مقامِ صحابہ اور سلمان ندوی صاحب کی ہرزہ سرائی

آصف تنویر تیمی عقائد و نظریات

صحابہ کا مقام انبیاءعلیہم الصلاة والسلام کے بعد سب سے بلند ہے۔ ان کی عظمت اور بلندی درجات کے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے آخری نبی( محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کی ہم نشینی کے لیے ان کو پسند کیا۔ اور ان نفوس قدسیہ کی ایک لمحے کی صحبت کو( جو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بسر کی) دوسرے لوگوں کی زندگی بھر کے اعمال سے بہتر قرار دیا۔بلکہ حدیث رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کے مطابق کسی صحابی کا ایک سیر اللہ کی راہ میں خرچ کرنا دوسرے لوگوں کا احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرنے سے کہیں بہتر ہے۔
کتاب وسنت میں جگہ جگہ صحابہ کرام کے مقام اور ان کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے جن کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ جانے انجانے میں ہم سے کوئی گستاخی کسی صحابی سے متعلق نہ ہوجائے،خاص طور سے اس دور میں جب کہ یہودیت اور شیعیت نے دانستہ طور پر صحابہ کے مقام ومرتبے کو داغدارکرنے کی مہم شروع کررکھی ہے،سنیوں میں سے انھوں نے آلہ کار بنائے ہیں تاکہ وہ اپنے مشن میں پورے طور پر کامیاب ہوسکیں۔آج صحابہ کی توہین اور گستاخی ان لوگوں کی زبانوں سے بھی ہورہی ہے جن کی ذات اور شخصیت کبھی دفاع صحابہ کے لیے امین تصور کی جاتی تھی،ایسی حالت میں ہمیں پہلے سے زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے،تاکہ کوئی سلمان ندوی صاحب جیسا شخص ہم میں سے اٹھ کر صحابہ کرام کی پاک طینت جماعت پر(نعوذ باللہ) منافقت کا لبادہ نہ اڑھا دے۔صحابہ کو مخلص اور غیر مخلص کے زمرے میں نہ بانٹ دے۔حالانکہ قرآن وحدیث میں اس قسم کی کوئی تقسیم نہیں کی گئی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو بھی منافقین تھے وہ معروف ومشہور تھے،صحابہ بھی ان سے باخبر تھے،اس لیے یہ بات کہ صحابہ منافق بھی تھے، آج سے پہلے کسی نے نہ کی،بلکہ صحابیت، منافقت کی ضد ہے دونوں اکٹھے نہیں ہوسکتے۔لیکن نہ جانے کیوں مولانا سلمان ندوی صاحب نے اپنی متعدد تقریروں میں اس قسم کی جرا ٔت کی ہے۔کچھ سالوں سے ان کا اسلوب یہ بتلاتا ہے کہ وہ یہودیوں اور شیعوں کے زر خرید غلام بن چکے ہیں اور اپنے انھی آقاؤں کے اشارے پر لکھتے اور بولتے ہیں، وہ اپنی عاقبت کی مطلق پروا نہیں کرتے۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
”اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے“۔(التوبہ:100)
دوسری جگہ اللہ تعالی نے صحابہ کے مقام کو ان الفاظ میں اجاگر کیا:
”محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحم دل ہیں،تو انھیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کررہے ہیں اللہ تعالی کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں،ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے“۔(الفتح:29)
ایک اور آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا:
”(فے کا مال) ان مہاجر مسکینوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکال دیے گئے ہیں وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالی کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی راست باز لوگ ہیں“۔(الحشر: 8)
اللہ تعالی نے فرمایا:
”البتہ بے شک جن کے لیے ہماری طرف سے نیکی پہلے ہی ٹھہر چکی ہے۔ وہ سب جہنم سے دور ہی رکھے جائیں گے“۔(الانبیاء:101)
مزید فرمایا:
” تم میں سے جو فتح کے بعد خرچ اور جہادکریں گے وہ کبھی ان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتے جنھوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا۔ ان کا درجہ بعد میں خرچ اورر جہاد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے اگرچہ اللہ نے دونوں ہی سے اچھے وعدے فرمائے ہیں۔ جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے باخبر ہے“۔(الحدید:10)
انھی آیات سے حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ سب صحابہ رضی اللہ عنہم قطعی طور پر جنتی ہیں۔(الاصابة) امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی ’الاعتقاد والہدایة الی سبیل الرشاد علی مذہب السلف واصحاب الحدیث‘ میں یہی کہا کہ صحابہ کرام جنتی اور مغفور ہیں۔ ہم یہ قطعا نہیں کہتے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم معصوم ہیں ان سے گناہ کا صدور ہوہی نہیں سکتا،مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ امت کے تمام افراد سے سب سے زیادہ عادل،صادق القول اور راست باز تھے اگر ان سے غلطیاں یا گناہ ہوئے تو اس کے مقابلے میں ان سے ایسے اعمال حسنہ پائے گئے جو ان کے گناہوں کا کفارہ بن گئے اور ان کی حسنات کا پلہ ان کی تقصیرات سے بہر نوع بھاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بارے میں اللہ سبحانہ تعالی نے متعدد مقامات پر اپنی رضامندی کا اظہار فرمایا اور ان کے ایمان واخلاص کی تعریف کی، ان کو معیار ایمان قرار دیا، ان کے ایمان میں شک کرنے والوں کو منافق ٹھہرایا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں: مشاجرات صحابہ اور سلف کا موقف)
مذکورہ آیتوں کے علاوہ بھی کئی آیات ہیں جن سے صحابہ کی عظمت ومقام کا بخوبی اندازہ ہوتا ہےاور اس حقیقت کا بھی علم ہوتا ہے کہ ان سے دشمنی کرنے والے،ان کی شان میں کسی بھی طور گستاخی کرنے والے دنیا وآخرت کے رذیل ترین لوگ ہیں،جن کو ہوش کا ناخن لینا چاہیے اور فورا اپنے گناہوں کا احساس کرنے کے ساتھ منہج سلف کے مطابق اپنی بقیہ زندگی بسر کرنی چاہیے،ایسا نہ ہو کہ یہودیوں اور شیعوں کی دوستی انھیں ایمان واسلام کی دولت سے محروم کردے۔
ان گنت حدیثوں میں بھی صحابہ کے فضائل ومناقب بیان کیے گئے ہیں جن میں چند حدیثوں کے ترجمے ذیل کے سطور میں قلمبند کیے جاتے ہیں:
صحیح بخاری اور مسلم کی روایت ہے کہ صحابی رسول خالد بن ولید اور عبد الرحمن بن عوف(رضی اللہ عنہما) کے درمیان کسی بات کو لے کر ناچاقی تھی،خالد بن ولید(رضی اللہ عنہ)نے کچھ نازیبا کلمات عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے تعلق سے ادا کردیے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”تم لوگ میرے کسی صحابی کو برا بھلا مت کہو،تم میں کا کوئی شخص احد پہاڑ کے مساوی سونا بھی خرچ کرکے ان کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا،جنھوں نے ایک سیر یا آدھا سیر(اللہ کے راستے میں) خرچ کیا ہے“۔(صحیح بخاری ومسلم)
اس حدیث میں یہ بات قابل غور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جو ایک جلیل القدر صحابی ہیں،جنھوں نے اپنی سربراہی میں بے شمار ملکوں اور شہروں کو فتح کیا،جب ان کو کسی صحابی کی شان میں ادنی سے نازیبا کلمات ادا کرنے سے منع فرمادیا تو ہم اور آپ یا غیر صحابی کے لیے کہاں گنجائش ہے کہ وہ صحابہ کی ذات میں حرف گیری یا ان کو لعن طعن کرے،جیسا کہ پچھلے دنوں دانستہ طور پر مولانا سلمان ندوی صاحب نے ابو ہریرہ،معاویہ(رضی اللہ عنہما) اور دیگر صحابہ کرام کو کھلے عام مطعون کیا ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تم سب محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھیوں کو گالی نہ دو،ان میں سے ہر ایک کی ایک گھڑی(جو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزاری)،تم میں سے ہر ایک کے چالیس سال کے اعمال سے بہتر ہے“۔(مسند احمد)
عبد اللہ بن مغفل سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملے میں، ان کو میرے بعد ہدف تنقید نہ بنانا، کیوں کہ جس نے بھی ان سے محبت کی تو یہ میری محبت کی بنا پر اور جس نے ان سے بدظنی وبغض رکھا اس نے مجھ سے بدظنی کی بنا پر ان سے بغض رکھا جس نے ان کو ایذا دی اس نے مجھ کو ایذا دی“۔ (ترمذی،وحسنہ)
انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میرے صحابہ سے درگزر کرو، میرے صحابہ کو برا مت کہو“۔(البزار،علامہ ہیثمی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے سب راوی صحیح بخاری ومسلم کے راوی ہیں)
اسی طرح عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو برانہ کہو اللہ تعالی کی اس پر لعنت ہو جو میرے صحابہ کو برا کہتا ہے“۔(طبرانی اوسط، علامہ ہیثمی کے بقول اس کے بھی تمام راوی سوائے علی بن سہل کے صحیح بخاری کے ہیں)
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ:
”حکم تو یہ دیا گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے بارے میں استغفار کرو،مگر لوگوں نے انھیں برا بھلا کہنا شروع کردیا“۔(صحیح مسلم)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
”کہ صحابہ کرام کو برا مت کہو، بے شک اللہ تبارک وتعالی نے یہ جانتے ہوئے کہ وہ عنقریب قتل وقتال میں مبتلا ہوں گے ہمیں ان کے بارے میں استفغار کا حکم فرمایا ہے“۔
ایک حدیث میں خاص انصاری صحابہ سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ان سے مومن ہی محبت کرتے ہیں اور ان سے منافق ہی بغض رکھتے ہیں،جو ان(انصار) سے محبت کرتے ہیں اللہ ان سے محبت کرتا ہےاور جو ان(انصار) سے بغض رکھتے ہیں،اللہ ان سے بغض رکھتا ہے“۔
ایک دوسری روایت میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ:
”انصار(صحابہ) سے اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والا شخص بغض رکھ ہی نہیں سکتا“۔
جب یہ فرمان انصار صحابہ سے متعلق کہی گئی ہے تو اندازہ لگائیے ان لوگوں کا کیا حکم ہوگا،جو مہاجرین صحابہ یا دونوں(انصار ومہاجرین) کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں،چاہے وہ روافض(شیعہ) ہوں یا سلمان ندوی جیسا کوئی احمق انسان جو کتاب وسنت کا علم رکھنے کے باوجود گمراہ ہوچکا ہو۔ایک اور روایت میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار صحابہ کرام کے بارے میں فرمایا:
”کہ ان کے نیک آدمیوں کی نیکیوں اور خوبیوں کا اعتراف کرو اور ان کے خطاکاروں کی خطاو ٔں اور لغزشوں سے صرف نظر کرو“۔(صحیح بخاری ومسلم)
یاد رکھیے کہ روافض کا جرم کسی بھی اعتبار سے خوارج سے کم نہیں ہے(ھؤلاء الرافضة إن لم یکونوا شرا من الخوارج المنصوصین-المنصوص علی قتالہم ومروقہم من الدین- فلیسوا دونھم…)[شرح العقیدة الطحاویة،ص395]اور اسی لیے علی رضی اللہ عنہ نے متشدد قسم کے شیعوں کو جو علی رضی اللہ عنہ کو معبود سمجھتے تھے جلا ڈالااور وہ برملا اس بات کا اعلان کرتے تھے کہ جو بھی مجھے ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت دے گا اسے افترا پردازی کرنے والوں کی طرح سزا دی جائے۔
تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ رافضیوں(شیعوں) نے ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف کافروں اور دین کے دشمنوں کا ساتھ دیا ہے،جب اسلامی حکومتوں پر تاتاری حملہ آور ہوئے تو کھل کر شیعوں نے تاتاریوں کا ساتھ دیااور رافضیوں ہی کی شہ پاکر تاتار اسلامی سلطنت خراسان،عراق اور شام میں داخل ہوئےاور ہمیشہ سے روافض مشرکوں،یہودیوں اور عیسائیوں کے آلہ کار بنے رہے۔جس کی وجہ سے عام مسلمانوں کو خسارہ اٹھانا پڑااور اسلامی حکومتیں تاراج ہوتی رہیں۔اتنی بات مسلم ہے کہ وہ فرقے جو اسلام کی طرف آج تک اپنی نسبت کرتے رہے ان میں سب سے زیادہ جھوٹے مکار اور دسیسہ کار روافض ہیں۔اور افسوس انھی جھوٹوں کی تائید وتصدیق میں بعض اپنے بھی لگ گئے ہیں اور انھی کی دیکھا دیکھی اپنے لوگ بھی ذخیرہ حدیث کو مشکوک گرداننے لگے ہیں۔حالانکہ شیعوں کی معتبر کتابیں بھی یہود ونصاری کی کتابوں سے زیادہ من گھڑت ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا:
”جنھوں نے درخت کے نیچے بیعت کی وہ لوگ دوزخ میں داخل نہیں ہوں گے“۔(مسلم)
دوسری روایت میں ہے کہ ہرگز وہ لوگ جہنم میں داخل نہیں ہوں گے جو (جنگ) بدر اور (صلح) حدیبیہ میں شامل ہوئے۔اور بعض روایتوں میں تمام بدری صحابہ کو بخشش کا پروانہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دیا گیا ہے۔
ہم مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ انبیاءعلیہم السلام کے بعد سب سے زیادہ صاف دل رکھنے والا گروہ صحابہ کا گروہ ہے اور دین اسلام کی سربلندی اور اقبال کے لیے ان کی قربانیاں بے نظیر ہیں۔وہ ایمان واسلام کا اعلا معیار ہیں۔وہ اولیاءمیں سب سے اونچا مقام رکھتے ہیں۔اس عزت ومقام کے باوجود ہم اہل سنت والجماعت صحابہ سے متعلق غلو نہیں کرتے ان کا مقام نبیوں سے نہیں بڑھاتے۔اور نہ ہی کسی صحابی کی تنقیص اور توہین کرتے ہیں چاہے وہ اہل بیت میں سے ہوں یا دیگر صحابہ،ہم سب سے الفت اور محبت رکھتے ہیں اور ہم ان کو عدل وانصاف کے ساتھ وہ مقام دیتے ہیں جس کے وہ مستحق ہیں،تعصب وتنگ نظری ہمارے یہاں شیعوں کی طرح نہیں پائی جاتی۔اور اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ صحابہ کی محبت کو دین،ایمان اور اللہ کی رضامندی کا ذریعہ بھی سمجھتے ہیں۔
صحابہ کرام کے باہمی اختلافات سے متعلق ہمارا موقف کیا ہونا چاہیے، اس کی وضاحت کے لیے ذیل کے سطور میں وقت کے عظیم محدث مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کی مایہ ناز کتاب’مشاجرات صحابہ‘ سے چند سطریں ہدیہ قارئین کی جاتی ہیں،تاکہ مسئلہ پورے طور پر ذہن نشین ہوجائےاور پھر اس نازک مسئلے میں ہم سے غلطی نہ ہو:
موصوف رقمطراز ہیں:
”بعض لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین ہونے والے مشاجرات واختلافات کو اور اسی طرح ان کی باہمی تکرار کو ہوادے کر اپنے دل کے روگ کی تسکین چاہتے ہیں۔ ان کی اس ناپاک جسارت کا نتیجہ ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بالعموم اور عثمان،معاویہ،عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم کے بارے میں بالخصوص سوئے ظن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کا ادب واحترام سے نام بھی نہیں لیتے بلکہ ان کا دفاع کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم اور ان کے باہمی اختلافات کو موضوع سخن بنانا ہی درست نہیں بلکہ اہل سنت کے عقیدہ پر مشتمل کتب میں اس مسئلہ کو بیان کرکے خبردار کردیا گیا ہے، یہ مسئلہ معمولی نوعیت کا نہیں اہل اسلام کے عقیدہ کا مسئلہ ہے کہ مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم سے کف لسان کیا جائے۔ یہی سلامتی کا راستہ ہے۔
خلیفہ راشد عمر بن عبد العزیز سے جنگ صفین میں شریک ہونے والوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا:”اللہ تبارک وتعالی نے ان کے خون سے میرے ہاتھوں کو پاک صاف رکھا ہے، میں پسند نہیں کرتا کہ اپنی زبان ان کے بارے میں آلودہ کروں“۔(جامع بیان العلم) امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنے شاگرد امام ربیع رحمہ اللہ سے فرمایا:”اے ربیع! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں بہ تکلف بحث وتکرار نہ کرو، کل تمھارے مد مقابل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے“۔(سیر اعلام النبلاء) امام بکر المروزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ آپ علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں تو انھوں نے فرمایا:”میں ان کے بارے میں اچھی بات کہتا ہوں اللہ تعالی ان سب پر رحمت فرمائے“۔(السنة للخلال 64) امام احمد رحمہ اللہ سے یہ بھی سوال کیا گیا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ افضل ہیں یا عمر بن عبدالعزیز، تو انھوں نے فرمایا:”معاویہ افضل ہیں ہم صحابہ جیسا کسی کو بھی تصور نہیں کرتے“۔( السنة للخلال534)بلکہ امام احمد رحمہ اللہ نے تو یہاں تک فرمادیا:”جب دیکھو کوئی کسی صحابی کی تنقیص کرتا ہے اور اس کا ذکر ناروا طریقے سے کرتا ہے تو اس کے اسلام کو مشکوک سمجھو“۔( اصول اعتقاد)
مذکورہ تمام آیات واحادیث اور سلف کے حوالوں سے یہ بات طشت از بام ہوگئی کہ صحابہ کا مقام اعلا وارفع ہے، ان کو رب ذو الجلال نے جو عظمت ورفعت عطا کی ہے وہ ہم میں سے کسی کو چاہنے کے باوجود حاصل نہیں ہوسکتی، ان کے نقش پا کے مطابق چلنا ہماری سعادت مندی اور ان کی تنقیص وگستاخی، دنیا وآخرت میں ہماری شقاوت وبدبختی کا ذریعہ ہے۔اس لیے ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم سب کے دلوں میں رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کے صحابہ کی محبت ڈال دے اور ہمیں ان لوگوں میں سے بنائے جو کہتے ہیں:”اے ہمارے رب! ہم کو اور ہمارے سابق ایمان لانے والے بھائیوں کو بخش دے اور ہمارے دلوں میں مومنوں کے بارے میں کوئی کینہ نہ رکھ“۔
امید کہ مولانا سلمان صاحب ندوی ان باتوں سے سبق لیں گے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کے ساتھ آئندہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے خلاف اپنی زبان کو دراز نہیں کریں گے۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
عبدالرحيم بنارسي

قال أهل العلم من سب الصحابة و معاوية (رضي الله عنهم)فأمه هاوية