حسنین کریمین (رضی اللہ عنہما) سے اپنی نسبت جوڑنے والاوہ ندوی ایک بار پھر صحابۂ رسولﷺ کے خلاف زہر افشانی کرتا پھر رہا ہے۔مسلم امہ کے درمیان مسموم فضا قائم کرنے میں لگا ہوا ہے۔ یہ شخص کبھی حضرات معاویہ و مغیرہ (رضی اللہ عنہما)کی شان میں گستاخیاں کرتا ہے،کبھی عام صحابہ کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ کبھی ان نفوسِ قدسیہ کو دو قسموں میں بانٹ کر ان کی تجریح وتنقیص میں اپنی صلاحیتیں صرف کرتا نظر آتا ہے۔اور آج ہی اس شخص نے ایک جلیل القدر اور نامور محدث صحابی کو اموی سلطنت کا درباری مولوی (نعوذ باللہ)قرار دیا ہے،معاویہ (رضی اللہ عنہ) کے ظلم (خاکم بدہن)کے خوف سے آدھی احادیث گول کر گئے جیسے بے تکے الزام لگانے سے کوئی شرمندگی محسوس نہ کی اوراحادیث کی تبلیغ کے چھپانے کا الزام ان کے سر منڈھ دیا۔ثم نعوذ باللہ من ذالک
عجیب ذہنی مفلسی ہے کہ ایک ایسے صحابی ٔ جلیل القدر پر افترا پردازی کرتے ہوئے شمہ برابر شرم و حیا آڑے نہیں آئی :
جنھوں نے قبول ِ اسلام کے بعد اپنی زندگی کا سارا سارا حصہ حفظ احادیث نبی ﷺ،نشر احادیث رسول ﷺ،خدمت احادیث رسول ﷺاورتبلیغِ احادیث رسولﷺ میں گزار دی۔
ایسی عبقری شخصیت جنھوں نے آپﷺ کی خدمت میں اپنے آپ کو وقف فرما دیا۔کوئی گھڑی ایسی نہ گزری جس میں آپ ﷺکی خدمت ِ عالیہ سے غائب رہے ہوں۔
ایسی بے مثال اور لا زوال ہستی جن کی خدمات لا زوال اور جن کی کوششیں لا ثانی اور اسلام کی نشر و اشاعت کے لیے اپنے تن من دھن سب کی قربانیاں پیش فرمائیں۔
ہجرت سے پہلے اسلام کی دولت سے مالا مال ہونے والے اس صحابی ٔ جلیل کی خدمات عظیم بھی ہیں اور کبیر بھی(مشہور تو یہی ہے کہ آں رضی اللہ عنہ نے سنہ ۷ ہجری میں خیبر والے سال میں اسلام قبول فرمایا۔لیکن دلائل، قرائن اور شواہد سے یہی راجح معلوم ہوتا ہے کہ آں رضی اللہ عنہ نے ہجرت سے پہلے اسلام قبول کرلیا تھا۔یہی قول ڈاکٹر مصطفی سباعی نے حافظ ابن حجر وغیرہ کے حوالہ سے مدلل ذکر فرمایا ہے۔(السنۃ و مکانتہا فی التشریع الإسلامی از:مصطفی سباعی ص:۳۵۹/ڈاکٹر عجاج محمد الخطیب کی ابو ہریرۃ: روایۃ الإسلام ص ۷۰/ڈاکٹر مصطفی اعظمی کی تحقیق ابن خزیمہ ۱؍۲۸۰)
جو اپنے زہد و ورع میں بے مثال،اپنے تقوی و طہارت میں بے نظیر تھے۔جن کی احادیث و روایات سے کتب احادیث مملو و مشحون ہیں۔
ایک ایسے جلیل القدر حافظ حدیث جنھوں نے ۵۳۷۴ حدیثیں روایت کیں۔(سیر أعلام النبلاء:۲/۶۳۲)حدیث کی کوئی کتاب آپ کو ایسی نہیں ملے گی جس میں آپ کی احادیث بکثرت نہ مروی ہوں۔
آں رضی اللہ عنہ کی عبقری شخصیت ایسی ہستی نامدار کا نام ہے جن کے بارے میں امیر المؤمنین امام بخاری (رحمہ اللہ) کو کہنا پڑا :’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے دور کے جتنے بھی راویان حدیث ہیں ان میں سے سب سے زیادہ حافظ تھے۔‘‘ابو صالح السمان کو یوں گویا ہونا پڑا : ’’صحابہ ٔ کرام میں سب سے زیادہ حافظِ حدیث ابو ہریرہ ہیں۔ (الإصابہ ۲/۲۰۵)حضرت کعب الأحبار فرماتے ہیں :توراۃ کے سب سے جانکار سیدنا ابو ہریرہ تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ :۱/۳۵)
ایسے قد آور حافظ حدیث جن کے فضل و منقبت کی گواہی خود صحابہ نے دی۔
ایسے حافظ حدیث رسولﷺ جن کی شان میں گستاخیاں کرنے والا دنیا ہی میں اللہ کی سزاؤں سے دو چار ہوا۔کسی پر سانپ گرا اور وہ مر گیا اور کسی ابو ریّہ نے (ابو ہریرہ نے مارا ڈالا،ابو ہریرہ نے مار ڈالا ) کہتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوا۔
جن کی ایسی سعادت کہ قوت ِحافظہ کے لیے خود رسول اللہﷺ نے دعا فرمائی ہو۔(بخاری حدیث نمبر:۱۱۹)
وہ عظیم و عبقری شخصیت جنھوں نے حفظ احادیث رسولﷺ کے لیے اپنا سب کچھ تج دیا اور صرف ایک ہی لگن میں مگن رہے،حفظِ احادیث رسولﷺ۔
جن کی محبت کے لیے خود رسول ِ ہدایت ﷺ نے دست ِ دعا دراز کی،چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں:
قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يُحَبِّبَنِي أَنَا وَأُمِّي إِلَى عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ، وَيُحَبِّبَهُمْ إِلَيْنَا. قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” اللَّهُمَّ حَبِّبْ عُبَيْدَكَ هَذَا – يَعْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ – وَأُمَّهُ إِلَى عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِينَ، وَحَبِّبْ إِلَيْهِمُ الْمُؤْمِنِينَ “. فَمَا خُلِقَ مُؤْمِنٌ يَسْمَعُ بِي، وَلَا يَرَانِي إِلَّا أَحَبَّنِي.(صحیح مسلم، حدیث نمبر:2491)میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! اللہ سے دعا فرمادیجیے کہ وہ میری اور میری والدہ کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں ڈال دے اور ہمارے دلوں میں ان کی محبت پیدا فرما دے تو جناب رسول اللہ (ﷺ) نے یوں دعا فرمائی: اے اللہ! اپنے بندوں کے ہاں محبوب بنا دے اور مؤمنین کی محبت ان کے دلوں میں ڈال دے ‘‘ اور کوئی مومن ایسا پیدا نہیں ہوا جس نے میرا ذکر سنا، یا مجھے دیکھا ہو اور اس نے مجھ سے محبت نہ کی ہو۔ اللہ اکبر
جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کی جا بہ جا خدمت فرمائی ہو،وضو کروایااور خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔
جنھوں نے حضرت حسن کا بطن مبارک حب آل بیت میں ڈوب کر چوما ہے ۔(مسند احمد :۷۴۶۲،صحیح ابن حبان :۶۹۶۵و سندہ صحیح ) اس امر پر کیاآج کا دعوی دارِ حسینیت کیا سنجیدگی سے رات کے خالی وقت میں غور کرے گا ؟ جو اپنے آپ کو حسینی کہتے نہیں تھکتا۔
وہ صحابی ٔ جلیل جنھوں نے نبی ٔ کریم ﷺ کو ٹوٹ کر چاہا۔ٹھیک اسی طرح جس طرح دیگر صحابہ نے آپﷺ کو چاہا تھا،آپ سے محبت کی تھی اور آپ کو دل و جان سے عزیز تر رکھتے تھے۔
کیا آپ جانتے ہیں اس صحابی ٔ عظیم کا کیا نام ہے ؟ایسی ستودہ صفات ہستی کا نام نامی اسم گرامی سیدنا ابو ہریرہ ہے،رضی اللہ عنہ و أرضاہ۔
آپ پر طعن و تشنیع کے تیر و تفنگ چلانے کا بیڑہ صرف آج کے گمراہوں نے نہیں اٹھایا بلکہ اس سے قبل بھی اس طرح کے منحوس عمل انجام دیے جاچکے ہیں مگر الحمد للہ محبان ِ صحابہ اور شیفتگانِ احادیث نبویہ نے ہمیشہ دفاع ِ صحابہ کا فریضہ انجام دیا۔
(۱)أبو هريرة: راوية الإسلام محمد عجاج الخطیب
(۲)ابو ہریرہ صاحب رسول اللہ ﷺ از:ڈاکٹر حارث بن سلمان
(۳)دفاع عن أبی ہریرۃ از :عبد المنعم صالح العلی العزی
(۴)أبو هريرة في ضوء مروياته بشواهدها وحال إنفرادهااز ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمن الأعظمی
(۵)دفاع عن أبي هريرة رضي الله عنه وإزالة الشكوك والشبهات حوله وحول مروياته دراسة نقدية وتحليلية از :عبد جلقادر بن حبیب اللہ السندی
(۶)سیرت حضرت ابو ہریرہ از طالب ہاشمی
یہ مستقل مؤلفات ہیں ۔ان کے علاوہ صحابہ کی حیات و خدمات پر مشتمل تالیفات ہیں جن میں تذکرہ ٔ خیر فرمایا گیا ہے۔آپ کی مسند احادیث الگ سے یکجا بھی کی گئی ہیں۔
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
ماشاء الله بہت عمدہ اور بہت خوب لیکن لکھتے تو سب ہیں شیخ پر اس رافضی خبیث شخص کو جواب دینا ہو تو ویڈیو کے ذریعہ صحیح اور حق بات بتانا ہوگا اور نہیں تو مناظرہ کرکے اس کو منہ توڑ جواب دیا جانا چاہیے
بارك الله فيكم وزاد حرصكم