ارادہ ہے محبت کے سفر کا

عبدالکریم شاد شعروسخن

تو پوچھ رہا ہے کہ خدا ہے کہ نہیں ہے

غافل! تجھے احساس بقا ہے کہ نہیں ہے


اے زیست! ارادہ ہے محبت کے سفر کا

کافی ترے پہیوں میں ہوا ہے کہ نہیں ہے


اے حسن! بتا دیکھ کے بازار کا منظر

باقی تری فطرت میں حیا ہے کہ نہیں ہے


افسوس! کہا جاتا ہے کتے کو وفادار

انسان! تجھے پاس وفا ہے کہ نہیں ہے


مت پوچھ مرا حال تو اے زود پشیماں!

یہ دیکھ مرا زخم ہرا ہے کہ نہیں ہے


دو چار ملاقاتوں میں کوئی نہیں کھلتا

مت سوچ ابھی شادؔ بھلا ہے کہ نہیں ہے

آپ کے تبصرے

3000