سورج کی تمازت، پاؤں تلے زمیں کی تپش اور بدن پر صرف دو سفید چادریں—نہ کوئی سجاوٹ، نہ کوئی شناخت، نہ کسی امتیاز کا دعویٰ۔ جب لاکھوں انسان—کالے، گورے، عرب، عجم، امیر، غریب، سب—دو سفید چادروں میں ملبوس ایک ہی ورد زبان پر لیے ہوئے لبیک اللهم لبیک… کی صدا میں گم ہیں ، تو وہ لمحہ صرف ایک عبادت نہیں بلکہ بندگی کے عروج کا منظر ہوتا ہے۔ انسان جیسے اپنے تمام گناہوں، کمزوریوں اور خواہشات کو طوق بنا کر ساتھ لایا ہو، اور اب اس رب کے در پر کھڑا ہوا ہے جو سب کا خالق اور سب کا مالک ہے۔ آنکھوں سے آنسو رواں ہوں، ہونٹ لرزاں ہوں اور زبان صرف ایک ہی صدا بلند کرے: “لبیک، اے اللہ! میں حاضر ہوں!”
بے شک حج دیکھنے میں بظاہر مشقت سے بھرپور عمل ہے: مال خرچ ہوتا ہے، وقت لگتا ہے، جسم تھکتا ہے، لیکن جو دل محبتِ الٰہی سے لبریز ہو، وہ مشقت کو راحت سمجھتا ہے۔ اصل محبوب اگراللہ ہو، تو راستے کی سختیاں بھی محبوب بن جاتی ہیں۔ حج ایک معرکہ ہے—نفس کے خلاف، خواہشات کے خلاف، دنیا کی زینتوں کے خلاف—یہ قربانی کا سب سے جامع استعارہ ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بندگانِ مومن کو یوں مخاطب فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ
(سورہ محمد، آیت: 33)
نبی کریم ﷺ نے حج کی حقیقت کو ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا:
“مَنْ حَجَّ فَلَمْ يَرْفُثْ، وَلَمْ يَفْسُقْ، رَجَعَ كَيَوْمٍ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ”(بخاری: 1521، مسلم: 1350)
“جس نے حج کیا اور فحش بات یا گناہ نہ کیا، تو وہ ایسے لوٹتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔”
اس حدیث کی روشنی میں حاجی کے لیے یہ لازم قرار دیا کہ وہ حج کے بعد ایسی پاکیزہ زندگی اختیار کرے جو اس روحانی تجدید کا عملی مظہر ہو۔
اور وہ حاجی جو سچ میں مغفرت کے مستحق ہوتے ہیں، ان کے اندر وہی پاکیزگی جھلکتی ہے جو ایک نوزائیدہ بچے میں ہوتی ہے—نہ تعصب، نہ تکبر، نہ حرام کی محبت، نہ حق تلفی۔ بلکہ ایک مومن کی خوشبو، جو پورے سماج میں عدل، احسان، محبت، دیانت اور تقویٰ کی روشنی بکھیر دیتی ہے۔
لیکن کیا واقعی ہم ایسے پاکی کے پیکر بن کر لوٹتے ہیں؟
کیا ہماری زبان سے جھوٹ کا خاتمہ ہوگیا؟
کیا سود، رشوت، فریب اور دغا بازی سے ہم تائب ہوچکے؟
کیا ہمارے لباس میں شرافت آگئی؟
کیا ہم نے بیہودہ فیشن، غیر اسلامی حلیہ، داڑھی سے اجتناب اور مرد وزن کے اختلاط سے خود کو بچایا؟
کیا ہم نے سگریٹ، بیڑی، گٹکھا، شراب اور دیگر نشہ آور چیزوں سے توبہ کی؟
کیا ہم نے وراثت میں اپنی بہنوں، بیٹیوں اور رشتہ داروں کا حق ادا کیا؟
کیا ہم نے ملازمین، ہمسایوں اور معاشرے کے کمزور افراد کا خیال رکھا؟
کیا ہم نے بیوی کے حقوق، بچوں کی تربیت اور والدین کی خدمت کو اپنی زندگی کا فریضہ بنایا؟
افسوس کہ بہت سے حجاج کرام، جنھیں اللہ نے یہ شرف عطا فرمایا، حج کے بعد بھی اپنی پرانی روش پر قائم رہتے ہیں۔ وہی محلے کے ہوٹل، وہی بے مقصد محفلیں، وہی دوسروں کی غیبت، بدگوئی، تنقید اور برائیاں— یہاں تک کہ بعض اوقات وہ اپنے ہی اہل خانہ اور پڑوسیوں کے متعلق تلخ و نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں، ان کے عیوب بیان کرتے ہیں اور حج کی نورانیت کو اپنی زبان کی تلخی سے دھندلا دیتے ہیں۔
افسوس تو تب ہوتا ہے جب محلے یا گاؤں میں ایسے افراد کو، محض “حاجی” کہنے کی بنیاد پر بزرگی اور قاضی کی کرسی پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ اہل علم کو نظرانداز کر کے فیصلوں کا اختیار ان لوگوں کو دے دیا جاتا ہے جن کے پاس نہ دین کا فہم ہوتا ہے، نہ عدل کا شعور۔ وہ اپنے قریبی لوگوں کے حق میں تعصب سے بھرے فیصلے کرتے ہیں، دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کا “حج” انھیں ہر خطا سے بالاتر کر چکا ہے۔ حالانکہ، ایسا طرز عمل نہ صرف دین کے منافی ہے بلکہ خود حج کو مشکوک بنا دیتا ہے۔ یہ رویہ صرف ایک فرد کی تباہی کا باعث نہیں بنتا، بلکہ پورے معاشرتی عدل و وقار کو متاثر کرتا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ حج کے بعد اگر ہم انصاف نہ کر سکیں، زبان کی حفاظت نہ کر سکیں اور حق کو دبا دیں— تو کیا ہم واقعی “حاجی” کہلانے کے لائق ہیں؟ کیا وہ دو چادروں میں کیا گیا عہد — “لبیک” — محض الفاظ کی گونج تھی یا دل کا سچا ارادہ؟
حج کرنے کے بعد ان کو چاہیے کہ عدل و انصاف کے اسباق پڑھیں، زبان کو لگام دیں ، غیبت و چغلی سے پرہیز کریں اور دلوں سے حسد کو نکالیں۔ لوگوں کی آنکھوں میں صرف “حج” کی وجہ سے نہیں، بلکہ تقویٰ، بردباری، علم اور کردار کی بنیاد پر معزز بنیں۔
اے اللہ! ہمارے تمام حجاج کے حج کو اپنی بارگاہ میں خالص نیت کے ساتھ شرفِ قبولیت عطا فرما۔ ان کے طواف، سعی، وقوفِ عرفہ اور دیگر تمام مناسک کو ایسا قبول فرما کہ ان کے نام نامۂ اعمال سے گناہ مٹ جائیں، اور وہ اس حال میں لوٹیں جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والے معصوم ہوتے ہیں۔ جن کے لیے انھوں نے دعائیں کیں، اللہ تو اسے بھی قبول کر اور ہمیں بھی اپنے در کے یہ لمحات نصیب فرما۔
اے رب العرش العظیم! ہمیں کتاب و سنت پر سچا اور ثابت قدم عمل کرنے والا بندہ بنا۔ ہمارے دلوں کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی محبت سے بھر دے اور ہمارے اعمال کو اپنی رضا کا آئینہ بنا دے۔
اور اے پروردگار! حرمین شریفین، بالخصوص ملکِ سعودی عرب کو ہر فتنہ و فساد سے محفوظ رکھ۔ اسے توحید کتاب و سنت اور دعوت کا مرکز بنا رہنے دے۔ وہاں کے حکام و عوام کو حق کی حمایت، دین کی خدمت اور توحید کی حفاظت کی توفیق عطا فرما۔آمین یا رب العالمین
آپ کے تبصرے