مدارس و جامعات کے طلبہ میں صحافتی ذوق پیدا کرنے میں رسائل و جرائد کا اہم کردار

آصف تنویر تیمی تعلیم و تربیت

میں نے اپنے قلمی سفر کا آغاز 2005 ء میں کیا۔یہ میرے جامعہ امام ابن تیمیہ سے فراغت کا سال ہے۔ میرا پہلا مضمون ماہنامہ الاسلام دہلی میں شائع ہوا۔اس وقت جامعہ کے ’دار الأخبار‘ میں ملک کے بیشتر ماہنامے،پندرہ روزے،ہفت روزے اور سہ ماہی اردو عربی اور انگریزی رسائل وجرائد بلا ناغہ آیا کرتے تھے۔مرکزی لائبریری کے لیے علیحدہ اور طلبہ کے دار الاخبار کے لیے علیحدہ۔عام طور سے عصر اور عشاء بعد دار الاخبار کھلتا تھا۔دار الاخبار کے کھلتے ہی رسائل وجرائد کے مطالعہ کے شوقین طلبہ کا ہجوم امنڈ پڑتا تھا۔دیر رات تک طلبہ محو مطالعہ رہا کرتے تھے۔رسائل وجرائد کے پڑھنے کے بہت سارے فائدے میں سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ طلبہ میں تحریری اور صحافتی ذوق پیدا ہوتا تھا۔اور جس طالب علم کا ایک دو مضمون کسی رسالے میں شائع ہوجاتا تھا اس کا شوق نگارش ساتویں آسمان پر پہنچ جاتا تھا۔بڑی محنت اور عرق ریزی سے مواد فراہم کرتا اور اس کو قرینے سے صفحات پر سجاتا تاکہ آئندہ بھی اس کی تحریر زیور طباعت سے آراستہ ہوسکے۔

میرے پہلے مضمون کے شائع ہونے کی پہلی خوش خبری میرے ساتھیوں نے دی اس کے بعد خود میں نے رسالے کو تلاش کرکے مضمون کو بار بار دیکھا۔اس خوشی کا اندازہ وہی لوگ ٹھیک سے لگا سکتے ہیں جنھیں ایسی خوشی حاصل ہوئی ہو۔

پہلا مضمون مختلف اقتباسات کا مرقع تھا۔اپنے الفاظ اورجملے بہت کم تھے۔افکار وخیالات بھی کشید کیے ہوئے تھے۔اس وقت کمپیوٹر یا موبائل کی سہولت میسر نہ تھی۔ ہر مضمون نگار کاغذ کا استعمال کرتا تھا۔میرے ساتھ ایک بڑی پریشانی تحریر کا خوش خط نہ ہونا بھی تھا۔ تاہم پہلے مضمون کی اشاعت نے ایسا شوق پیدا کر دیا تھا کہ نہ جانے کتنے لفافے اور انتر دیشیاں میں نے سیاہ کرڈالیں۔اکثر کاوشیں رائیگاں ہی جاتیں کبھی کبھار کوئی مضمون منظر عام پر بھی آجاتا۔ جو اکسیر اعظم کا کام کرتا اور جس کے ذریعہ ماضی کی محنتیں سگارت ہوجاتیں۔اس لیے نئے لکھنے والے کو ہرگز اس بات سے نہیں گھبرانا چاہیے کہ ان کی تحریریں شائع نہیں ہورہی ہیں۔بجائے اس کے کہ آپ اس پر نگاہ رکھیں کہ آپ کتنا شائع ہورہے ہیں اس بات پر نگاہ رکھنی چاہیے کہ آپ کتنا پڑھ اور لکھ رہے ہیں۔

لکھنے والے کے لیے پڑھنا بہت ضروری ہے۔ موضوع سے متعلق سیر حاصل مطالعہ کیے بغیر لکھنا بیکار ہے۔ایسی تحریر کی بازار علم میں کوئی وقعت نہیں ہوتی۔اس لیے لکھنے کا شوق رکھنے والوں کو چاہیے کہ مطالعہ کرنے کی عادت ڈالیں۔روزانہ کم سے کم پچاس صفحات ضرور پڑھا کریں۔

آج سے بیس پچیس سال قبل جب ہم جامعہ امام ابن تیمیہ میں پڑھتے تھے طلبہ میں مطالعاتی ذوق حوصلہ افزا تھا۔اسی ذوق کا نتیجہ ہے کہ اس وقت عرب وعجم میں تیمی قلم کاران موجود ہیں۔ہمیں درسیات کے علاوہ جو بھی وقت ملتا اس کو مطالعہ کرنے میں لگاتے۔بالخصوص عصر تا مغرب یکسوئی کے ساتھ ہم مطالعہ کیا کرتے تھے۔مطالعہ کرنے کا مسابقاتی مزاج بھی طلبہ میں پایا جاتا تھا۔ایک ہفتہ میں کون کتنی کتابیں پڑھتا ہے اس تعلق سے ہم آپس میں ایک دوسرے پر نگاہ رکھا کرتے تھے۔ہم حاصل مطالعہ کو جمع بھی کیا کرتے تھے۔حاصل مطالعہ کے لیے ہم نے ڈائری بنا رکھی تھی جس پر ہم اہم اقتباسات نوٹ کرلیا کرتے تھے۔کبھی کسی اہم کتاب اور مضمون کا خلاصہ بھی اپنے الفاظ میں اس ڈائری میں لکھ لیا کرتے تھے تاکہ وقت پر کام آئے۔اس کا ہمیں دہرا فائدہ ہوتا تھا اچھے اقتباسات کا مجموعہ تیار ہوجاتا تھا نیز لکھنے کی عادت بھی پروان چڑھتی تھی۔مدارس وجامعات کےجو طلبہ مضمون نگار بننا چاہتے ہیں اگر مطالعہ کے اس طریقہ کو اختیار کریں تو لکھنے کا ہنر جلد پیدا ہوسکتا ہے۔کتابوں کا نوٹ تیار کرنا مضمون نویسی کے عمل میں بہت ہی معاون ثابت ہوتا ہے۔

کتابوں کے مطالعہ کے علاوہ رسائل وجرائد کا مطالعہ بھی مفید ہے۔رسالے کے مطالعے کے تین اہم فائدے ہیں:

۱-عام طور پر رسالے کی زبان آسان ہوتی ہے۔بہت زیادہ مشکل الفاظ نہیں ہوتے جس کی وجہ سے دلچسپی برقرار رہتی ہے اکتاہٹ نہیں ہوتی۔

۲-کم وقت میں موضوع کا خلاصہ ذہن نشیں ہوجاتا ہے موضوع کی طوالت کا بوجھ برداشت نہیں کرنا پڑتا۔

۳-ایک رسالے میں کئی لوگوں کے مضامین ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مطالعہ کرنے والا مختلف لوگوں کے اسلوب نگارش سے واقفیت حاصل کرلیتا ہے۔

رسائل وجرائد کی دنیا میں گزشتہ بیس پچیس سالوں میں کافی فرق آیا ہے۔بہت سارے اہم رسالے قارئین کی بے رخی اور بے اعتنائی کی وجہ سے بند ہوگئے ہیں۔بہت سارے رسالے ورقی صورت میں شائع نہ ہوکر برقی صورت میں شائع ہونے لگے ہیں۔لاک ڈاون کے بعد آن لائن قارئین کی تعداد میں خاصہ اضافہ ہوا ہے۔لیکن جو مزہ رسالے کے ورقی صورت میں پڑھنے کا ہے وہ آن لائن کہاں۔

طالب علمی کی زندگی میں رسائل وجرائد کا ہمیں بے حد انتظار ہوتا تھا۔مہینہ ختم ہوتے نئے پرچوں سے دار الأخبار کا میز بھر جاتا تھا۔اور ان میزوں پر چاروں طرف سے ہمارے اخوان اپنے ذوق کے مطابق پرچوں کا انتخاب اور مطالعہ کیا کرتے تھے۔پرچوں کا آپس میں تبادلہ بھی ہوتا تھا۔ایک کے بعد دوسرا پڑھتا۔ان ایام میں ان لوگوں کی بات ہی کچھ اور ہوتی جن کے مضامین پرچوں میں شائع ہوتے تھے۔برادرم اسد الرحمن تیمی، ابراہیم سجاد تیمی،ثناء اللہ صادق تیمی اور عزیزی ہشام الدین نظام الدین تیمی انھی خوش نصیبوں میں سے تھے۔لکھنے والوں کو مبارک بادیاں ملتیں سینئر ساتھی حوصلہ افزائی کرتے۔ہمارے اساتذہ بھی اپنے طلبہ کی تشجیع اور تبریک میں بخالت سے کام نہ لیتے۔

جو رسائل وجرائد ہمارے دار الأخبار کی زینت بنا کرتے تھے ان میں ہمارا مجلہ طوبی(اردو) اور الفرقان(عربی) سر فہرست ہوتا۔پورے آب وتاب کے ساتھ یہ دونوں مجلے اپنے وقت پر جلوہ گر ہوجاتے۔ان دونوں میں بیشتر مضامین ہمارے اساتذہ کرام کے ہوتے۔سبھوں کی تحریر کی جدا گانہ مہک ہوتی تھی۔ہم سب کے علم وتحقیق سے محظوظ ہوا کرتے تھے۔

اس زمانے میں ہماری دلچسپی سے قریب رسالوں میں مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ کا البلاغ سب کو بھاتا تھا اس کا مستقل کالم ’مسکراتے چہرے‘ اور ’بہتے آنسو‘ ہماری آنکھوں کو نم کرنے اور چہرے پر خوشی کی لکیریں بکھیرنے کے ساتھ ہماری لسانی اصلاح کا بھی سبب بنتے۔جامعہ محمدیہ منصورہ ہی سے صوت الحق شائع ہوتا تھا اس میں جامعہ محمدیہ کے مشائخ کے علاوہ دیگر اچھے لکھنے والوں کے مقالے شامل ہوا کرتے تھے بالخصوص مولانا نیاز احمد طیب پوری رحمہ اللہ کے مقالے ہم بصد شوق پڑھا کرتے تھے۔

جامعہ سلفیہ بنارس سے دو رسالے آتے تھے۔اردو میں محدث اور عربی میں صوت الأمۃ۔دونوں رسالے ہمارے ذوق علم کو تسکین دیا کرتے تھے۔جامعہ سلفیہ کے اساطین علم وفن کے علاوہ ملک کے دیگر محققین اورکالم نگاروں کے مقالات بھی اس میں طبع ہوتے تھے۔بڑی کلاسوں کے طلبہ ان دونوں رسالوں کو بڑی باریکی سے پڑھا کرتے تھے۔

دار العلوم ندوة العلماء لکھنؤ کے تین رسالے ہر ماہ ہمارے ہاتھوں میں ہوتے تھے۔پہلا البعث الاسلامی (عربی)دوسرا ہفت روزہ الرائد(عربی) اور تیسرا پندرہ روزہ تعمیر حیات (اردو)یہ تینوں رسالے بڑی پابندی سے آیا کرتے اور ہمارے ذوق مطالعہ کو بڑھایا کرتے تھے۔عربی سیکھنے والے طلبہ الرائد کو بڑی تندہی سے پڑھا کرتے تھے بلکہ اپنے نام پر خصوصی طور پر جاری کرا لیا کرتے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ اس رسالے سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اپنے سینئر ساتھیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میں بھی الرائد کا کئی سالوں تک خریدار بنا رہا۔عربی پڑھنے اور لکھنے کا ذوق رکھنے والے طلبہ کو ضرور الرائد کو اپنے مطالعہ میں رکھنا چاہیے۔طلبہ کے معیار اور مذاق کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے مشتملات تیار کیے جاتے تھے اور آج بھی اسی نہج پر یہ رسالہ قائم ہے۔اس میں دو رائے نہیں کہ ہندوستانی طلبہ کے عربی ذوق تحریر کو پروان چڑھانے میں الرائد کا اہم رول رہا ہے۔

اہل حدیث مدارس وجامعات کے طلبہ کو قلم کار بنانے، ان میں صحافت کا شوق پیدا کرنے اور ان کے مضامین کو شائع کرکے ان کی ہمت بندھانے میں سب سے زیادہ جس اردو رسالے نے تعاون کیا وہ ماہنامہ نوائے اسلام ہے۔اللہ بھلا کرے مولانا عزیز عمر سلفی کا جنھوں نے ہر نئے لکھنے والے کو موقع دیا۔ ان کی تحریروں کے نوک پلک کو درست کرکے اپنے رسالے میں چھاپا۔گزشتہ پچیس تیس سال میں جن لوگوں نے لکھنا شروع کیا ہے ان سب پر نوائے اسلام کا احسان ہے۔میرے بھی کئی مضامین اس میں شائع ہوئے ہیں۔

مذکورہ بالا رسالوں کے علاوہ التبیان(دہلی)السراج(جھنڈا نگر) صوت الاسلام(ممبئی) تہذیب الاخلاق(علی گڑھ) پیام توحید(کشن گنج) ذکری جدید(دہلی رام پور) پندرہ روزہ نقیب(امارت شرعیہ پٹنہ)پندرہ روزہ ترجمان دہلی(مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند) ماہنامہ الہدی(دربھنگہ) بیرون ملک سے آنے والے بہت سارے عربی اور اردو جرائد میں سے الفرقان (کویت) التوحید (مصر) المجتمع(کویت) الرابطہ(ریاض سعودی عرب) البحوث الاسلامیہ(جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ) ہم طلبہ دیکھا اور پڑھا کرتے تھے۔آج بھی ان میں سے بہت سارے رسالے شائع ہوتے اور مدارس وجامعات کی لائبریریوں میں پہنچتے ہیں لیکن قارئین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔مدارس وجامعات کے ذمہ داروں کو چاہیے کہ وہ اپنے طلبہ کو رسائل وجرائد کے مطالعہ کا عادی بنائیں تاکہ ان کی معلومات اور صحافتی ذوق وشوق میں بلندی اور بہتری آئے۔

آپ کے تبصرے

3000