’’ٹن… ٹن…. ٹن….‘‘
گھنٹی بجی، استاد کلاس روم سے باہر نکلے، طلبہ نے اطمینان کی سانس لی۔ صبح سے مسلسل پڑھائی نے شدید اکتاہٹ میں ڈال دیا تھا۔ اب ماسٹر صاحب آئیں گے۔ ۔۔۔جی ہاں! یہ انگریزی کی گھنٹی ہے۔ ماسٹر صاحب اطمینان کے ساتھ دس منٹ لیٹ سے پدھاریں گے۔ کینٹین جانے کا موقع اچھا ہے، بھوک بھی زوروں پر ہے۔ ناشتے میں تو صرف مٹھی بھر چنے نصیب ہوئے تھے۔
اچھی خاصی تعداد کینٹین کی طرف نکل پڑی۔ مختصر ’’ناشتے‘‘ کے بعد دوبارہ کلاس روم پہنچے۔ تھوڑی دیر میں ماسٹر صاحب تشریف لے آئے اور حاضری کے بعد عبارت خوانی شروع ہوگئی۔ اپنے گردو پیش سے بے نیاز طلبہ کو متوکلا علی اللہ چھوڑتے ہوئے ماسٹر صاحب نے دس منٹ میں مقروء ہ عبارتوں کا ترجمہ کیا اور پھر ہشاش بشاش گھنٹی لگنے سے دس منٹ قبل واپس چلے گئے۔ استاد بھی خوش اور طلبہ خوش کیوں نہ ہوں۔
یہ محض واقعہ نہیں، سال کے تعلیمی ایام میں کم وبیش یہ صورت حال تقریباً ہر مدرسے میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ مدارس کے اندر انگریزی تعلیم سے بے توجہی کا شکوہ بجا ہے۔ ہزار احتجاجات کے بعد انگریزی زبان کو مدارس نے داخل نصاب تو کرلیا مگر اس سے سلوک ’’سوکن‘‘ کا رکھا۔ ہماری محض۳۵۔۴۰؍ منٹ کی انگریزی تعلیم نہ جانے ہمیں کس الحاد وارتداد میں ڈال دے گی کہ اس پر توجہ دینے کا کوئی روادار نہیں ہوتا۔ انتظامیہ مگن رہتی ہے کہ ہمارے ادارے میں طلبہ کو انگریزی بھی پڑھائی جاتی ہے۔ عربی اساتذہ کے انتخاب میں تھوڑی چھان پھٹک تو ہوتی ہے لیکن انگریزی ٹیچر نعمت غیر مترقبہ کی طرح مدارس کو وصول ہوتے ہیں۔
دوسری طرف طلبہ کا حال اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ ماسٹر صاحب کے جھرمٹ میں بیٹھے چند ’’معزز انگریزی داں‘‘ طلبہ کے علاوہ ان کی بے نیازی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اکثریت غیر انگریزی بلکہ غیر نصابی سرگرمیوں میں مشغول رہتی ہے۔ ایک جماعت حالات حاضرہ کو موضوع گفتگو بنائے ہوئے ہے تو دوسری طرف کچھ اخبار بینی (اور بسا اوقات فلم بینی) میں مشغول ہیں۔ مزید برآں سب کے درمیان ہم آہنگی اور یک جائی کا یہ عالم ہے کہ وائی فائی آن کیجیے تو بے شمار سگنل آپ کے منتظر ہوتے ہیں اور فیس بک اور واٹس ایپ کے ذریعے خیر خیریت دریافت کرکے ’’صلہ رحمی‘‘ اور ’’اتحاد اسلامی‘‘ کی بہترین مثال قائم ہوتی رہتی ہے۔
یہ کسی یونیورسٹی کے اندر کی نہیں بلکہ مدارس میں انگریزی کی اکلوتی گھنٹی کا حال ہے۔ بدقسمتی سے طلبہ کو کچھ اچھے مدرس بھی نصیب ہوتے ہیں تو اس وقت جب ان کی بنیاد حالت غرغرہ میں ہوتی ہے جہاں کسی طرح کی توبہ ان کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ اس کے بعد طلبہ انگریزوں سے ’’آواز ملک‘‘، ’’انقلاب‘‘ اور راشٹریہ سہارا‘‘ کے ذریعے مناظرہ اور جہاد کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
پھر مدارس کے قوانین میں سنہرے حروف سے لکھا ہوتا ہے کہ ’’طالب علم کو ادارے کے باہر کوچنگ یا کسی بھی طرح کی سرگرمی کی اجازت نہیں ہے۔‘‘
’’ٹن…..ٹن…..ٹن…..ٹن…….‘‘
لیجیے مضمون مکمل ہوتے ہوتے رہ گیا۔ واقعی اس انگریزی کی گھنٹی میں ایسے ایسے الہامی جملے آتے ہیں کہ ان کو صفحۂ قرطاس پر نقل کرکے ہم ’’ادیب العصر‘‘ بن جائیں۔
اس نامکمل مضمون کے لیے معافی کا خواستگار……. ان شاء اللہ پھر ملاقات ہوگی…. انگریزی کی گھنٹی کی نئی تخلیق کے ساتھ۔


آپ کے تبصرے