یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خلاق عالم نے ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق فرماکر ان کی قلبی اطمینان ، دلی سکون اور زندگی کی صعوبتوں اور پریشانیوں کو فرحت ومسرت اور مؤدت ورحمت سے تبدیل کرنے کے لیے حضرت حوا علیہا السلام کو صفحہ ہستی پر وجود بخشا اور انہی دونوں کے ذریعے نسل انسانی کو کرہ ارض پر پھیلایا۔ اس کائنات میں بسنے والے ہر چیز پر رب قدیر کا یہ عظیم ترین احسان ہے کہ اس نے اسے جوڑا جوڑا بنایا۔ مردو عورت کوبھی آپس میں جوڑاجوڑا پیدا کیااور ایک دوسرے کے لیے ان میں کشش اور لگاؤ ودیعت کردی۔باہمی الفت ومحبت ، مؤدت ورحمت اور سکون واطمینان کی دل کش حویلی تعمیر کی اور دل کے نہاں خانے میں شفقت وہم دردی کا حسین گلدستہ سجایا۔عورت کو حسن وجمال ، صبر وتحمل ، شرم وحیااور عفت وعصمت کا پیکر بنایا۔اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے:
(وَمِنْ آیَاتِہِ أَنْ خَلَقَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجاً لِّتَسْکُنُوا إِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُم مَّوَدَّۃً وَرَحْمَۃً إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ) (الروم: ۲۱)
اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمھاری ہی جنس سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کے پاس سکون پاؤاور تمھارے درمیان محبت ورحمت پیدا کی ۔ بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو غور وفکر کرتے ہیں۔
حقیقت میں یہ اللہ رب جلیل ہی کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ جن دو مرد وعورت میں کبھی ملاقات اور کوئی رشتہ داری نہیں ہوتی ، باہم نکاح سے ان کے دلوں میں قرب واتصال کی بنا پر ایک دوسرے کے لیے محبت موجزن ہوتی ہے اور رحمت وہمدردی کے سوتے پھوٹ پڑتے ہیں اور ایک دوسرے پر جاں نثار کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں ۔ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
’’ لم یُر للمتحابین مثل النکاح‘‘ (سنن ابن ماجہ ۱۹۲۰،
زوائد ابن ماجہ (ص: ۲۶۳) میں ہے : ھذا اسناد صحیح ، رجالہ ثقات یہ سند صحیح ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔ امام البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ احادیث صحیحہ (۶۲۵) اورصحیح الجامع (۲۸۷۷) میں صحیح کہا ہے )رشتۂ نکاح کے ذریعے اللہ تعالی میاں اور بیوی کے مابین قلبی محبت پیدا کر دیتا ہے اس لیے آ پس میں زوجین کی طرح بے پناہ محبت کرنے والی جوڑی دیکھی نہیں گئی۔
انسانی معاشرے کا امتداد اور اس کی بقا نکاح جیسے مقدس رشتے سے قائم ہے۔یہ انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے اور انسان کی فطری حاجت ہے ۔ اسی سے کنبہ اور خاندان کا وجود ہے۔یہی انسانی رشتوں کی اساس ہے ۔حسن وشباب کی ناز برداری اور چاہتوں کے اظہار وتکمیل کا جائز ذریعہ ہے۔اسلام ایک دین فطرت ہے ۔ جس طرح اس نے نکاح کے حدود وآداب متعین کیے ہیں اسی طرح جنسی ضروریات کے حدود وآداب اور اس کی تکمیل کے جائز ذرائع بھی متعین کیے ہیں۔اللہ سبحانہ وتعالی نے جنسی ضروریات کی جائز تکمیل کو مومن کی فلاح وکامیابی کا ایک اہم ذریعہ شمار کیا ہے۔ ارشادربانی ہے:
(وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ * إِلَّا عَلَی أَزْوَاجِہِمْ أوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُمْ فَإِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُومِیْنَ * فَمَنِ ابْتَغَی وَرَاء ذَلِکَ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْعَادُونَ) (المومنون: ۵۔۷)
اور (وہ مومنین بھی کامیاب ہیں )جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے( اپنی خواہش پوری کرتے ہیں )وہ لائق ملامت نہیں۔ جو کوئی ان دو کے سوا دیگر ذرائع سے اپنی خواہش پوری کرے گا اور کوئی دوسراراستہ اختیار کرے گا تو وہی لوگ حد سے تجاوزکرنے والے ہیں۔
یہاں پر قابل توجہ یہ بات ہے کہ اللہ تعالی نے بندے کی فلاح وکامرانی کو شرم گاہ کی حفاظت کے ساتھ مشروط کر دیا ہے اور اس کی غایت درجہ اہمیت ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جو اپنی شرم گاہ کی حفاظت نہیں کرے گا اور جنسی بے راہ روی کی راہ پر گامزن رہے گاتووہ فلاح نہیں پائے گا، بلکہ وہ قابل ملامت ہوگا۔ عفت وپاک دامنی اور حشمت وعصمت کی شدید اہمیت کے پیش نظر ہی اللہ تعالی نے عورتوں کو پردہ کرنے اور مومنوں کو نگاہیں نیچی رکھنے اور شرم گاہ کی حفاظت کا حکم دیا ہے اور جنسی بے راہ روی ، فحاشی اور بے حیائی کو فروغ دینے والے فتنے سے بچنے کی اشد تاکید کی ہے ۔
اسلام نے اپنی اخلاقی تعلیمات کے ضمن میں کردار کی بلندی اور فکر وعمل کی پاکیزگی پر بے حد زوردیا ہے ۔رب ذو الجلال نے انسانی ذہن وطبیعت کے مختلف رجحانات کو دیکھتے ہوئے اس کے اندر پائے جانے والے جنسی میلان ورجحان کو صحیح راہ پر لگانے کے لیے مختلف طرح کے احکام وضوابط وضع کیے ہیں تاکہ فرد کی تطہیر وتزکیہ کے ساتھ معاشرے کو بھی اخلاقی بلندی اور عفت وپارسائی کا پیکراورنمونہ بنایا جا سکے۔اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اللہ رب العالمین نے جس کو جس فطرت پر پیدا کیا ہے وہی اس کے لیے بہتر ہے کیونکہ وہی خالق ،وہی مالک ،وہی مدبر اور حکمت والا ہے۔ وہی جانتا ہے کہ کس کا قیام گھر کی چہار دیواری میں مناسب ہے اور کس کا باہری جھمیلوں اور ذمہ داریوں میں بہتر ہے۔ اگر کوئی اللہ کی مقررہ کردہ فطرت کے خلاف عمل کرے گا اور اس سے اعراض کرتے ہوئے اعلان جنگ کرے گا تو کبھی بھی وہ اپنے ارادے میں کامیاب اور اپنے مقصد میں کامراں نہ ہوگا، بلکہ اس کو ذلت ورسوائی کا سامناکرنا پڑے گا ،کیونکہ فرمان باری تعالی ہے:
( فِطْرَۃَ اللّٰہِ الّتَیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلکِنَّ أکْثَرَ النّٰاسِ لَایَعْلَمُوْنَ) (الروم : ۳۰)
عزت و آبرو کا تحفظ اور بے حیائی اور بد اخلاقی سے اجتناب اسلام کے اولین اوراہم مقاصد میں داخل ہے ۔ اس نے جنسی سکون کی تکمیل کو باعث اجر وثواب قرار دیا اور عزت وآبرو اور عصمت وعفت کی تحفظ کی راہ میں مرنے والے مسلمان کو شہادت کی بشارت دیا ۔ کسی کی عزت وآبرو کو اگر کسی نے بے جا طور پر نشانہ بنایا ہے اور اس پرافک و بہتان باندھا تو اس کے لیے باقاعدہ کوڑوں کی سزا مقرر کی،کیونکہ جنسی بے راہ روی اسلام کو کسی طرح گوارہ نہیں ہے۔عفت وعصمت کی تحفظ کے لیے اسلام نے عورتوں کو پابند کیا ہے کہ اگر وہ ضرورت سے باہر نکلیں تو مردوں کے ساتھ اختلاط سے بچیں اور سفر کرنا ہو تو محرم کے ساتھ ہی سفر کریں۔بغیر محرم کے سفر کرنے میں اس کی عزت وآبرو کے لیے خطرہ ہے۔علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے اختلاط کی برائیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عورتوں کا مردوں کے ساتھ اختلاط ہر برائی ومصیبت کی جڑ ہے ۔ اس سے عام عذاب نازل ہوتا ہے اورزنااور فواحش کی کثرت ہوتی ہے ۔ عمومی طور پر لوگ موت کا شکار ہوتے ہیں۔ بد کار عورتوں کے باعث حضرت موسی کے لشکر میں بد کاری پھیل گئی تو اللہ تعالی نے انھیں طاعون میں مبتلا کردیا جس کے نتیجے میں ایک دن میں ستر ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے۔لیکن افسوس کہ ہماری ماؤوں اور بہنوں کو عفت وعصمت پر مبنی اسلام کے قوانین فرسودہ اور غیر مفید نظر آنے لگے ہیں اور آزادی نسواں ، حقوق نسواں،مخلوط تعلیم اور مساوات مرد وزن کا نعرہ لگانے والوں کا ساتھ دیا ہے اور اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مار کراپنی زندگی اجیرن کرلی ہے اور اپنے دائرہ عمل کوچھوڑ کر آفسوں،دفتروں ،ہوٹلوں، میلوں ، پارکوں، کلبوں ، فلمی محفلوں،سینما ہالوں،ڈانس پارٹیوں اور آر کیسٹراکی محفلوں کی زینت بن گئی۔ اسے جی جان سے اپنایا اور گلے لگایا اور ان پر فریب نعروں سے ان درندہ صفت انسانی بھیڑیوں نے ہر گام اور ہر منزل پران کا استحصال کیا اور من چاہے طریقے سے انھیں استعمال کیا،لیکن صنف اناث نے ترقی ، جدت طرازی اور جدت پسندی کہہ کر اس سے اپنا دل بہلایا اور مغربی تہذیب وثقافت کو اپنے گلے کا قلادہ بنایا ۔حالانکہ اسلام نے ان کے ذاتی تشخص کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں ناموس وعزت اورحفاظت وعصمت کی خوش کن چادر میں لپیٹ کران کے حقوق کی حفاظت کی اور دو پیروں والے وحشی درندہ صفت انسانوں کے دام فریب سے بچا یا ، لیکن افسوس کہ بنات حوا نے اسلام کی شیتل چھاؤوں میں رہنے کو پابند سلاسل اور قید وبند سمجھا اور اس کی حدوں کو تجاوز کرکے غیر اقوام کے مانند شتر بے مہار کی طرح گھومنا پھرنا چاہا۔
آج ہر جگہ (خواہ سرکاری ہو یا غیر سرکاری) جنسی بے راہ روی کے اڈے اور وسائل پائے جاتے ہیں ۔ ہم جنس پرستی ، خود لذتی، امرد پرستی، لواطت، جنسی اباحیت، فحاشی، عریانی، بے راہ روی اور بے حیائی کی ساری شکلیں عام ہیں۔ ہر جگہ لڑکیوں کا اژدحام اور ہجوم ہے ۔ ریلوے اسٹیشن ہو یا ایر پورٹ، استقبالیہ دفتر ہو یا عام آفس، یونیورسیٹی ہو یا کالج، فلمی خانہ ہو یا قحبہ خانہ، دوکان ہو یا مارکیٹ، ایڈورٹائز نگ ہو یا اشتہارات کی دنیا، ہر جگہ لڑکیاں ہی لڑکیاں مطلوب ہیں اور وہ بھی نیم عریاں جاذب نظر، تنگ اور باریک لباس میں۔ یورپ کی نقالی میں اسلامی تہذیب وثقافت سے اتنی دوری ہوگئی ہے کہ اگر کوئی مسلم خاتون نقاب پہن کر چلتی ہے تو دوسری مسلم خواتین بجائے حوصلہ افزائی کے اس کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتی ہیں (یہاں شہناز لغاری کے واقعے پر نظر ڈالیے) اور اپنے آپ کو یہ باور کرانا چاہتی ہیں کہ ہم سب سے زیادہ مہذب اور دلدادۂ ثقافت ہیں۔ بتلایئے کہ کیا مردوں کے شانہ بشانہ چلنا، مردوں جیسا لباس پہننا، رقص گاہوں، فلم خانوں، سینما ہالوں اور قحبہ خانوں میں شرکت کرنا اس میں عورت کی بھلائی اور بہتری مضمر ہے؟ اس میں اس کی عزت وآبرو کی ضمانت ہے؟ ہر صاحب فکر اوردانشورقوم کہے گا کہ نہیں۔ اس میں اس کی حفاظت نہیں ہے۔ اس میں اس کی صیانت نہیں ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہے تو غوروفکر اور امعان وتدبر سے کام لیجیے پندرہ سو سال قبل رسول عربی خاتم الانبیاء، محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلنے والے یہ الفاظ اپنے نہاں خانۂدل میں نقش کر لیجیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کارشاد گرامی ہے:
’’صنفان من أہل النار لم أرھما: قوم معہم سیاط کأذناب البقر یضربون بھا الناس، ونساء کاسیات عاریات ممیلات مائلات رؤوسھن کأسنمۃ البخت المائلۃ، لا یدخلن الجنۃ ولا یجدن ریحھا، وان ریحھا لیوجد من مسیرۃ کذا وکذا‘‘ . صحیح مسلم(۵۷۰۴)
عورت کے بارے میں اسلام کا کہنا یہ نہیں ہے کہ وہ مرد سے کم ہے ۔اسلام کا کہنا صرف یہ ہے کہ عورت مرد سے مختلف ہے۔ قرآن کہتا ہے:
( وَلَیْسَ الذَّکَرُ کَالأنْثیٰ )
مثال کے طور پر مرد کے اندر اللہ تعالی نے صلاحیت رکھی ہے کہ وہ عورت کو بار آور کر سکتا ہے لیکن خود بار آور نہیں ہوسکتا ۔اس کے بر عکس عورت کے اندریہ صلاحیت ودیعت کررکھی ہے کہ وہ بار آور ہو سکتی ہے لیکن بار آور کر نہیں سکتی۔آج پوری دنیا مغربی انقلابات سے حیرت زدہ ہے اور اس کے ہر ہر عمل کی تا حد جنون رسیا ہوچکی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اس سے بہتر کوئی آئیڈیل نہیں ۔ اس سے اچھا کوئی کلچر نہیں۔اس سے عمدہ کوئی ثقافت نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج انسانی معاشرے کا ہر فرد چاہے وہ مسلم ہویا غیر مسلم یورپی تہذیب وثقافت کی نقالی کیے بغیر اپنے آپ کو مکمل انسان ہی نہیں تصور کرتا ۔ یورپ اور مغربی تہذیب وکلچر کا یہ بھوت مسلم معاشرے پر اس قدر سوار ہے کہ اسے روکنا مشکل نظر آتا ہے اور اس کے سامنے باندھ باندھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ خصوصاً نوجوان مکمل طور پرجنسی بے راہ روی ، فلم بینی ، ریڈیو، ٹیلی ویژن، مخرب اخلاق کتابیں ، فحش لٹریچرس، جدید آلات جیسے موبائل اور انٹر نیٹ کے گرویدہ نظر آتے ہیں اور ان کے آئیڈیل تو وہ فلمی ہستیاں اور کرکٹرس ہیں جو عیش اوردنیاوی لذتوں میں غرق ہیں۔اسی طرح آج کی صنف اناث کے لیے توآئیڈیل اور نمونہ مغرب اور یورپ کی وہ عورتیں ہیں جو کھلے عام برائی کا ارتکاب کرنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتیں،بلکہ جانوروں کے حقوق کے نام سے گروپ میں مادر زاد ننگی اور برہنہ ہوکر فوٹو کھینچوانا ، پوز دینااپنا حق سمجھتی ہیں۔ حالانکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والی مسلم عورتوں کے لیے اسوہ اور آئیڈیل تو امہات المومنین اور صحابیات کرام ہیں ۔ امہات المومنین اور صحابیات کرام وہ پاک باز ، پاک طینت ہستیاں ہیں جن کے تقدس وپاکیزگی کی تعریف عرش والے نے آسمان سے کی ہے اور جن کی براء ت خالق ارض وسماء کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔فطرت کی خلاف ورزی سے کیسے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔عورت اپنی جوانی کی عمر میں بڑی آسانی سے اس قسم کے خوش کن اور دل فریب نظریات کا شکار ہوجاتی ہے مگر جب اس کی عمرحد شعور کو پہنچتی ہے توا س کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا راستہ غلط تھا۔اس کا انتخاب درست نہ تھا۔ مگر یہ سوجھ بوجھ اس کواس وقت ہوتی ہے جب تلافی مافات کا وقت نہیں ہوتا اور کف افسوس ملتے ملتے رہ جاتی ہے اور حسرت ویاس کی کفن اوڑھ کر گہری نیند سو جاتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس وقت مغربی تہذیب اخلاقی جذام میں مبتلا ہے ۔ عورتوں کے حقوق وفرائض اور آزادی میں افراط وتفریط اور عدم توازن کے نتیجے میں زبر دست ٹھوکریں کھائی ہیں۔ اس اخلاقی جذام کا اصل اثر اس کی جنسی بے راہ روی ہے جو حیوانیت کی حد تک پہنچ گئی ہے ۔اس کیفیت کا حقیقی اوراولین سبب عورتوں کی حد سے بڑھتی ہوئی آزادی ، مکمل بے پردگی ، ہم جنس پرستی ، مردو زن کا باہم اختلاط اور شراب نوشی اور ان جیسے دیگر وسائل ہیں۔اس کے برے اثرات نے صرف اہل مغرب ہی کو نہیں پوری دنیا کو اپنے حصار میں لے لیا ہے جس کی وجہ سے انسانیت چر مرا گئی ہے ۔ ہلاکت کے دہانے پر کھڑی ہے ۔ تہذیب وتمدن اور سماج ومعاشرہ کی چولیں ہلا رکھی ہیں۔عصمتیں تارتار ہوگئی ہیں۔ اخلاقی قدریں پامال ہوگئی ہیں۔ خوف ودہشت اور ڈر ہمارا مقدر بن گیا ہے ۔زنا، سحاق اور لواطت ان جیسی فحاشیاں زندگی کا حصہ بن گئی ہیں اور قوموں کی شان وشوکت اور شہامت وسطوت کو گھن کی طرح چاٹ گئی ہیں۔ جنسی بے راہ روی کی وجہ سے مرد مرد نہیں رہتا ہے ۔ ذہنی سکون غارت ہوجاتا ہے۔طلاق کی نوبت آجاتی ہے۔اس کا اثر صرف اسی پر نہیں بلکہ اس کے بچوں اور اس معاشرے پر پڑتا ہے جس کی فضا میں سانس لیتا ہے۔ چنانچہ ۲۳ ستمبر ۱۹۹۸ء ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ (ہندی) کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ممبئی میں بعض اسکولوں کے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ بارہ (۱۲) سے پندرہ (۱۵) سال کی عمر کی طالبات میں تقریبا ًتیرہ (۱۳) فیصد طالبات زنا کے تجرباتی عمل سے گزر چکی تھیں اور ان میں پچہتر (۷۵) فیصد لڑکیوں کے ساتھ زنا میں ایک سے زائد لڑکے شریک تھے‘‘ ۔ایک دوسری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’چودہ (۱۴) سال سے سولہ (۱۶) سال کی عمر کے سو (۱۰۰) لڑکے اور لڑکیوں کے انفرادی جانچ سے پتہ چلا ہے کہ ان میں اڑتیس (۳۸) فیصد لڑکوں اور ستائیس (۲۷) فیصد لڑکیوں کا اپنے دوستوں (بوائے فرینڈ) کے ساتھ جسمانی رشتہ قائم ہو چکا ہے، جن میں تقریباً دس (۱۰) فیصد لڑکے اور لڑکیاں جنسی امراض کے شکار پائے گئے‘‘۔ یہ ہے مغربی تہذیب کی دین اور جنسی بے راہ روی کا نتیجہ۔ یہ عصرحاضر کا وہ فتنہ ہے جو قتل سے زیادہ بدتر ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے:
(وَالْفِتْنَۃُ أشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ) (البقرہ: ۱۹۱)
فتنہ برپا کرنا قتل سے زیادہ نقصان دہ ہے۔
سوویت یونین کے آخری صدر میخائیل گوربا چوف نے مغربی تہذیب اور اس سے انسانیت پر ہونے والے خطرات کو واضح لفظوں میں بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’پروسٹرائیکا‘‘ میں لکھا ہے:’’ہماری مغرب کی سوسائٹی نے عورتوں کو گھر سے باہر نکالا اور اس کے گھر سے باہر نکالنے کے نتیجے میں بے شک ہم نے کچھ ماد ی فوائد حاصل کیے اور پیدا وار میں کچھ اضافہ ہوا ،اس لیے کہ مرد بھی کام کررہے ہیں اور عورتیں بھی کام کر رہی ہیں لیکن پیدا وار کے زیادہ ہونے کے باوجود ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہو گیا ہے اور فیملی سسٹم تباہ ہونے کے نتیجے میں ہمیں جو نقصان اٹھانے پڑ ے ہیں وہ نقصانات ان فوائد سے کہیں زیادہ ہیں جو ہمیں حاصل ہو رہے ہیں لہٰذا میں اپنے ملک میں ’’پروسٹرائیکا‘‘ کے نام سے ایک تحریک شروع کر رہا ہوں ۔اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ جو عورتیں گھر سے باہر نکل چکی ہیں ان کو واپس کیسے گھر لایا جائے ۔اس کے طریقے سوچنے پڑیں گے ورنہ جس طرح ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہوچکا ہے اسی طرح ہماری پوری قوم تباہ ہو جائے گی‘‘۔
آپ کے تبصرے