کتاب: تطييب الاخوان بذكر علماء الزمان معروف بہ تذکرہ علماء حال
مصنف: محمد ادریس نگرامی متوفی 1330ھ
تالیف کا زمانہ: 1313ھ میں کتاب کی تالیف مکمل ہوئی۔ (ص 101)
مطبع: منشی نولکشور، لکھنؤ
بار اول: 1315ھ = 1897م
صفحات: 102
تاریخ وتراجم اور سیرت وسوانح کی کتابیں مختلف ترتیب پر مرتب ہیں۔ کچھ کتابیں شہروں کی تاریخ پر مرتب ہیں۔ کچھ کتابیں صدیوں اور سالوں کی ترتیب پر مرتب ہیں۔ (مکمل کتاب صدیوں اور سالوں کی ترتیب پر مرتب ہے مثلا نزهة الخواطر، یا کتاب میں کسی ایک خاص صدی کے علماء کا تذکرہ ہے مثلا نثر الجواهر والدرر في علماء القرن الرابع عشر) کچھ کتابیں وفیات کی ترتیب پر مرتب ہیں۔ کچھ کتابیں ہم مسلک علماء کی سوانح پر مرتب ہیں۔ کچھ کتابیں والد کی سوانح پر لکھی گئی ہیں۔ کچھ کتابیں استاد کی سوانح پر لکھی گئی ہیں۔ اور کچھ کتابیں علماء کی خود نوشت سوانح ہیں۔
شہروں کی تاریخ یا ہم شہر علماء کی سوانح پر مشتمل چند کتابیں:
بَحْشَل واسطی کی تاريخ واسط
حاكم نيساپوری (صاحب المستدرك) کی تاريخ نيسابور
أبونعيم اصبہانی کی تاريخ أصبہان
خطيب بغدادی کی تاريخ بغداد
ابن عساكر دمشقی کی تاريخ دمشق (جو 80/ جلدوں میں ہے)
ابن عديم حلبی کی بغية الطلب في تاريخ حلب
طاش كبری زاده کی الشقائق النعمانية في علماء الدولة العثمانية
مولانا عبد الرحيم صادق پوری کی الدر المنثور في تراجم اهل صادق پور
عبد الباقي سہسواني کی الياقوت والمرجان في ذكر علماء سہسوان معروف بہ حياة العلماء
حیدر علی کاکوری کی تذکرہ مشاہیر کاکوری
مولانا حبیب الرحمن اعظمی قاسمى کی تذكره علماء اعظم گڈھ
قاضی اطہر مباركپوری کی تذكره علماء مباركپور
عبيد الرحمن صديقى کی تذکرہ مشائخ غازی پور
قاضی محمد عبداللہ خان پوری كى فتح الغفور في تذکرة علماء خان فور
اسرائیل سلفی ندوی کی تراجم علماء اہل حدیث میوات
شيخ محمد يونس مدنی (استاد جامعہ سلفیہ بنارس) کی تراجم علماء اہل حديث بنارس
محمد پرتاب گڑھى کی تذکرہ علماء پرتاب گڑھ
صدیوں اور سالوں کی ترتیب پر مشتمل کچھ کتابیں:
آٹھویں صدی ہجری پر ابن حجر کی الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة
نویں صدی ہجری پر سخاوى کی الضوء اللامع لأهل القرن التاسع
دسویں صدی ہجری پر ابن عبد الهادی کی النجوم الزاهرة في أعيان المائة العاشرة
گیارہویں صدی ہجری پر محمد امين بن فضل الله حموی دمشقی کی خلاصة الأثر في أعيان القرن الحادي عشر
بارہویں صدی ہجری پر محمد خليل بن على مرادى کی سلك الدرر في أعيان القرن الثاني عشر
تیرہویں صدی ہجری پر عبد الرزاق بيطار کی حلية البشر في تاريخ القرن الثالث عشر
چودہویں صدی ہجری پر يوسف بن عبد الرحمن مرعشلى کی نثر الجواهر والدرر في علماء القرن الرابع عشر
فائدہ: یہ کتاب حروف تہجی پر مرتب ہے۔ کتاب کے اہم لطائف میں سے ہے کہ اس کی ابتدا ابو الکلام آزاد سے ہوتی ہے اور خاتمہ مؤلف کتاب پر ہوتا ہے کیونکہ ان کا نام یوسف ہے۔ فاضل مؤلف صاحب ترجمہ کی اہم کتابوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ کتابوں کی نمبر شماری بھی کرتے ہیں۔ یہ کتاب چودہویں صدی ہجری میں لکھی گئی کتابوں کا اہم مرجع بھی ہے۔ انڈین علماء کے تراجم کے لیے نزهة الخواطر پر اعتماد کرتے ہیں، کبھی حرف بہ حرف نقل کردیتے ہیں، تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے پھر بھی تبدیلی نہیں کرتے۔ انڈین جرائد ومجلات (البعث الإسلامی، الداعی، صوت الأمة) پر بھی اعتماد کرتے ہیں۔
وفیات کی ترتیب پر مشتمل دو اہم کتابیں:
وفیات پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں تاہم ایک عربی اور ایک اردو کتاب کا یہاں تذکرہ کیا جارہا ہے۔
عربی کتاب میں ذہبی کی الإعلام بوفيات الأعلام ہے،اس میں ذہبی نے ناموں کو سال کی ترتیب پر مرتب کیا ہے۔ کتاب میں پہلی ہجری سے 740 ہجری تک کے اعلام کا تذکرہ ہے یعنی ذہبی کی وفات سے آٹھ سال پہلے تک کے تراجم اس میں مذکور ہیں۔ ذہبی کی وفات 748 ہجری میں ہوئی۔ کل3507 تراجم ہیں۔ کسی سال میں کوئی اہم واقعہ رونما ہوا ہے تو اس کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں۔ اس کتاب کو وفیات کا اہم ترین اشاریہ کہا جاسکتا ہے، گویا یہ کتاب ذہبی کی تاریخ الاسلام کا زبدہ اور سیر اعلام النبلاء کا خلاصہ ہے۔
اردو میں سيد سليمان ندوی کی یاد رفتگاں ہے۔ یہ کتاب معارف میں شائع شدہ وفیات کا مجموعہ ہے۔ اس میں 1914م سے 1952م تک وفات پانے والی شخصیات کا تذکرہ ہے۔ کتاب میں کل 135 تراجم ہیں۔ ایڈوکیٹ ابو عاصم کے بقول “اس میں استاد کا ماتم ہے، رفیقہ حیات کا نوحہ ہے، فضل وکمال کا مرثیہ ہے، اخلاق وشرافت کا رونا ہے، دینداروں کا غم ہے، بے دینوں کا سوگ ہے۔۔۔” (یاد رفتگاں پر ایڈوکیٹ ابو عاصم کا مقدمہ ص 3)
اس مجموعہ میں ہندو بھی ہیں مسلمان بھی، عیسائی بھی ہیں یہودی بھی، ہندوستانی بھی ہیں انگریز بھی، مصری بھی ہیں ترکی بھی، ان میں جج بھی ہیں بیرسٹر بھی، عالم بھی ہیں مسٹر بھی، پیر بھی ہیں فقیر بھی، شاعر بھی ہیں خطیب بھی، سیاست داں بھی ہیں گوشہ نشین بھی، غیر بھی عزیز بھی۔ (یاد رفتگاں پر ایڈوکیٹ ابو عاصم کا مقدمہ ص 7)
فائدہ: یاد رفتگاں میں صاحب تحفہ محدث مبارکپوری کا ذکر نہیں ہے جس پر اسحاق بھٹی مرحوم نے تعجب کا اظہار کیا ہے۔ بھٹی صاحب کے الفاظ میں “علامہ سید سلیمان ندوی مرحوم نے معارف میں وفیات کے سلسلے میں بہت سے حضرات پر لکھا اور جس شخصیت پر لکھا (اختصار کے ساتھ یا کسی قدر تفصیل کے ساتھ) بہت خوب صورت انداز میں لکھا۔ ان شخصیات میں علما کے علاوہ غیر علما بھی شامل ہیں بلکہ اس وسیع فہرست میں غیر مسلم بھی موجود ہیں اور یہ ایک منفرد سلسلہ وفیات ہے۔ معارف میں شائع شدہ یہ تمام مواد کتابی صورت میں “یاد رفتگاں” کے نام سے چھپ گیا ہے۔ سید صاحب مرحوم کی یہ قابل قدر تحریریں ہیں، لیکن تعجب ہے سید صاحب نے مولانا مبارک پوری کے بارے میں کچھ نہ لکھا۔ خدا جانے ان کی توجہ اس طرف کیوں نہ گئی۔ حال آں کہ وہ ان کے بالکل قریب تھے۔ مبارک پور کا قصبہ ضلع اعظم گڑھ میں ہے اور علم وعلما کے اعتبار سے پرثروت قصبہ ہے” ۔ (دبستان حدیث ص 211)
ہم مسلک علماء کی سوانح پر مشتمل کچھ اہم کتابیں:
کچھ علماء نے اپنے ہم مسلک علماء کی سوانح مرتب کرنے پر توجہ مرکوز کی اس پر میرا ایک تفصیلی مضمون عنقریب آئے گا -إن شاء الله- جس میں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور اہل حدیث علماء کی سوانح پر لکھی گئی کتابوں کا تذکرہ ہے۔ تاہم کچھ اہم اور خاص کتابوں کا تذکرہ یہاں کیا جارہا ہے۔
محی الدين عبد القادر قرشى حنفى متوفی 775ھ كى الجواهر المضية في طبقات الحنفية، علماء احناف کی سیرت وسوانح کی معرفت کے لیے اولین کتاب ہے۔
قاضي عياض متوفی 544ھ كى ترتيب المدارك وتقريب المسالك لمعرفة أعلام مذهب، مالك مالکی علماء کی حیات وخدمات کے لیے اہم کتاب ہے۔
تاج الدين سبكی متوفی 771ھ كى طبقات الشافعية، الكبرى شافعی علماء کی سیرت وسوانح کے لیے اولین کتاب ہے۔
قاضی ابن ابی يعلى حنبلى متوفی 526ھ كى طبقات الحنابلة، حنبلی علماء کی سیرت وسوانح کے لیے اولین کتاب ہے، بلکہ طبقاتِ علماء پر لکھی جانے والی کتابوں میں یہ اولین کتاب شمار کی جاتی ہے۔
ابراہيم مير سيالكوٹی كى تاريخ اہل حديث، تاریخ اہل حدیث پر لکھی جانے والی پہلی کتاب ہے۔
ڈاكٹر بہاء الدين كى تاریخ اہل حدیث (آٹھ جلدیں) تاریخ اہل حدیث پر لکھی جانے مفصل وموسع کتاب ہے۔ رب کریم ڈاکٹر صاحب کو صحت وعافیت سے رکھے کہ وہ اپنا پروجیکٹ مکمل کرسکیں۔ آمين
والد کی سوانح پر مشتمل کچھ اہم کتابیں:
سیرت وسوانح کا ایک باب یہ بھی ہے کہ بیٹے نے اپنے باپ کی سوانح لکھی مثلا:
علم الدين صالح بلقينی نے اپنے والد سراج الدين بلقينی کی سوانح ترجمة الإمام المجتهد شيخ الإسلام سراج الدين البلقيني کے نام سے لکھی۔
نواب صدیق حسن خاں بھوپالی کے لڑکے سيد محمد على حسن خاں نے اپنے والد کی سوانح مآثر صديقى کے نام سے لکھی۔
ابوالقاسم سيف بنارسی نے اپنے والد سعید بنارسی کی سوانح تذكرة السعيد کے نام سے لکھی۔
مدینہ میں حماد انصاری کے لڑکے عبد الأول انصاری نے اپنے والد کی سوانح المجموع في ترجمة العلامة المحدث الشيخ حماد بن محمد الأنصاري کے نام سے لکھی۔
محمد سرور بن نایف زین العابدین کے لڑکے عبد اللہ بن محمد سرور نے اپنے والد کی سوانح الشيخ محمد سرور بن نايف زين العابدين: سيرة ومواقف کے نام سے لکھی۔
سید ابوبکر غزنوی نے اپنے والد داؤد غزنوی کی سوانح سيدي وأبي کے نام سے ترتیب دی۔
علی میاں ندوی نے اپنے والد عبد الحی حسنی کی سوانح حيات عبد الحي کے نام سے ترتیب دی۔
صہیب حسن نے اپنے والد عبد الغفار حسن رحمانی کی سوانح مولانا عبد الغفار حسن رحمانی حیات وخدمات کے نام سے ترتیب دی۔
محمد رحمانی نے اپنے والد کی سوانح والد محترم علامہ عبد الحمید رحمانی: کچھ یادیں، کچھ باتیں کے نام سے لکھی۔
یہاں پر فہد بن ترکی عصيمى کی کتاب اتحاف النبيه بمن ألف كتابا في سيرة أبيه کا تذکرہ ضروری ہے جس میں اسی طرح کی کتابوں کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
استاد کی سوانح پر مشتمل کچھ اہم کتابیں:
تاریخ وتراجم کا ایک باب یہ بھی ہے کہ شاگرد نے اپنے استاد کی سوانح سپرد قلم کی مثلا:
ابن حجر نے اپنے اساتذہ کو المجمع المؤسس للمعجم المفهرس میں جمع کیا۔
سخاوی نے اپنے استاد حافظ ابن حجر کی سوانح الجواهر والدرر في ترجمة شيخ الإسلام ابن حجر کے نام سے لکھی۔
فضل حسين بہاری نے اپنے شیخ میاں صاحب کی سوانح الحياة بعد المماة کے نام سے لکھی۔
حفيظ اللہ بندوی نے اپنے استاد عبد الحي فرنگی محلی کی سوانح كنز البركات لمولانا أبي الحسنات کے نام سے لکھی۔
فیض اللہ مئوی کی سوانح ان کے شاگرد عبد الغفور دانا پوری (بہار) نے مرتب کی تھی مگر چھپ نہ سکی۔
سید سلیمان ندوی نے اپنے استاد شبلی نعمانی کی سوانح حیات شبلی کے نام سے لکھی۔
رفيق اثرى نے اپنے استاد مولانا سلطان محمود جلال پوری كى مفصل سوانح لکھی۔
اسحاق بھٹی نے اپنے استاد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کی سوانح استاد گرامی مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کے نام سے لکھی۔
عبد العظیم انصاری نے اپنے اساتذہ کی سوانح تذکرہ علماء بھوجیاں کے نام سے لکھی۔
شاہ معین الدین احمد ندوی نے سيد سليمان ندوى كى سوانح پر مشتمل حیات سلیمان لکھی۔
حفیظ الرحمن اعظمی عمری نے اپنے اساتذہ کی سوانح ميرے اساتذہ کے نام سے لکھی۔
خود نوشت سوانح وآپ بیتیاں:
کچھ علماء وادباء نے خود نوشت سوانح وآپ بیتیاں لکھیں مثلا:
سخاوى کی إرشاد الغاوي بل إسعاد الطالب والراوي بترجمة السخاوي
طه حسين کی الأيام
العقاد کی أنا
ميخائيل نعيمة کی سبعون
أحمد أمين کی حياتي
شوقي ضيف کی معي
عائشة بنت عبد الرحمن (بنت الشاطئ) كى على الجسر بين الحياة والموت
نواب صدیق حسن خاں بھوپالی کی ابقاء المنن بالقاء المحن
وحید الزماں حیدرآبادی (نواب وقار نواز جنگ) کی تذكرة الوحيد
قاضی اطہر مبارکپوری کی قاعدہ بغدادی سے صحیح بخاری تک
علی میاں ندوی کی کاروان زندگی
مولانا منظور نعمانی کی تحدیث نعمت
اسحاق بھٹی کی گذر گئی گذران
ڈاکٹر لقمان سلفی کی کاروان حیات
شیخ عطاء الرحمن مدنی کی اور سمندر میں چھلانگ لگادی
تفصیل کے لیے بکر ابو زید کی کتاب العلماء الذين ترجموا لأنفسهم اور محمد سعود حمد کی کتاب معجم كتب السير الذاتية: رصد ببليوجرافي کا مراجعہ مفید ہوگا۔
اب اصل کتاب کی طرف آتے ہیں۔ ادریس نگرامی مرحوم کی “تذکرہ علماء حال” پڑھتے ہیں۔ بزرگوں کے ذکر سے اپنی مجلس کو منور کرتے ہیں۔ ان کے تذکرہ سے زبان تر کرتے ہیں۔ نگرامی مرحوم کے زمانے میں جو علماءِ حال تھے اب وہ علماءِ ماضی بن چکے ہیں۔ رب کو پیارے ہوچکے ہیں۔ یہی دنیا کا دستور ہے جو آج ہیں وہ کل نہیں ہوں گے۔ نگرامی مرحوم نے اس کتاب کے لیے خاص اہتمام کیا۔ علماء کو خطوط لکھا۔ کچھ احباب نے دست تعاون دراز کیا۔ کچھ نے آپ کی تحسین فرمائی اور ہمت بندھائی۔ تاہم کچھ بزرگوں نے سردمہری کا بھی مظاہرہ کیا جس سے بہر حال نگرامی صاحب افسردہ ہوئے ہوں گے۔
عربی میں بھی معاصرین پر لکھنے کی روایت رہی ہے۔ صدیوں کی ترتیب پر مرتب کی جانے والی کتابوں کو اس باب میں رکھا جاسکتا ہے۔ البتہ میری دانست کے مطابق جس شخص کو ہراول دستہ میں رکھا جاسکتاہے وہ صفدی متوفی 764ھ کی شخصیت ہے۔ آپ کی کتاب کا نام اعيان العصر واعوان النصر ہے۔ صفدی کی اعيان العصر حروف تہجی پر مرتب ہے۔ اس میں کل 2017 تراجم ہیں۔
تذکرہ علماء حال میں چودہویں صدی ہجری کے متحدہ ہندوستان کے علماء کے تراجم مذکور ہیں۔ غیر ہندوستانی علماء کے تراجم کتاب میں نہیں ہیں البتہ وہ عرب علماء جو ہند میں سکونت پذیر ہوگئے ان کا ذکر جمیل ضرور ہے مثلا حسين بن محسن انصارى يمانى ترجمہ نمبر 67 اور ان کے صاحبزادے شيخ محمد عرب بن شيخ حسين انصارى يمانى ترجمہ نمبر 293۔
کتاب حروف تہجی پر مرتب ہے۔ البتہ تبرکا سب سے پہلے فضل رحمن صاحب مراد آبادی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ (علی میاں ندوی نے آپ کی شخصیت پر “تذكره حضرت مولانا فضل رحمن گنج مرادآبادى” نام سے
مستقل کتاب لکھی ہے)
کتاب میں تراجم کی نمبر شماری بھی کی گئی ہے۔ کل 426علماء کے تراجم ہیں۔ خاتمة الكتاب میں مؤلف نے اپنا ترجمہ بهى ذكر كيا ہے مگر اس کی نمبرنگ نہیں کی ہے۔ اس تبصرہ میں حوالہ کے لیے صفحہ کی بجائے ترجمہ نمبر کا اہتمام کیا گیا ہے۔
تاریخ بیان کرنے میں ہجری تاریخ کا اہتمام کیا گیا ہے البتہ چند تراجم میں انگریزی تاریخ بھی در آئى ہے مثلا:
(۱)مولوی صدیق حسن صاحب کا ترجمہ( ترجمہ نمبر 114)
(۲)مولوی حکیم سید محمد حسن صاحب محقق امروہوی کا ترجمہ(ترجمہ نمبر 317)
(۳)مولوی محمد شبلی صاحب نعمانی کا ترجمہ( ترجمہ نمبر 336)
(۴)مولوی حاجی حکیم سید مشتاق علی صاحب نگینوی کا ترجمہ(ترجمہ نمبر 383)
کچھ علماء کے مفصل تراجم ہیں مثلا فضل رحمن صاحب مرادآبادى ترجمہ نمبر 1،حسين بن محسن انصارى يمانى ترجمہ نمبر 67،ظفر الدين صاحب لاہورى ترجمہ نمبر 118،قارى عبد الرحمن صاحب پانی پتی ترجمہ نمبر 156،میاں صاحب نذیر حسین محدث دہلوی ترجمہ نمبر 397۔ میاں صاحب کے ترجمہ کے آخر میں لکھتے ہیں”یہ مختصر رسالہ بیان اوصاف واخلاق سے قاصر ہے”۔ آخر میں مقدمہ غاية المقصود ومكتوب لطيف اور تذكرة النبلاء في تراجم العلماء كى جانب احالہ ہے۔
کچھ علماء کے مختصر تراجم ہیں مثلا حافظ احمد حسن صاحب ترجمہ نمبر 11، احمد حسن صاحب ترجمہ نمبر 12،شاہ احمد علی صاحب مرزا پوری ترجمہ نمبر 17،اعجاز حسین صاحب رامپوری ترجمہ نمبر 24،حاجی سید الطاف حسين صاحب مانکپوری ترجمہ نمبر 30،عبد العزيز صاحب ترجمہ نمبر 176،عبد العليم صاحب ترجمہ نمبر 186،ابوالمكار مئوى ترجمہ نمبر 349،محمد عمر صاحب دہلوى ترجمہ نمبر 352،شاه محمد كامل صاحب اعظم گڑھی ترجمہ نمبر 358،محمد يعقوب صاحب دہلوی ترجمہ نمبر 371،محمد يعقوب صاحب ترجمہ نمبر 372،يونس على صاحب بدايونى ترجمہ نمبر 426۔
کچھ علماء کے تراجم مؤلف کو نہیں ملے اس لیے ان کا صرف نام لکھنے پر اکتفا کیا ہے مثلا مولوى احمد حسن صاحب ترجمہ نمبر 10،شاہ بدرالدین پھلواروی ترجمہ نمبر 49،حیدر حسین صاحب جونپوری ترجمہ نمبر 70، رفیق الحق صاحب بھاگلپوری ترجمہ نمبر 86،سجاد حسین صاحب الہ آبادی ترجمہ نمبر 88،حافظ سراج احمد میرٹھی ترجمہ نمبر 91،ہادی یار خان صاحب رامپوری ترجمہ نمبر 417۔
کچھ علماء کے تراجم میں اساتذہ کو بکثرت ذکر کرتے ہیں مثلا ابراہيم آروى ترجمہ نمبر 5 (آپ کے 19 اساتذہ کا تذکرہ ہے)،اميرباز خان سہارنپورى ترجمہ نمبر 44،سلامت الله مباركپورى ترجمہ نمبر 97،شمس الحق عظيم آبادى ترجمہ نمبر 108،حكيم قادر بخش صاحب ترجمہ نمبر 280،حافظ محمد ايوب صاحب ترجمہ نمبر 311،محمد كمال صاحب عظيم آبادى ترجمہ نمبر 359۔
کچھ علماء کے تراجم میں شاگردوں کو بکثرت ذکر کرتے ہیں مثلا حاجى امداد الله صاحب مہاجر مكى ترجمہ نمبر 42،قارى عبد الرحمن صاحب پانی پتی ترجمہ نمبر 156،مفتى لطف الله صاحب على گڑھی ترجمہ نمبر 288، میاں سيد نذير حسين صاحب محدث دہلوى ترجمہ نمبر 397 (میاں صاحب کے 70 شاگردوں کا تذکرہ کیا ہے)
جو علماءمؤلف ہیں ان کی تالیفات کا بھی تذکرہ کرتے ہیں مثلا ابراہيم آروى ترجمہ نمبر 5،اشرف على تهانوى ترجمہ نمبر 20،حاجى امداد الله صاحب مہاجر مكى ترجمہ نمبر 42،ظہير احسن شوق نيموى ترجمہ نمبر 120،حكيم ظہير احمد صاحب سہسوانى ترجمہ نمبر 121،عبد الحق صاحب خير آبادى ترجمہ نمبر 134،عبد العلى صاحب مدراسى ترجمہ نمبر 182،حافظ عبد الغفار صاحب ترجمہ نمبر 188،عبد الغفور صاحب رمضان پوری ترجمہ نمبر 192،حافظ عبد القادر مئوى ترجمہ نمبر 202، حافظ على احمد صاحب بدايونى ترجمہ نمبر 245،عنايت على صاحب دہلوى ترجمہ نمبر 257،فقير الله صاحب ترجمہ نمبر 276،فقير محمد صاحب جہلمى ترجمہ نمبر 278،حكيم قادر بخش صاحب ترجمہ نمبر 280،حافظ محمد صاحب ٹونكى ترجمہ نمبر 297،حكيم محمد حسن صاحب محقق امروہوى ترجمہ نمبر 317،محمد حسين صاحب دہلوى ترجمہ نمبر 321،محمد حسين بٹالوى ترجمہ نمبر 322،محمد شبلى نعمانى ترجمہ نمبر 336،محمد عادل صاحب کانپوری ترجمہ نمبر 344،حكيم محمد عثمان صاحب چتاروی ترجمہ نمبر 346،سيد محمد على صاحب کانپوری ترجمہ نمبر 348،حافظ مشتاق احمد صاحب انبٹھوی ترجمہ نمبر 382،حكيم مظہر الہادى صاحب امروہوى ترجمہ نمبر 386،ڈپٹی نذیر احمد خاں صاحب دہلوی ترجمہ نمبر 396،وحيد الزمان بن مسيح الزمان حيدرآبادى (نواب وقار نواز جنگ بہادر) ترجمہ نمبر 412،حكيم وكيل احمد صاحب سکندر پوری ترجمہ نمبر 414۔
صاحب ترجمہ کی کوئی کتاب مؤلف کے مطالعہ میں آئی ہے تو اس کی جانب اشارہ کرتے ہیں مثلا شمس الحق عظيم آبادى ترجمہ نمبر 108،حافظ شوكت على سنديلوى ترجمہ نمبر 109،حافظ عبد الغفار صاحب ترجمہ نمبر 188،حكيم وكيل احمد صاحب سکندر پوری ترجمہ نمبر 414۔
مؤلف کے ساتھ کسی کا کوئی خاص تعلق ہے یا کسی عالم نے آپ کی علمى مدد کی ہے تو اس کا تذکرہ کرتے ہیں مثلا:
(۱)قاضی بشیر الدین صاحب میرٹھی کے ترجمہ کے آخر میں فرماتے ہیں: “مؤلف صاحبِ ترجمہ کا تہ دل سے شکرگزار ہے کہ آپ نے اپنے اساتذہ واحباب علما کے تراجم میں مدد کافی دی جزاه الله خير الجزاء وسلمه الى يوم البقاء”
(۲)مولوی فقیر اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں: “مؤلف سے رابطہ اتحاد رکھتے ہیں اور اکثر علماے وقت کے تراجم آپ نے ارسال فرمائے جزاه الله خير الجزاء”
(۳)سید شاہ محمد علی کانپوری -ناظم ندوۃ العلماء- کے بارے میں فرماتے ہیں: “تراجم علماے حال کے لکھنے کی جرأت آپ ہی نے دی۔ اللهم بارك في عمره وفيضه”
(۴)شمس الحق عظيم آبادى کے ترجمہ کے آخر میں لکھتے ہیں: “مؤلف کو اکثر علما کے تراجم میں آپ سے بڑی مدد ملی۔ جزاه الله خير الجزاء”
(۵)حافظ نور محمد صاحب پنجابی کے متعلق فرماتے ہیں: “مؤلف سے انس ومحبت قلبی رکھتے ہیں”۔
تراجم کے آخر میں دعائیہ جملہ لکھتے ہیں مثلا سلمه الله (اس کا بکثرت استعمال کرتے ہیں)، اللهم بارك في عمره، بارك الله في علمه وعمره، متع الله المسلمين بطول بقائه، أبقاه الله تعالى، نصره الله تعالى على أعدائه، أدام الله بقاءه، أبقاه الله تعالى ومتع الله المسلمين بطول بقائه، أدامه الله تعالى، لازال فرحا مسرورا، اللهم بارك في عمره وفيضه، اللهم لايبكى الزمان بفراقه، أدامه الله وأبقاه اور بارك الله في عمره۔ ایسے تراجم بہت کم ہیں جن کے آخر میں دعائیہ جملہ نہیں ہے۔
کتاب میں اُس وقت کے مختلف مسالک کے معروف علماء کا تذکرہ ہے مثلا احمد رضا خاں بريلوى، اشرف على تهانوى، حاجى امداد اللہ مہاجر مكى، خليل الرحمن سہارنپورى، رشيد احمد گنگوہی، ظہير احسن شوق نيموى، محمد شبلى نعمانى، محمد فاروق چریا کوٹی (استادِ شبلى نعمانى)، محمود الحسن ديوبندى اور وصى احمد سورتى (صاحب جامع الشواہد)
کتاب میں اہل حدیث علماء کے تراجم:
کتاب میں موجود علماء اہل حدیث کو میں نے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے:
اول: وہ علماء جن کے اہل حدیث ہونے کی فاضل مؤلف نے صراحت کی ہے۔
دوم: میاں صاحب کے تلامذہ۔
سوم: دیگر اہل حدیث علماء۔
اول:وہ علماء جن کے اہل حدیث ہونے کی فاضل مؤلف نے صراحت کی ہے درج ذیل ہیں:
شمس الحق عظيم آبادى ترجمہ نمبر 108 (مؤلف نے آپ کے ترجمہ کے آخر میں لکھا ہے: “حدیث میں زیادہ شغف واہل حدیث سے زیادہ مذاق ہے سلمه الله تعالى۔ مؤلف کو اکثر علما کے تراجم میں آپ سے بڑی مددملی۔ جزاه الله خير الجزاء”)
عبد الجبار بن عبد الله غزنوى ترجمہ نمبر 128 (مسائل فروعيہ میں بزمرہ اہل حدیث داخل ہیں….فقير الله صاحب مدرس مدرسہ نصرة الاسلام نے آپ كا ترجمہ لكها ہے)
عبد الرؤف بن محمد يحيى ترجمہ نمبر 155 (فروعات میں آپ کو اتباع زمرہ اہل حدیث کی مرعى ہے)
عبد الصمد دانا پوری ترجمہ نمبر 173 (زمرہ اہل حدیث میں داخل ہیں)
عبد الحليم شرر ترجمہ نمبر 210 (زمرہ اہل حدیث میں داخل ہیں)
حافظ محمد صاحب ٹونكى ترجمہ نمبر 297 (جماعت اہل حدیث میں سے ہیں)
محمد نذير حسين محدث دہلوي، مياں صاحب ترجمہ نمبر 397 (“…اہل حدیث كے لیے امام وپيشوا ہیں)
فائده: مؤلف كتاب میں اور ہیں كو مين اور ہين (نون غنہ کی بجائے نون كے ساتھ) لكهتے ہیں۔
دوم: کتاب میں میاں صاحب کے شاگردوں کا تذکرہ:
درج ذیل علماء کے بارے میں میاں صاحب سے شرف تلمذ کی وضاحت کی گئی ہے:
ابراہيم آروى ترجمہ نمبر 5 (بانى مدرسه آره۔ تفصیلی ترجمہ کے لیے دبستان نذيریہ 1 / 441 – 484 دیکھیں)
تلطف حسين صديقى عظيم آبادى ترجمہ نمبر 56 (سفرحج میں مياں صاحب كے رفيق۔ تفصیلی ترجمہ کے لیے دبستان نذيریہ 1 / 364 – 392 دیکھیں)
سلامت الله مباركپورى ترجمہ نمبر 97
سليم الله اعظم گڑھی ترجمہ نمبر 102
حكيم عبد البارى نگرنہسوی عظيم آبادى ترجمہ نمبر 127 (شمس الحق عظیم آبادی کے بہنوئی۔ تفصیلی ترجمہ کے لیے دبستان نذيریہ 1 / 178 – 182 دیکھیں)
عبد الجبار عمر پوری ترجمہ نمبر 129 (عبد الغفار حسن رحمانى کے دادا۔ آپ کے ترجمہ کے لیے دیکھیں: تراجم علماء حدیث ہند از نوشہروی ص 502)
عبد الحق صاحب دہلوى ترجمہ نمبر 133
سيد عبد الحي حسنى ترجمہ نمبر 152 (صاحب نزهة الخواطر۔ علی میاں ندوی نے آپ کی سوانح”حيات عبد الحي ” کے نام سےلکھی ہے)
عبد الرحمن مباركپوری – صاحب تحفہ – ترجمہ نمبر 157 (آپ کی حیات وخدمات پر اردو میں تين مستقل کتابیں تصنیف کی گئی ہیں: (۱) مولانا عبد الرحمن محدث مبارک پورى حيات وخدمات از ڈاکٹر عين الحق قاسمى (۲)تذکرہ محدث العصر علامہ عبد الرحمن مبارک پورى ازعبد الرشید عراقی(۳)مولانا عبد الرحمن محدث مبارک پوری: حیات وخدمات از ڈاکٹر عبد الغفور راشد)
حافظ عبد القادر مئوى ترجمہ نمبر 202
عبد القدوس بن حسام الدين ترجمہ نمبر 204
عبد الحليم شرر ترجمہ نمبر 210 (آپ کے ترجمہ کے لیے دیکھیں: تراجم علماء حدیث ہند از نوشہروی ص 458-473)
حافظ عبد الله غازى پورى ترجمہ نمبر 211 (آپ کی حیات وخدمات پرحافظ شاہد رفیق نے “یادگار سلف” نام سے مفصل کتاب لکھی ہے)
حافظ عبد المنان وزير آبادى ترجمہ نمبر 232 (آپ نابینا تھے۔ آپ کو استاد پنجاب کا لقب ملا۔ عبد المجید سوہدروی نے آپ کی سوانح پر مشتمل “استاد پنجاب حافظ عبد المنان وزیر آبادی” نام سے کتاب لکھی)
غلام احمد صاحب ترجمہ نمبر 259
فقير الله صاحب ترجمہ نمبر 276
محمد اسحاق رامپورى ترجمہ نمبر 307
محمد اشرف عظيم آبادى ترجمہ نمبر 308 (برادر خورد شمس الحق عظيم آبادى۔ تفصیلی ترجمہ کے لیے دبستان نذيریہ 1 / 137-140 دیکھیں)
محمد حسين بٹالوى ترجمہ نمبر 322 (صاحب اشاعت السنة۔ ڈاکٹر عبد الغفور راشد نے بٹالوی صاحب کی حیات وخدمات پر مستقل کتاب ترتیب دی ہے)
شاه محمد سليمان پھلواروی ترجمہ نمبر 334 (تفصیلی ترجمہ کے لیے دبستان نذيریہ 1 / 263 – 280 دیکھیں)
حكيم نصير الحق عظيم آبادى ترجمہ نمبر 400 (تفصیلی ترجمہ کے لیے دبستان نذيریہ 1 / 141 – 142 دیکھیں)
نور احمد ڈيانوى عظيم آبادى ترجمہ نمبر 407 (تفصیلی ترجمہ کے لیے دبستان نذيریہ 1 / 131 – 134 دیکھیں)
يونس على صاحب بدايونى ترجمہ نمبر 426 (کتاب کا آخری ترجمہ)
سوم: دیگر اہل حدیث علماء جن علماء کے اہل حدیث ہونے کی نہ تو مصنف نے صراحت کی ہے نہ ہی میاں صاحب سے شرف تلمذ کی جانب اشارہ ہے مثلا:
اعجاز احمد سہسوانى ترجمہ نمبر 23 (آپ کے ترجمہ کے لیے دیکھیں: تراجم علماء حدیث ہند از نوشہروی ص 252 والياقوت والمرجان في ذكر علماء سہسسوان ص 127)
امير حسن سہسوانى ترجمہ نمبر 45 (صاحب براہین اثنا عشر۔ آپ بھی میاں صاحب کے شاگرد ہیں۔ دیکھیں: تراجم علماء حدیث ہند از نوشہروی ص 234 والياقوت والمرجان في ذكر علماء سہسسوان ص 64 – 69)
جميل احمد سہسوانى ترجمہ نمبر 58 (آپ کے ترجمہ کے لیے دیکھیں: الياقوت والمرجان في ذكر علماء سہسسوان ص 122)
حسين بن محسن انصارى يمانى ترجمہ نمبر 67 (نزهة الخواطر ص 1212- 1214 میں آپ کا تفصیلی ترجمہ ہے)
حفيظ الله بندوى ترجمہ نمبر 68 (آپ بھی میاں صاحب کے شاگرد ہیں۔ دیکھیں: تراجم علماء حدیث ہند از نوشہروی ص 358)
ذو الفقار احمد بھوپالی ترجمہ نمبر 78 (آپ کے ترجمہ کے لیے نزهة الخواطر ص 1225 دیکھیں۔ نثر الجواهر والدرر ص 426 میں آپ کا ترجمہ یہیں سے منقول ہے)
حافظ عبد الرحيم مباركپوری ترجمہ نمبر 161(صاحب تحفہ کے والد)
عبد الغفور دانا پوری ترجمہ نمبر 189 (آپ بھی میاں صاحب کے شاگرد ہیں۔ دیکھیں: دبستان نذيریہ 1 / 295- 302)
شيخ محمد عرب بن شيخ حسين انصارى يمانى ترجمہ نمبر 293
محمد بشير فاروقى سہسوانى ترجمہ نمبر 314 (صاحب صيانة الإنسان۔ آپ بھی میاں صاحب کے شاگرد ہیں۔ دیکھیں: تراجم علماء حدیث ہند از نوشہروی ص 243-248 والياقوت والمرجان في ذكر علماء سہسوان ص 90 – 97)
ابو المكارم مئوى = محمد على بن فيض الله مئوى ترجمہ نمبر 349 (آپ بھی میاں صاحب کے شاگرد ہیں۔ دیکھیں: تراجم علماء حدیث ہند از نوشہروی ص 381)
وحيد الزمان بن مسيح الزمان حيدرآبادى (نواب وقار نواز جنگ بہادر) ترجمہ نمبر 412 (نزهة الخواطر ص 1398 میں آپ کا ترجمہ ہے)
کتاب میں موجود علماء کے عربی تراجم:
کتاب میں موجود علماء کے عربی تراجم کے لیے يوسف مرعشلى كى نثر الجواهر والدرر في علماء القرن الرابع عشر اور عبد الحي حسنى كى نزهة الخواطر كى آخرى جلد کا مراجعہ مفید ہوگا۔
مصنف کی سوانح کے اہم مصادر:
(۱)تذکرہ علماء حال کے آخر میں نگرامی صاحب نے اپنی مختصر سوانح لکھی ہے۔
(۲)نزهة الخواطر ص 1183
(۳)نثر الجواهر والدرر في علماء القرن الرابع عشر ص 223 (نثر الجواهر کا ترجمہ نزهة سے منقول ہے)
فائدہ: نگرامی صاحب نے اپنا نام محمد ادریس لکھا ہے، مگر نزهة اور نثر الجواهر میں آپ کو صرف ادریس لکھا گیا ہے اور میم کی بجائے الف میں آپ کا ترجمہ ذکر کیا گیا ہے۔
ایک اہم گذارش:
شیخ رفیق سلفی (علی گڑھ) کی ایک اہم گذارش پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں “کتاب کی تصنیف اور اس کی اشاعت پر 123سال بیت چکے ہیں، کاش ہر چالیس پچاس سال بعد اس طرح کی کتابوں کی تصنیف کا سلسلہ جاری رہتا تو ہمیں اسلامیان ہند کی تاریخ کی معرفت میں بہت آسانی ہوتی۔ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ہمارا کوئی نوجوان اسکالر اٹھے اور وہ محنت کرکے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کے تراجم اسی طرح جمع کردے اور پھر یہ سلسلہ ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہے”۔ (تذکرہ علمائے حال: ایک تعارفی مطالعہ از رفیق احمد رئیس سلفی ۔ یہ مضمون فری لانسر پر 16/ جولائی کو نشر ہوا ہے)
اسی گذارش پر اختتام ہوتا ہے۔ البتہ سلفی صاحب کی اس اہم خواہش پر “هل من مجيب” لکھے بغیر نہیں رہ پایا۔
آپ کے تبصرے