اسلامی نظامِ فکر و عمل میں اجتماعیت اور اس کے عملی تقاضوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اسلام وہ دین ہے جس نے معاشرتی و اجتماعی تحفظ کو غیر معمولی اہمیت دی ہے اور افتراق و اختلاف سے دور رہنے کی تلقین کی ہے۔ اتحاد و اتفاق کا جس قدر پاکیزہ اور شفاف خاکہ اسلام نے دیا ہے آج علم و حکمت کی فراوانی کے باوجود اس کی نظیر نہیں پیش کی جا سکتی۔
تاہم اسلام کی تعلیمات روز روشن کی طرح عیاں ہونے کے باوجود امت تفرقہ بازی و انتشار کا شکار کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اختلاف کی جڑ اور بنیاد کوسمجھا جائے تاکہ اسے جڑ سے اکھاڑنے میں آسانی ہو۔
امت محمدیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہمارے لیے احکام شریعت و قانون سازی کے دو ہی مآخذ ہیں: ایک اللہ کی کتاب اور دوسرا نبی اکرمﷺ کی سنت، پھر ان دو مصادر کے تحت فعلِ صحابہ، اجماع و قیاس کا اپنا ایک مقام ہے۔ اسلامی باغ کے اس خوب صورت دریچہ میں ہر پھول کا اپنا ایک حصہ و کردار ہے اور مصادر احکام کی اس چنندہ دیوار میں ہر اینٹ کی اپنی اہمیت ہے۔ رسولِ اکرمﷺ کی ذاتِ مقدسہ پر جو وحی بذریعہ قرآن نازل ہوئی یا جو بذریعہ احادیثِ صحیحہ و صریحہ آپ کو عنایت کی گئی ان میں کوئی تضاد اور contradiction نہیں، کسی صحیح حدیث کا کسی دوسری صحیح حدیث سے کوئی تعارض نہیں ہے۔ اور اگر تضاد نظر آ بھی جائے تو ائمہ و فقہاء کی توفیق و ترجیح کی صورتیں، منصوص و غیر منصوص میں علّت و حکم کی معرفت کے قواعد اتنے مستحکم ہیں کہ اختلاف اختلاف نہیں رہتا۔ عہد صحابہ میں جب مملکت اسلامیہ کی حدود وسیع ہو گئیں تو کئی ایسے مسائل و احکام درپیش آئے جو عہد نبوت میں نہ تھے، لہٰذا خلفاء راشدین و صحابہ کرام نے اپنے تبحر علمی اور بصیرت و فراست سے کام لیتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی، صحابہ کرام کے بعد تابعین ہی کے زمانہ سے حدیث، فقہ و تفسیر کی مختلف شاخیں وجود میں آئیں جن کی اساس اللہ کی کتاب، نبی پاک کی سنت اور فتاوی صحابہ پر تھی۔ لیکن جب عرب و عجم جمع ہو گئے، یونانی اور سریانی فلسفوں کا ترجمہ اور تعارف ہونے لگا تو عقلی و منطقی دلائل کے ذریعہ عقائد و احکام میں بے جا مداخلت کی فضا پیدا ہوئی، دوسری طرف سیاسی محاذ پر خوارج و تشیع نے بے شمار بدعتوں کو جنم دیا اور ردّعمل کے طور پر اعتزال، ارجاء اور ناصبیت کا وجود ہوا جس نے امت اسلامیہ کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا، تاہم علماء ربانیین اپنے فرائض منصبی سے پیچھے نہ ہٹے، انھوں نے علم کلام کی اس نئی ideology کا بھرپور جواب دیا۔ اصول ِ حدیث و اصول ِ فقہ کو مرتب کیا گیا، شیخ الفقہاء والمحدثین حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے استنباط و استخراج کے مسائل پر کتاب الرسالہ کی تصنیف فرمائی اور فقہی مسائل پر کتاب الام کی بنیاد رکھی،اس طرح امام شافعی رحمہ اللہ ائمہ اربعہ میں سب سے پہلے امام ہیں جنھوں نے فقہ و اصول فقہ کے قواعد وضع کیے ہیں، حتیٰ کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے فقہی قواعد بھی فقہ شافعی سے متاخر ہیں۔ فقہ شافعی و حنفی میں فرق یہ ہے کہ فقہ شافعی کی بنیاد خود حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کی تالیفات و فرمودات پر مبنی ہے جبکہ فقہ حنفی کے بیشتر اصول نہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے وضع فرمائے اور نہ ہی ان کے شاگردوں نے، بلکہ جو کچھ بھی حضرت امام ابو یوسف اور امام محمد کی کتابوں میں مذکور ہیں وہ محض فقہی اجتہادات ہیں، کتاب الرسالہ للشافعی کی مانند مستقل تدوین نہیں، فقہ اسلامی کی تاریخ و تدوین پر مبنی حقیقی بات یہی ہے جو ہر اہل انصاف کو اعتراف پر مجبور کرتی ہے۔
یہاں ایک نکتے کی وضاحت ضروری ہے کہ ائمہ اربعہ کے فقہ وفتاوی پر عمل کرنا کوئی عیب نہیں، بلکہ یہ امت محمدیہ کا ایک اختصاص ہے۔ تاہم عیب اس وقت ہے جب حبِّ علی کی آڑ میں بغضِ معاویہ کو تشہیر دی جائے، ائمہ اربعہ رحمہم اللہ اجمعین کی تعلیم و فقہ کے اصول تو دراصل فقہ اسلامی کی روح ہیں، صرف فقہ و مسائل میں نہیں بلکہ عقائد میں ائمہ اربعہ کا مذہب بجزء ایک دو مسئلہ کے عین منہج صحابہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مدارس اسلامیہ میں فقہ مقارن کو بحیثیت نصاب مقرر کیا جاتا ہے۔ ترجیح و توفیق کی وہی صورتیں ازبر کرائی جاتی ہیں جنھیں امام محمد، امام بیہقی، شربینی، ابن قدامہ اور شیخ الاسلام جیسے سینکڑوں علماء و فقہاء سلف نے ذکر کیا ہے۔ لہذا یہ سمجھنا کہ ائمہ اربعہ کی فقہ شرعی رو سے متضاد ہے محض ایک مغالطہ ہے۔ یہ مغالطہ اس وقت سے پیدا ہوا جب اہل بدعت اور اہل کلام نے اپنے باطل نظریات کو ان علماء ربانیین کی آڑ میں پیش کرنا شروع کیا، اپنی بدعتوں کی ترویج کے لیے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جیسے ائمہ و صلحاء کا سہارا لیا، ایسی سینکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جن کا ثبوت نہ کتاب اللہ و سنت رسول میں ہے اور نہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ و تاریخ میں۔ یہی حال دیگر فقہی مذاہب اور موجودہ دور میں پائی جانے والی تحریکوں، جماعتوں اور مسلکوں کا ہےکہ حق باتوں میں سے کسی ایک نکتے کو آڑ بناکر باطل کی ترویج کرتے ہیں۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:” کہ ہر صاحب باطل اپنے باطل کی ترویج اس وقت تک نہیں کرسکتا جب تک کہ حق باتوں میں سے کسی ایک نکتہ کو مضبوطی سے نہ پکڑ لے۔” پھر ابن القیم رحمہ اللہ نے اس پر دسیوں مثالیں پیش کیں کہ اہل تشیع نے اپنی بدعتوں کو رواج دینےاور صحابہ کرام و نبی اکرم کی ذات مقدسہ پر نشانہ سادھنےکے لیے اہل بیت کی محبت کا دم بھرا اورپھر بدعتوں کا ایسا بازار گرم کیا کہ لوگوں نے ان کے مغالطے کو دین سمجھ لیا۔ یہی حال خوارج کا تھا کہ نہی عن المنکر کے فریضے کو اس انداز میں پیش کیا کہ ائمہ و صلحاء کے خلاف تلواریں کھینچ لیں، اہل قدر نے بھی انکار تقدیر کے لیے اللہ رب العالمین کے عدل و انصاف کو آڑ بنایا اور کہا کہ اگر اللہ رب العزت ظالم ہوتا تو بندوں کے افعال کو پیدا نہ کرتا، چنانچہ عدل کا تقاضہ ہے کہ اللہ کسی کو گمراہ نہیں کرتا بلکہ بندہ خود گمراہ ہوتا ہے، فساق وفجار نے دین میں کاہلی اور سستی برتنےکے لیے زہد و تصوف کا سہارا لیا۔ (دیکھیے: اغاثة اللھفان مجلہ:2، صفحہ 87)
بالکل یہی بات اہل کلام اور اہل درگاہ کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے کہ اہل درگاہ نے اپنے کفر وشرک کے احیاء کے لیے اولیاء و اتقیاء کا سہارا لیا اور اہل کلام نے فقہاء و محدثین کی طرف انتساب کے مسئلہ کو احیاء مذہب اہل کلام کے لیے استعمال کیا۔ جن کا شرعی استنباط و استخراج سے دور کا بھی تعلق نہیں، اسی لیےکثرت کے ساتھ فقہاء اور محدثین نے علم کلام کی دسیسہ کاری پر ضرب لگائی ہے۔ حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ تو اسے زندقہ سے تعبیر کرتے تھے کہ جس نے شرعی مسائل کے حصول کے لیے علم کلام کا سہارا لیا وہ زندیق بن گیا، لہذا ان فلسفیانہ موشگافیوں سے دور رہنا ہی علم و حکمت، قرآن و شریعت کی حفاظت ہے۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ تو یہاں تک فرماتے تھے کہ علم کلام سیکھنے والوں کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ انھیں جوتے اور لکڑیوں سے پیٹا جائے، گدھوں پر بٹھا کر بازاروں کا چکر لگایا جائے اور کہا جائے یہ ہر اس شخص کا انجام ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ کو چھوڑ کر منطق و فلسفہ کا رخ کرے۔
آج کے اسلامی فرقوں، مسلکوں اور اہل طریقت میں علم کلام کا منہج اس قدر سرایت کر گیا ہے کہ رسول اکرمﷺ کی واضح و صریح حدیثوں کو تاویل اور تحریف کی بھینٹ چڑھانے میں ذرا بھی گریز نہیں کیا جاتا،قرآن و سنت اور ائمہ و صحابہ کے ارشادات کو عقلی و فلسفی نظریات پر پرکھنا عام سی بات ہوچکی ہے۔ صحابہ کرام وقرون مفضلہ کے بیان کردہ اصول و قواعد کی طرف رجوع کرنے کے بجاے اہل منطق کی جملہ طرازیاں قول فيصل بن چکی ہیں، نت نئے پیر طریقت اور جانشین جبہ و دستار سرمہ بھری آنکھیں لے کر خود عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ میڈیا مسلمانوں کی دینی، تعلیمی، اقتصادی کمزوریوں کا بھرپور راگ الاپ رہا ہے۔ گمراہ اسلامی فرقے اسلام کی نمائندگی کا دعویٰ کر رہے ہیں، لہذا ایمان کا تقاضہ ہے کہ پیارے رسولﷺ کی رسالت و نبوت کے اصل مقصد سے امت کو باور کرایا جائے۔ سیرت رسولﷺکو حد درجہ اہمیت دی جائے۔ زندگی کے ہر موڑ اور قدم پر اطاعت رسولﷺکے جذبے کو اجاگر کیا جائے۔ ہماری نئی نسلوں کو فروعی اختلافی مسائل میں مناظروں کے اصول سکھانے کے بجائے امت پر ہونے والے اتحاد و کفر کے حملوں کا منہ توڑ جواب دینے والا بنایا جائے۔ اللہ رب العالمین اپنے فضل و کرم سے ہم سب کی اصلاح فرمائے اور صراط مستقیم کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
آپ کے تبصرے