برصغیر کے کئی بھائیوں نے یہ سوال کیا ہے کہ بعض علما ہمیں جمعرات کو روزہ رکھنے کا مشورہ دے رہے ہیں جس دن ہمارے یہاں آٹھویں تاریخ ہوگی، کیونکہ حجاج اسی دن عرفہ میں ہوں گے۔ جب کہ بعض کہتے ہیں کہ جمعہ کو عرفہ کا روزہ رکھا جائے کیونکہ نویں تاریخ کو یہ روزہ مشروع قرار دیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں کیا بطور احتیاط جمعرات اور جمعہ دونوں دن عرفہ کا روزہ رکھ سکتے ہیں تاکہ جو بھی قول صحیح ہو ہمیں عرفہ کی فضیلت مل جائے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے عرفہ کا صرف ایک روزہ مشروع قرار دیا ہے، دو نہیں۔ لہذا صوم عرفہ کی نیت سے دو دن روزہ رکھنا مشروع نہیں ہے۔ گرچہ بطور احتیاط ہی ہو۔ عرفہ کی نیت سے دو دن روزہ رکھنا ایک تشریع ہے جس کی اجازت اللہ تعالی نے کسی کو نہیں دی ہے۔ اگر کوئی اس طرح کا مشورہ دے رہا ہے تو یہ ایک نیا قول ہے، سلف میں اس طرح کا کوئی قول میری نظر سے اب تک نہیں گزرا ہے۔ حالانکہ جس احتیاط کی بنا پر یہ مشورہ دیا جا رہا ہے انھیں اس احتیاط کی ہم سے زیادہ ضرورت تھی، کیونکہ ان کے لیے پتہ لگانا مشکل تھا کہ حجاج کس دن عرفہ میں وقوف کر رہے ہیں، لہذا اگر یہ جائز ہوتا تو وہ بطور احتیاط دو دن روزہ رکھنے کا مشورہ دے سکتے تھے۔ لیکن انھوں نے کبھی بھی اس طرح کا مشورہ نہیں دیا تھا کہ بطور احتیاط دو دن عرفہ کا روزہ رکھ لیا جائے تاکہ کوئی نہ کوئی ایک دن تو ان کا روزہ صحیح ہو ہی جائے۔
بعض حضرات اس احتیاط کی تائید کے لیے سعودی عرب فتوی کمیٹی کا ایک فتوی کافی شیئر کر رہے ہیں، حالانکہ اس فتوے میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ آپ عرفہ کی نیت سے دو دن روزہ رکھیں۔ بلکہ اس میں کہا گیا ہے کہ آپ عرفہ کے ساتھ اگر اس سے پہلے والا دن بھی روزہ رکھتے ہیں تو کوئی حرج نہیں، یا پورے نو دن روزہ رکھتے ہیں پھر بھی کوئی حرج نہیں۔ اس فتوے کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
(وسئلت اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء:
هل نستطيع أن نصوم هنا يومين لأجل صوم يوم عرفة؛ لأننا هنا نسمع في الراديو أن يوم عرفة غداً يوافق ذلك عندنا الثامن من شهر ذي الحجة؟
فأجابت: يوم عرفة هو اليوم الذي يقف الناس فيه بعرفة، وصومه مشروع لغير من تلبس بالحج، فإذا أردت أن تصوم فإنك تصوم هذا اليوم، وإن صمت يوماً قبله فلا بأس، وإن صمت الأيام التسعة من أول ذي الحجة فحسن؛ لأنها أيام شريفة يحتسب صومها؛ لقول النبي –صلى الله عليه وعلى آله وسلم-: “ما من أيام العمل الصالح فيهن خير وأحب إلى الله من هذه الأيام العشر” قيل: “يا رسول الله، ولا الجهاد في سبيل الله؟ قال: “ولا الجهاد في سبيل الله إلا رجل خرج بنفسه وماله، ثم لم يرجع من ذلك بشيء” [رواه البخاري]. وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
المصدر: فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء، جمع وترتيب أحمد بن الرزاق الدويش، فتوى رقم 4052، ط: دار العاصمة – الرياض)
اس میں دو دن عرفہ کی نیت سے روزہ رکھنے کا کہیں کوئی مشورہ نہیں ہے۔ یوم عرفہ سے پہلے والے دن یا پورے نو دن روزہ رکھنے کی جو اجازت دی گئی ہے وہ صوم عرفہ کی نیت سے نہیں، بلکہ عشرہ ذو الحجہ کی وجہ سے ہے۔
اس میں جو مشورہ دیا گیا ہے اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا، لیکن اس سے جو غلط مفہوم نکالا جا رہا ہے وہ نا قابل قبول ہے۔
اسے ایک مثال سے سمجھیں:
عاشورہ کا دو روزہ اللہ تعالی نے مشروع قرار دیا ہے، محرم کی نویں اور دسویں تاریخ کو۔ اور ایک قول کے مطابق تین دن مشروع ہے: نویں اور دسویں کے ساتھ گیارہوں تاریخ کو، لیکن اس قول کی بنیاد ایک ضعیف حدیث پر ہونے کی وجہ سے یہ ایک مرجوح قول ہے۔
اب اگر کوئی بطور احتیاط آٹھویں تاریخ کو بھی عاشورہ کی نیت سے روزہ رکھے اور یہ سبب ذکر کرے کہ ہوسکتا ہے رویت کا کوئی اختلاف ہو، اور اصل میں یہ آٹھویں نہیں نویں تاریخ ہو، تو اس طرح کے احتیاط کی وجہ سے چار دن آٹھویں، نویں، دسویں اور گیارہویں تاریخ کا روزہ عاشورہ کی نیت سے کسی کے نزدیک مشروع نہیں ہے۔
جب کہ بغیر عاشورہ کی نیت سے اگر کوئی آٹھویں محرم کو بھی روزہ رکھنا چاہے تو کوئی حرج نہیں۔
اسی طرح صوم عرفہ کا معاملہ ہے، اللہ تعالی نے عرفہ کا صرف ایک روزہ مشروع قرار دیا ہے، اسے بطور احتیاط ایک سے زیادہ دنوں میں رکھنے کی اجازت نہیں، کیونکہ احتیاط کے بھی اصول وضابطے ہیں۔ بعض دوسری جماعتوں کے یہاں اس طرح کا احتیاط بہت پایا جاتا ہے۔ چنانچہ دیہاتوں میں وہ جمعہ کی نماز کے بعد پھر سے ظہر کی نماز ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح حج مکمل کرنے لینے کے بعد بطور احتیاط کئی کئی دم دیتے رہتے ہیں۔ علمائے کرام نے اس طرح کے احتیاط برتنے پر سخت کلام کیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ عرفہ کا صرف ایک روزہ مشروع ہے۔ عرفہ کی نیت سے ایک سے زائد روزہ رکھنا صحیح نہیں۔ واللہ اعلم
اس فتوے کا ایک قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں یوم عرفہ کے ساتھ اس سے پہلے والے دن کے روزے کے متعلق کہا گیا کہ اگر اس میں بھی کوئی روزہ رکھنا چاہے تو کوئی حرج نہیں۔
بر صغیر میں اگر کوئی آٹھویں تاریخ کو روزہ رکھنے کا مشورہ دے رہا ہے تو اس سے پہلے والا دن ساتویں تاریخ ہوگی۔ جب کہ اس فتوے سے استدلال کرنے والے بطور احتیاط ساتویں وآٹھویں تاریخ کے روزے کا مشورہ نہیں دے رہے ہیں، بلکہ آٹھویں ونویں کے روزے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ لہذا یہ فتوی خود ان کی منشا کے خلاف ہے۔
اور اگر اس فتوے سے کوئی آٹھویں ونویں تاریخ کی اجازت پر استدلال کرنا بھی چاہے تو اسے پہلے یہ قبول کرنا پڑے گا کہ اصل صوم عرفہ برصغیر کی تاریخ کے حساب سے نویں تاریخ کو ہی ہے۔ اس کے ساتھ اگر کوئی نفلی طور پر (عرفہ کی نیت سے نہیں) آٹھویں کو بھی روزہ رکھنا چاہے تو کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ اس فتوے میں بعد والے دن کے روزے کو عرفہ کا روزہ شمار کیا گیا ہے اور اس سے پہلے والے دن کے روزے کی عمومی اجازت دی ہے۔ پس آٹھویں ونویں تاریخ کا مشورہ دینے والوں کو یہ ماننا پڑےگا کہ نویں تاریخ کا روزہ عرفہ کا روزہ ہے، اور آٹھویں تاریخ بھی بغیر عرفہ کی نیت کے کوئی روزہ رکھے تو کوئی حرج نہیں۔
لہذا ہر دو صورت میں اس فتوے میں برصغیر کے اندر آٹھویں تاریخ کے روزے کا مشورہ دینے والوں کی تردید موجود ہے۔
جزاكم الله خيرا شيخنا الفاضل
Shaikh app ke mutabiq hindustan ,pakistan,Bangladesh wale kab arafa arafa ka roza rakhenge
جس دن ان کے یہاں ذو الحجہ کی 9 تاریخ ہوگی۔
SHEIKH 8 TH ZIL HIJJ K ROZEY K BAREY MAIN KOI BEHAS HI NAHI HAI.YAUM E ARFA K ROZEY K BAREY MAIN DISCUSSION HOTI. AHADEES MAIN YOUM E ARFA K DIN HANNAM SAY GARDAINAIN AZAAD HONEY KA ZIKR HAI. NAA K 9 TH ZILHIJJ K BAREY MAIN.. MALOOM K YOUM E ARFA KAB HAI.. TOH ROZA YOUM E ARFA PAR RAKHA JAYE YAA SPNEY MULK K HISAB SAY 9 ZILL HIJJ KO ??? MOSTLY ULAAMAA IS BAAT PAR BOHT ZOR DAY RAHEY HAIN K L APNEY MULK K HISAAB SAY ROZA RAKHAUN. US HISAAB SAY YUM E ARFA KI DONO… Read more »