جانبداری” کی بو آرہی تھی۔ گوگوئی نے حقارت سے عرضی خارج کردی۔
گوگوئی نے جو مطالبات اور آخری تواریخ متعین کیں وہ مرکز اور آسام میں بی جے پی حکومت کے لیے بہت مناسب تھیں۔ اس معاملے نے بی جے پی کے لیے دور رس اور مزید خطرناک منصوبے تشکیل کرنے کی راہ ہموار کردی؛ یعنی ملکی پیمانے پر این آر سی۔ بی جے پی نے اس کے لیے تیاریاں کرنی شروع کردیں۔ مودی حکومت نے چند ایسے انتظامی احکامات جاری کیے جن میں ہندوستان میں داخلے کے لیے وضع کردہ اصولوں میں مذہبی تفریق کا اضافہ کردیا۔ اس نے Citizenship (Amendment) Act منظور کیا جس کے تحت جہاں ایک طرف غیر ملکی تصور کیے جانے والے غیر مسلموں کے لیے شہریت حاصل کرنا آسان ہو گیا، وہیں دوسری طرف این آر سی اور سی اے اے کے بیک وقت نفاذ سے بیس کروڑ مسلمانوں کی شہریت پر خطرات کے بادل منڈلانے لگے۔
حکومت نے این آر سی کی تیاری میں کار آمد اعداد و شمار پہلے سے ہی اکٹھے کرنے شروع کر دیے تھے۔ بی جے پی کے ان اقدامات اور فیصلوں کے خلاف ملک بھر میں ہورہے احتجاجات کے ماحول میں گوگوئی کے جانشین چیف جسٹس ایس کے بوبڑے اپنی ماتحت بینچ کے ساتھ سی اے اے کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے ایک ایڈوکیٹ سُمیت ہزارکا نے مجھے بتایا، ”گوگوئی جیسے با ہمت جج سے توقع یہ تھی کہ وہ اپنے ذاتی مفادات کو پرے رکھ کر، بالکل غیرجانبداری سے اپنا فرض نبھائیں گے۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ این آر سی کے معاملے میں انھوں نے ایسا کچھ کیاہے۔ اگر این آر سی کے متعلق ان کے دل میں ذرا سی بھی جانبداری تھی، جس سے وہ احتیاط نہیں برت سکتے تھے تو انھیں اس مقدمے پر اپنی عدالت میں شنوائی ہی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ چونکہ ان کا تعلق آسام سے ہے، اس لیے لگتا ہے کہ اس کے ساتھ ان کے کچھ ذاتی ایجنڈے بھی جڑے تھے، جسے وہ عدالت اور اپنے عہدے کا استعمال کرکے پورا کرنا چاہتے تھے۔ میں تو کہتا ہوں کہ انھیں کسی بھی حالت میں اس معاملے کی سماعت کرنی ہی نہیں چاہیے تھی“۔
سینئر ایڈوکیٹ چندر اُدے سنگھ کہتے ہیں، ”سچ تو یہ ہے کہ وہ اب تک کے سب سے مایوس کن چیف جسٹس رہے ہیں۔ ہمیں ان سے کافی امیدیں وابستہ تھیں…جہاں تک میرا معاملہ ہے، میں گوگوئی کے بارے میں جتنا کم بولوں اتنا ہی بہتر ہے۔ وہ سر تا پا تباہی و بربادی اور اب تک کے سب سے بدترین جج تھے“۔
جاری…

آپ کے تبصرے

3000