جنھیں تکلیف ہے صوت اذاں سے

شعیب سراج شعروسخن

جنھیں تکلیف ہے صوت اذاں سے

رہیں وہ دور جا کر اس جہاں سے


عدو کرتے ہیں ان باتوں پہ چرچا

جو باتیں کی تھیں میں نے رازداں سے


بہت پیاری تھی وہ اک بات ہمدم

جو نکلی ہی نہیں تیری زباں سے


نہیں بھاتی ہے ان کو دل کی دنیا

نئی دنیا کوئی لائے کہاں سے


سنو! اب آزمائش ختم کر دو

میں ڈرتا ہوں مسلسل امتحاں سے


وہ پتھر بھی تکبر کر رہا ہے

پگھل جاتا ہے جو آب رواں سے


سراج اس کی نہیں تعریف ممکن

ملا تھا جام جو پیر مغاں سے

آپ کے تبصرے

3000