غزوۂ فکری: مظاہر واشکال، اہداف ومقاصد اور وسائل

محمد عمر صلاح الدین ادیان و مسالک

اسلام اور مسلمانوں کے خلاف فکری جنگ اور نظریاتی یلغار کا سلسلہ اسی وقت سے چلا آرہا ہے جب سے اللہ رب ذوالجلال نے انسانیت کی رشد و ہدایت کی خاطر پیغمبر آخرالزماں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دین اسلام کے ساتھ اس دنیا میں مبعوث فرمایا ہے، البتہ آج میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے اس دور میں دشمنان اسلام نے اسلامی اصول و ضوابط، عقائد ومسلمات، شعائر ومقومات اور اساسیات و لوازمات کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کے لےو اس فکری جنگ (ideological war) جیسے تخریبی وسیلے کا جس طرح استعمال کیا ہے، انسانی تاریخ نے اس سے پہلے ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا تھا، جس کا اثر یہ ہوا کہ انکار حدیث، عقیدۂ توحید کے سلسلے میں بے غیرتی اور بے حمیتی، اور اخلاقی اقدار کی پامالی کا نام’معتدل اسلام‘رکھ دیا گیا۔
یہ بظاہر تو ایک دقیق تعبیر ہے مگر انتہائی مؤثر ترین وسیلہ ہے جس کا نتیجہ اس سے پیدا ہونے والے فکری آثار کی سنگینی اور حساسیت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، اکثر لوگ اس کی طرف توجہ نہیں دیتے ہیں تاہم یہ انتہائی خاموشی کے ساتھ بڑی آسانی سے اپنا ایجنڈا پورا کرتا ہے اس لیے کہ عسکری جنگ میں فریق مخالف کے اندر غیرت وحمیت اور ظلم وزیادتی کے خلاف مزاحمت کرنے اور اٹھ کھڑا ہونے کا جذبہ تو پیدا ہوجاتا ہے مگر فکری جنگ میں یہ خود لوگوں پر مختلف زاویوں اور راستوں سے بہت محبوب ومرغوب اور دلچسپ بن کر وار کرتا ہے کبھی تقدم وتطور، ترقی و پیش قدمی، اور مغربی تہذیب و تمدن کے شانہ بشانہ چلنے، ان کی ہمنوائی کرنے کے نام پر شبہات وظنون کے راستے سے ان پر حملہ آور ہوتا ہے اور کبھی شہوات و خواہشاتِ نفسانی کے راستے سے داخل ہوتا ہے جس میں انیں مال وجاہ اور منصب وشہرت کی لالچ دلائی جاتی ہے، ان کے سفلی جذبات اور جنسی خواہشات جیسے بگڑے اخلاق وسلوک کو برتنے کی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں، اور یہاں سے اس کی گاڑی بلا کسی ڈرائیور کےخود بخود چلنے لگتی ہے بلکہ بعض اوقات وہ اپنے ہی دشمن کے افکار و نظریات کی تشہیر میں سرگرم ہوجاتا ہے، اللہ تعالیٰ نےفرمایا:
ولا يزالون يقاتلونكم حتى يردوكم عن دينكم إن استطاعوا[۱]یہ کفار تم سے اس وقت تک نبرد آزما رہیں گے جب تک تم اپنے دین سے دستبرداری اختیار نہ کرلو۔
غزوہ فکری کو اسلام دشمنوں نے اپنایا ہی اسی لےن کیونکہ وہ اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ مسلمانوں کی طاقت وقوت کو توڑنے کے لےا اب اسلحے اور حرب وضرب کے وسائل کی ضرورت نہیں چونکہ یہ اور ان کے اسلاف صدیوں سے مسلمانوں کے خلاف اسے اپنا چکے ہیں، لیکن سوائے ناکامی کے انیںک کچھ ہاتھ نہیں آیا، لہذا انوےں نے جنگی میدان کو تو بدل دیا ہے لیکن ان کے ذہن ودماغ میں وہی خباثتیں ہیں جو پہلے تھیں۔
غزوۂ فکری کا دوسرا نام’نفسیاتی استعمار‘:
بعض مفکرین نے اس فکری جنگ کو نفسیاتی استعمار (Psychological Colonialism) بھی کہا ہے، چنانچہ جامعة الفيوم کے اسسٹنٹ پروفیسر ماہر عباس جلال نے کہا ہے:
إن الاستعمار النفسي استعمار جديد يعمد إلى استعمار النفوس والأفئدة بدلاً من استعمار الأرض، وذلك أن السيطرة على النفوس والعقول والأفئــدة يعني الســيطرة على كل شيـئ، فتكاد هذه النفوس ألا ترى إلا بعينه ولاتسمع إلا بأذنه ولاتفكر إلا بعقله(نفسیاتی استعمار ایک جدید سامراجیت کا نام ہے جس کا مقصد Psychological Colonialism زمینی استعمار اور نوآبادکاری کے بجائے لوگوں کے قلوب و نفوس یعنی ہر چیز کو اپنی ماتحتی میں رکھنا اور اور اس پر کنٹرول چلانا ہے یہاں تک کہ لوگ دیکھنے، سننے، سمجھنے اور غور و فکر کرنے میں اسی استعماری ذہن کے تابع ہوکر رہ جائیں۔
بلا شبہ اس جدید نفسیاتی استعمار نے میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی اہمیت کو ایسے وقت میں سمجھ کر خوب خوب فائدہ اٹھایا کہ جس کے ہاتھ میں میڈیا ہے، اس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے، آپ کو یہ جان کر حیرانگی ہوگی کہ دنیا میں کل ۱۲۰/ بین الاقوامی میڈیائی ایجنسیاں ہیں جن میں صرف تیس نیوز بلیٹن امریکہ میں ہیں جس کی تقرییا ۲۰۰/ برانچیں عالم عربی میں ہیں، صرف ان ایجینسیوں کا میزانیہ اور بجٹ، عرب ممالک میں تعلیم اور ایجوکیشن کے شعبے میں خرچ کیے جانے والے بجٹ کے برابر ہے، عموما عالمی میڈیا میں مغربی میڈیا کی ۹۰% حصے داری ہے۔
یہودیوں کا امریکی میڈیا پر قبضہ:
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکی میڈیا پر یہودیوں کا قبضہ ذرائع ابلاغ کے ہر شعبے پر ہے خواہ وہ ٹیلی ویژن نیٹ ورک میں سی، این، این لائیو ٹوڈے(CNN live today)، اے، بی، سی نیوز (ABC news) اور سی، بی، ایس نیوز (CBS news) ہو، یا صحافتی یعنی پرنٹ میڈیا میں تین مؤثر ترین امریکی صحافتی ادراے نیو یارک ٹائمز(new york times)، واشنگٹن پوسٹ (Washington post) اور دی وال سٹریٹ جرنل (The wall street gournal) ہوں یا ہفتہ واری نکلنے والے مجلات اور میگزینز میں ٹایم(Time)، نیوز ویک(News week) اور یو ایس نیوز (Us news) ہوں، میڈیا کے ان متذکرہ بالا تمام شعبوں پر زبردست کنٹرول اور تسلط ہے، اور یہودیوں کی اسلام دشمنی اور اہل اسلام کے خلاف ان کا حقد وحسد اور بغض و عناد جگ ظاہر ہے، پھر آپ سوچیے کہ یہ لوگ دین اسلام کے خلاف کس طرح فکری محاذ کھڑا کرتے ہوں گے، اور اہل عالم بالخصوص مسلمانوں کے دلوں میں خود ان کے مذہب کے خلاف کس طرح نفرت وعداوت کے جذبات پیدا کرتے ہوں گے، ان کے ذہن ودماغ کو برین واشنگ کرتے ہوں گے۔والله متم نوره ولو كره الكافرون
فکری جنگ (ideological war) کے چند مظاہر اور شکلیں:
۱۔عقیدۂ ولاء وبراء کا استخفاف اور اس کی حقیقت کو مسخ کرنا:
عبادت وبندگی میں اللہ تعالیٰ کی توحید ووحدانیت کو بجالاتے ہوئے اس سے محبت کرنا، صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت واتباع کرتے ہوئے آپ سے محبت ومودت اور آپ کی نصرت وتائید کرنا اور مومنوں سے نصرت وموالات کا اظہار کرنا نیز کافروں، مشرکوں، منافقوں اور ان کے کفر وشرک اور نفاق سے اظہار براءت کرنا اور ان سے بغض ونفرت کرنا عقیدۂ ولاء اور براء کہلاتا ہے، یہی کلمۂ توحید لا الہ الا اللہ کی حقیقت بھی ہے، اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت بھی یہی تھی بالخصوص ہمارے آخری نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور امام الحنفاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعوت کا یہ مظہر ہے جن کی اقتدا اور پیروی کرنے کا حکم اللہ تعالی نے ہمیں اس آیت کریمہ میں دیا ہے:
قد كانت لكم أسوة حسنة فی إبراهیم والذین معهۥ إذ قالوا لقومهم إنا براء منكم ومما تعبدون من دون ٱلله كفرنا بكم وبدا بیننا وبینكم ٱلعداوة والبغضاء أبدا حتىٰ تؤمنوا بٱلله وحده[۲]تمھارے لیے ابراہیم اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے جب ان سبھوں نے اپنی قوم سے برملا کہاکہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت وبندگی کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں، ہمارے تمھارے (عامئد کے) منکر ہیں، ہمارے اور تمھارے مابین بغض و عدوات ظاہر ہوگئی جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لے آؤ۔
دشمنانِ اسلام کو یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہے یہ عقیدہ دین اسلام کا اصل الاصیل ہے جو ان کے خبیث مقصد کی برآوری میں مضبوط آہنی دیوار کی طرح حائل ہے، لہذا شروع سے ہی مسلمانوں کے اس عقیدے کو ڈھانے کی انویں نے بھرپور کوشش کی ہے لیکن اس عقیدے کے تئیں مسلمانوں کی صلابت اور پختگی نے آج تک انیں ناکامی ہی کا راستہ دکھایا ہے، چنانچہ اب معاندین اور دشمنان دین نے مختلف وسائل وذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے مسلم ممالک کی طرف زبردست فکری یلغار اور ان کے خلاف دھاوا بول دیا ہے بالخصوص عصر حاضر کا ہیجانی اور پروپیگنڈے کا ماہر مکار میڈیا کا گویا کہ وجود ہی شکوک وشبہات پیدا کرنے، حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط کرنے، اسلام کی صاف شفاف روشن تعلیمات پر کیچڑ اچھالنے اور بعض ثابت شدہ دینی حقائق اور مسلمات شرعیہ کو خلاف عقل و انسانیت قرار دینے کے لے ہے، جس کی پاداش میں مسلمان اور اسلامی معاشرے میں چند ماسونیت زدہ نام نہاد اسلامی مفکرین کی وجہ سے جو آثار نمودار ہوئے ہیں وہ ناگفتہ بہ ہیں۔ ذیل میں اسی عقیدۂ ولاء وبراء کو ختم کرنے کے سلسلے میں اسی غزو فکری کے چند نظریات و اصطلاحات ذکر کیے جارہے ہیں۔
۱۔کفارو مشرکین سے بغض ونفرت کرنے والوں پر یہ کہہ کر نکیر کرنا کہ یہ اسلامی رواداری اور باہمی پرامن بقا کے خلاف ہے، حتی کہ اس نظریہ کے حامل افراد کے یہاں ’کفر اور كفار‘ کا لفظ ہی نسیا منسیا بن گئی ہے، اس کی جگہ انو ں نے’غیر مسلم‘ کا لفظ استعمال کرنا شروع کردیا کہ ان کے نزدیک یہ مہذب تعبیرات میں سے ہے اور کفار سے بغض وبراءت کا اظہار کرنا انتہا پسند مسلمانوں کی علامت ہے۔
۲۔وطنیت(نیشنلزم)اور قومیت کا نعرہ لگانا:
جس کا مطلب یہ ہے کہ آپسی محبت اور نصرت ومعاونت کا رشتہ محض ایک ہی قوم اور وطن سے تعلق رکھنے کی وجہ سے قائم رکھیں، چاہے وہ عقائد و نظریات میں باہم مختلف ہی کیوں نہ ہوں، حتی کہ بت پرست مشرکوں، منافقین، ملحدین وزنادقہ اور باطنی رافضیوں کو ایک موحد متقی مسلمان پر ترجیح اور فوقیت محض اس لےں دیں کہ وہ ہماری قوم،وطن اور قبیلے سے تعلق نہیں رکھتا ہے۔
عقیدۂ ولاء وبراء کی حقیقت کو مسلمانوں کے دلوں سے ختم کرنے کے لےق قومیت اور وطن پرستی کے اس مفہوم کو دشمنان اسلام نے خوب رواج دیا، ہر ملک میں موجود اپنے ہم فکر منافقین دوستوں کو بطور ایجنٹ استعمال کیا یہاں تک کہ بعض سادہ لوح مسلمانوں نے اس منحرفانہ فکر کی ترویج کے لےو زبان و قلم کے ساتھ حصہ لیا، چنانچہ شہریت اور ہم وطنی کے حوالے سے متعدد لٹریچر منصۂ شہود پر آئے جس میں قومیت اور رشتۂ وطنیت کو خالص اسلامی اصول تک کہا گیا۔
درحقیقت یہ سارا کچھ مغربی سیاست کے نظام سیاست کا ایک حصہ ہے، جو یورپ اور امریکہ کے ساتھ پوری دنیا میں پھیل چکا ہے، جس کے چند بنیادی عناصر یہ ہیں:
(۱)وطن پرستی کو حلال ہی نہیں بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کی عبادت وبندگی پر بھی مقدم سمجھنا۔
(ب)وطنی محبت کو تمام چیزوں کی محبت پر ترجیح دینا خواہ وہ دین ومذہب ہی کی محبت کیوں نہ ہو۔
(ج)قومی تعلق کو دینی رشتے کا ہمسر قرار دینا۔
(د)لوگوں کو دینی باتوں سے کاٹ کر سیاسی گفتگو کی طرف مائل کرنا۔
(ہ)سیاسی تعلقات کو دینی روابط سے جدا کرنا۔
(و)دینی اور اسلامی وجود کو نسبی اور ذاتی وجود کے قالب میں ڈھالنا۔
(ز)حکومت واقتدار کے ہر شعبے میں دینی رجحان کے حاملین افراد کو سرے سے بے دخل کرنا۔
(ح)مذہبی رواداری اور اعتقادی حریت کو حکومتی امور ومعاملات سے غیر متعلق قرار دینا۔
(ط)حریت اور آزادی کو تمام اقدار سے بڑھ کر سمجھنا خواہ دین سے برگشتہ ہونے کی آزادی ہی ہو۔
۳۔انسانیت کی طرف پرفریب دعوت:
یہ انتہائی گندہ نعرہ ہے جس کا واحد مقصد خالص توحید کی بنیاد پر قائم ہونے والے عقیدۂ ولاء وبراء کو دھندلا کرنا اور اسے بایں طور پر ختم کرنا کہ تمام تر عقائد و نظریات سے صرف نظر انسانیت کے مابین آپسی بھائی چارگی اور محبت ہی قائم ودائم رہے۔
چنانچہ آج ہم اجتماعی اور انفرادی دونوں سطح پر دیکھتے ہیں کہ دعویٔ انسانیت کے اس خوشنما اور ملمع ساز نعرے کی طرف، اس کے پیچھے پوشیدہ قبیح حقیقت کو سمجھے بغیر لوگ بھاگتے چلے جارہے ہیں اور انیںم شعور تک نہیں ہوتا ہے کہ یہ دعویٰ امر واقع میں مذہبی تقیدات سے خارج ہونے کا دعویٰ ہے۔
اس خبیث دعوت کے خطرات اور اہداف ومقاصد:
(ا)اس سے عقیدۂ توحید میں فساد اور خرابی در آتی ہے جس کا مغز اور خلاصہ ہی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نیز تمام اہل ایمان سے محبت کرنا اور کفار ومشرکین کے کفر وشرک سے بغض ونفرت کرنا ہے، نتیجتا لوگ کفار کے تئیں نرم گوشہ اختیار کرنے لگتے ہیں، ان کے باطل عقائد و افکار کے بارے میں لب کشائی تک نہیں کرتے ہیں اور ایک موحد مسلمان اور ملحد کافر کے مابین مساوات کا رویہ برتتے ہیں۔
(ب)مسلم ممالک میں لوگوں کا اپنے تعلیمی نصاب اور شعبۂ اعلام (میڈیا ڈپارٹمنٹ) میں نظر ثانی کرنا اور کفار سے عداوت ودشمنی کرنے اور جہاد وقتال سے متعلقہ مضامین کو حذف کردینا۔
(ج)اسلامی ممالک میں کنیسوں، گرجا گھروں اور مندروں کے افتتاح کا مطالبہ کرنا۔
(د)انسانیت کی طرف دعوت درحقیقت صہیونی یہودیوں سے تعلقات کی بحالی کا راستہ ہموار کرنا اور ارض فلسطین پر ان کی غصب کردہ صہیونی ریاست کو تسلیم کرنا ہے۔
(ہ)اسلامی ملکوں میں نصرانیت کو بڑھاوا دینے والے مراکز کو کھولنے کی اجازت دینا اس دلیل کے ساتھ کہ کافرانہ ملکوں میں بھی تو اسلامی مراکز سرگرم عمل ہیں۔
(و)تبدیلیٔ مذہب اور غور و فکر کی آزادی فراہم کرنا خواہ وہ ملحدانہ طریقۂ کار ہو یا دین ومذہب کو گالیاں دے کر، اس سے آزاد خیال، لبرل اور علمانیت زدہ لوگوں کو کافی خوشی ہوتی ہے، انیںا شکوک وشبہات اور شر وفساد برپا کرنے کا سنہری موقع نصیب ہوتا ہے۔
(ز)سلفیت کی بیخ کنی، اس پر طرح طرح کے الزامات واتہامات کی بوچھار کرنا۔
(ح)جہاد جیسے عظیم فریضے کو کالعدم قرار دینا چونکہ اس سے انسانیت کے درمیان دشمنی اور کراہیت کا شعلہ بھڑکتا ہے۔
۴۔قارب ادیان اور وحدت مذاہب کی دعوت:
عقیدۂ ولاء وبراء کو ختم کرنے اور اسے مٹانے کے لیے کفار ومنافقین اور بعض نادان مسلمان بھی تقریب بین المذاہب اور وحدت ادیان کی طرف دعوت دینے میں کوشاں رہے ہیں، بڑے زور وشور کے ساتھ اس سلسلے میں کانفرنسیں اور میٹنگوں کو منعقد کیا جاتا رہا ہے ااور مکار عالمی میڈیا اسے مزین کرکے خوشنما بنا کر پیش کرتا ہے جس کے تبلیسی جھانسے میں بہت سارے حقیقت سے ناآشنا لوگ آجاتے ہیں۔ جب کہ یہ دعوت ہی سرے سے باطل وبے بنیاد ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے ملت توحید اور ملت کفر وشرک دونوں یکساں اور مساوی ہوجائیں؟ ہرگز نہیں، ان دونوں کے درمیان کبھی اتحاد اور قربت نہیں ہوسکتی، اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یہ فرمادیا ہے:
قل یا أیها الكافرون، لا أعبد ما تعبدون، ولا أنتم عابدون ما أعبد، ولا أنا عابد ما عبدتم، ولا أنتم عابدون ما أعبد، لكم دینكم ولی دین[۳](اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!) آپ فرمادیجے کہ اے کافرو! تم جس کی عبادت کرتے ہو میں اس کی عبادت نہیں کرتا ہوں اور تم اس کی عبادت نہیں کرتے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں اور نہ میں ان کی عبادت کروں گا جس کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں، تمھارے لیے تمھارا دین ہے اور میرے لےت میرا دین۔
نیز فرمایا:
فماذا بعد الحق إلا الضلال، فأنى تصرفون[۴]پس حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا رہ گیا، اس کے باوجود پھر کہاں پھرے جاتے ہو؟
دوسرے مقام پر فرمایا:
ضرب الله مثلا رجلا فيه شركاء متشاكسون ورجلا سلما لرجل هل يستويان مثلاً، الحمد لله بل أكثرهم لايعلمون[۵]اللہ تعالیٰ نے یہ مثال بیان کی ہے کہ ایک وہ (غلام) شخص جس کی ملکیت میں باہم جھگڑنے والے کئی شرکاء ہیں اور دوسرا وہ شخص جو صرف ایک ہی شخص کا غلام ہے، کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ کے لےں ہی ساری تعریفیں ہیں لیکن اکثر لوگ سمجھتے نہیں۔
مکر و فریب پر مبنی اس دعوت کے اہداف ومقاصد:
(ا) اللہ کے راستے سے روکنا:
اہل یورپ نے اپنے ہی لوگوں کو اسلام میں فوج در فوج داخل ہوتے دیکھ کر قبول اسلام کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لے وحدتِ ادیان کا تصور اہل دنیا کے سامنے بایں طور پر پیش کیا کہ سارے مذاہب خدائے واحد کی عبادت کی طرف دعوت دیتے ہیں لہذا اسلام قبول کرنے اور اس میں داخل ہونے کا کوئی مطلب نہیں!
(ب)اسلامی اصول و قوانین کو ڈھانا:
اس میں بالخصوص ولاء اور براء کو نشانہ اس لے بناتے ہیں کیوں کہ اس عقیدے کے پیش نظر ایک مسلمان شخص، کافر کی تکفیر کرتا اور اس سے اظہار نفرت وبراءت رہتا ہے۔
(ج)نصرانیت کو فروغ دینا:
اس کے لے) باقاعدہ گفتگو اور مفاہمت کے لےا عالمی مجلسیں برپا کی جاتی ہیں۔
(د)اسلامی جوہر اور اس کے علو مرتبتی کی توہین کرنا:
یہ اس لیے کیوں کہ دین محمدی اپنے سے پیشتر اور دیگر تمام تر مذاہب کے مقابلے میں تحریف وتبدل سے بالکل محفوظ ومامون ہے۔
(ہ)ماضی میں ان کی سیاہ تاریخ اور اس کے آثار کو بھلادینا:
یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان ان کے گذشتہ کالے کارناموں اور سیاہ کرتوتوں کو بھلا دیں اور ان کے اندر موجود انتقامی جذبہ سرد پڑجائے، لیکن ایک بیدار دانش مند مسلمان کو ان کے اس دعوت مفاہمت کی خباثت اور چالبازی معلوم ہے کہ ایک طرف یہ تقارب ادیان اور باہمی سمجو تے کی دعوت دیتے ہیں دوسری طرف یہ لوگ اسلامی ملکوں میں منافقین امت کے ساتھ مل کر اہل اسلام پر عرصۂ حیات تنگ کررہے ہیں، قتل وغارت گری اور تعذیب وتشرید کا نیا باب رقم کررہے ہیں، چاہے وہ عراق و افغانستان میں ہو یا فلسطین، سیریا اور لبنان میں ہو۔
۵۔مذہبی رواداری اور ترک تعصب کی طرف دعوت دینا:
یہ درحقیقت کفار ومنافقین کی وہ کٹ حجتی اور بے سند بات ہے جس کا نعرہ یہ لوگ محض اس لےم بلند کررہے ہیں تاکہ عقیدۂ ولاء وبراء کو متزلزل کرنے والے دعوتِ انسانیت اور تقاربِ ادیان جیسے فارمولے پر بہ آسانی عمل درآمد ہوسکے، یقیناً جو لوگ اس کے حامی ہیں وہ اسلامی رواداری کے حقیقی معنی ومفہوم سے ناآشنا ہیں، ان کے غور و فکر کا مطمح نظر مغربی کفار یا ان کے آلہ کار منافقین ہوتے ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ مسلمان ان کفار اور یہود ونصاری سے بغض ونفرت اور عدوات ودشمنی کو ترک کرکے پوری طرح بے بسی کی تصویر بن کر ان کے ظلم وزیادتی، قہر وجبر اور استبداد واستحصال کا نشانہ بنے رہیں، حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ اس فکر کے علمبردار بڑے بڑے’اصحابِ جبہ و دستار، اہل فکر ودانش‘ بنے پھر رہے ہیں۔ نسأل الله السلامة
۶۔سلفی فکر کی بیخ کنی اور اس کے بالمقابل تصوفانہ فکر کو رواج دینا:
تبدیلی کی اس مہم کا رجحان غالبا اسلامی ممالک میں بایں طور پر پیدا ہوا کہ بالواسطہ یوروپین دباؤ کے نتیجے میں سلفیت کے بالمقابل دوسرے افکار ومناہج اور تحریکات کا شدت سے مطالبہ کیا جائے تاکہ دین سے نسبت رکھنے والے عوام الناس کے ذہنوں میں سلفیت کے خلاف نفرت اور دیگر فاسد نظریات کے بارے صحیح تصور پیدا ہوجائے۔
اس کی اصل وجہ یہ کہ سلفیت ہی وہ پلیٹ فارم ہے جہاں دین کے تشریعی مصادر یعنی کتاب وسنت پر صحیح معنوں میں عمل کرنے کی طرف دعوت دی جاتی ہے، اس کے علاوہ دوسری تحریکات اور جماعتیں لوگوں کو ایک خاص مقصد کے تحت استعمال کرتی ہیں۔
۷۔لٹریچر، میگزین اور مختلف ٹی وی چینلوں اور ویب سائیٹوں کے ذریعے شکوک وشبہات کے ایسے ایسے دروازے کھولنا جو لوگوں کو جادوگری، نجومیت اور شرک اکبر کی طرف دعوت دیتے ہوں۔
۸۔مسلم مارکیٹوں میں ایسے کپڑے، سامان، مٹیریل، مواد، آلات و اوزار کا چلن ہو جس میں کفار کے شعار(logos) اور خصوصی علامات (emblems) کا نقش ہو مثلاً صلیب، شیطانیت پرستوں، کافر ومشرک فن کاروں اور کھلاڑیوں کی کی منقش تصویریں جسے مسلمان بلا جھجک اپنے جسموں پر ان سب کی نمائش کےف پھرتے ہیں۔
دوسرا مظہر:جہاد کے بارے میں طرح طرح کے اعتراضات واشکالات پیدا کرنا نیز جہاد اور مجاہدین کی مسخ شدہ تصویر پیش کرنا:
جہاد اسلام کا وہ واحد فریضہ ہے جس نے کفار ومشرکین کی نیند کو حرام کرکے رکھ دیا ہے، ان لوگوں نے قدیم زمانے سے اس کے بارے میں طرح طرح کے الزامات اور شبہات وارد کیے ہیں اور اب تک اعداء اسلام کی طرف سے یہ مذموم کوشش جاری ہے، اس سلسلے میں ان کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ جہاد مسلمانوں کے نزدیک اس مقدس جنگ کا نام ہے جس کا مقصد خونریزی، سفاکیت، معصوموں کا قتل، لوگوں میں دہشت گردی اور مرعوبیت پیدا کرنا اور ان کے اموال پر قبضہ جمانا ہے، اسی لے انوطں نے رواداری،انسانیت، باہمی پرامن بقا اور اور تقارب ادیان کی طرف دعوت دینا شروع کیا ہے۔
جہاد کی اہمیت وفضیلت اور اس کے اہداف ومقاصد قرآن وحدیث میں واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں تاہم بعض شکستہ خوردہ اسلامی مفکرین نے اسلام کی طرف سے دفاع کرتے ہوئے اسے صرف اور صرف’دفاعی جہاد‘ پر محمول کیا ہے کہ اسلام، کفار سے قتال کرنے کی کوئی ترغیب نہیں دیتا ہے الا یہ ابتداء جنگ، کفار کی طرف سے ہو، اور نہ ہی جہاد کا مقصد اسلام کی نشر و اشاعت اور کفار ممالک کو اسلامی نظام کے تحت رکھنا ہے بلکہ بعض بدباطن منافقین نے تو دفاعی جہاد کو ہی معلطل اور منسوخ ہی قرار دے دیا۔
تیسرا مظہر: مستشرقین اور باطنی منافقوں کے ہاتھوں اسلامی تاریخ کی مسخ کاری اورغلط تصویر کشی:
تاریخ و سیرت کے ماہر جامعہ ام القری کے ایسو سی ایٹ پروفیسر محمد بن صامل السلمی حفظہ اللہ اسلامی تاریخ کو درپیش فکری یلغار اور تاریخ کے ساتھ کی گئی ناانصافی کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اسلامی تاریخ کو غزوۂ فکری کا سامنا اس لیے کرنا پڑا کیوں کہ کسی بھی قوم وملت کا سرمایۂ افتخار اور سربلندی کا اصل محور اس کی روشن وتابناک کارناموں سے پُر ماضی کی تاریخ ہوتی ہے جس پر بلاشبہ نہ صرف ان کو ناز ہوتا ہے بلکہ اسے زندہ و تابندہ بنانے کے لےک ہمہ وقت ان کے اندر ہمت وحوصلہ موجزن ہوتا ہے، زندگی کے ہر محاذ پر دشمن سے مقابلہ آرائی کے لے اور اپنی پرانی روایات و اقدار کو صفحۂ زندگی پر لانے کے لےد ان کے سامنے علماء و مصلحین، قائدین و داعیان حق، اولوا العزمی کے پیکر ابطال ومجاہدین اور اسلاف امت کے کارہائے نمایاں کی ایک سے بڑھ کر ایک مثال موجود ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ ساری صفات امتِ محمدیہ کی ساڑھے چودہ سو سال کی طویل تاریخ میں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہیں لہذا یہ کوئی امر تعجب نہیں کہ دشمنان اسلام، اسلامی تاریخ کو توڑ مروڑ کرکے اسے بگاڑ کرکے پیش کریں، تحریف وتبدل سے کام لیں، اس میں واقع طویل تاریخی واقعات و حوادث سے جان بوجھ کر غلط نتائج اخذ کریں اور ایسے امور وواردات، قصے کہانیوں، من گھڑت افسانوں اور دیومالائی داستان کو اس کا حصہ قرار دیں جو اس تاریخ کا حصہ نہیں ہے۔
عصر حاضر میں یوروپین مستشرقین(Orientalists) اور ان کے تحقیقی اکیڈمیوں اور سراغ رساں اداروں نے یہ کام بخوبی انجام دیا، اور یہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے درمیان اپنے افکار و نظریات کی تشہیر کے لیے اسلامی ممالک میں اپنے بعض معاونین کو بھی تیار کیا ہے۔
اس سلسلے میں انوںں نے جن وسائل کا بھرپور استعمال کیا ہے وہ یہ ہیں:
(ا)واقعات کو گھڑنا اور معائب ونقائص کو نمایاں کرنا:
اسلامی عقائد ونظریات اور سیرت وتاریخ کو مسخ کرنے کے لے مستشرقین اور کفار کی ایجنسیوں نے اسی طریقۂ کار کو سب سے زیادہ اپنایا ہے۔یہ لوگ دیگر اقوام کو مسلمانوں سے متنفر کرنے کے لے ایسی روایات اور قصے ازخود گھڑ کر پیش کرتے ہیں جس سے مسلمانوں کی وحشیانہ طرز زندگی، سفاکیت اور درندگی وغیرہ جیسے قبیح صفات کی تصویر کشی ہوتی ہے۔
یہاں صرف اسلامی تاریخ کے بارے میں ان کی کذب بیانی اور دروغ گوئی کی دو چھوٹی سی مثالیں ایک جرمن مستشرق کارل بروکلمان (Carl Brockelmann) کے حوالے سے بیان کی جارہی ہیں جو نہ صرف یہ کہ ان کے نزدیک بلکہ بعض مسلم اسکالرز کی نظر میں انتہائی اہم اور معتبر سمجھا جاتا ہے۔
چنانچہ یہ جرمن مستشرق اپنی کتاب’تاريخ الشعوب الإسلامية‘کے صفحہ ۳۶ میں لکھتا ہے:
الكعبة بناء ذو أربع زوايا، يحتضن في إحداها الحجر الأسود، ولعله أقدم وثن عبد في تلك الديار، وكانت الكعبة تضم تمثال الإله القمري هبل، بالإضافة إلى الآلهة الثلاثة المعبودة (اللات والعزى ومناة) کعبہ چار کونوں سے بنی ایک عمارت ہے جس کے ایک زوایے میں حجر اسود ہے جو کہ شاید اسی علاقے میں پوجا اور پرستش کیے جانے والا ایک پرانا بت ہے نیز اسی کعبہ کے ساتھ میں «ہبل» نامی قمری خدا کی مورتی کے ساتھ ساتھ لات، عزی اور منات ناموں کےتین الہ ہوا کرتے تھے۔
آپ خود سوچیے کہ یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے اور اس سے لوگوں کے دلوں میں کتنے سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں!!
اسی طرح کی دوسری مثال جو اسی کتاب کے صفحہ ۸۵ میں موجود ہے وہ لکھتا ہے:
ففيما كان محمد لايزال على قيد الحياة ظهر في تلك البلاد، رجل اسمه (مسلمة) وقد دعاه المسلمون مسيلمة من باب التصغير الذي يقصد به التحقير، وادعى النبوة(محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زندگی میں ایک نبوت کے دعویدار شخص «مسلمہ» کا ظہور ہوا جس کو مسلمان بطور حقارت «مسمہلم» کہا کرتے تھے۔
یہ ایک ایسی جھوٹی اور من گھڑت بات ہے جس کا تاریخی حقیقت سے دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے، بہرحال ایسے مستشرق اسلام دشمن کا ایک مدعی نبوت اور کذاب ودجال کی حمایت میں گفتگو کرنا کوئی امر تعجب نہیں ہے کہ الکفر ملة واحدة
اس کی کذب بیانی اور افترا پردازی کے رد و ابطال کے لےو صحیح بخاری میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث کافی ہے جس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خواب کی تاویل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فأولتهما كذابين يخرجان بعدي، فكان أحدهما العنسي والآخر مسيلمة الكذاب صاحب اليمامة(میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ میرے بعد دو جھوٹے نبی ہوں گے، پس ان میں سے ایک تو اسود عنسی ہے اور دوسرا یمامہ کا مسیلمہ کذاب تھا)
آپ پوری کتاب پڑھیں گے تو اس کے جھوٹ، افتراء اور تلبیسانہ رویے کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ جائیں گے، پوری کتاب اسلامی اصول و قوانین، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ خلفاء راشدین کے بارے میں عیب جوئی، تنقیص سے عبارت ہے۔
(ب)بحث وتحقیق میں لادینی طریقۂ کار کا استعمال:
غزو فکری کی کامیابی میں اس غیر مذہبی انداز کو اپنایا گیا حتی کہ عالم اسلام کی بہت ساری یونیورسٹیوں، ریسرچ سینٹروں اور تحقیقی اداروں میں بھی اسے بروئے لایا گیا۔اسی وجہ سے مسلمانوں کے علمی سرمائے پر بہت برے اثرات مرتب ہوئے چونکہ اس کی بنیاد مثبتیت پسندی«Positivism»کے اس نظریہ پر ہے جس کے اندر وحی و نبوت کا انکار اور ربانی منہج کی کوئی حیثیت نہیں ہے باوجودیکہ ان کا دعویٰ موضوعیت اور غیر جانبدارانہ علمیت کا ہے جب کہ حقیقت میں یہ نہ تو علمی ہے اور نہ شرعی، اس کے غیر شرعی ہونے میں کسی دلیل کی ضرورت بھی نہیں ہے جبکہ اسلامی تہذیب و ثقافت اور تاریخی مواد پر ان کی لکھی گئی کتابوں کے استقراء اور تتبع سے غیر علمی ہونا بھی ثابت ہے جو کہ درج ذیل چند امور پر قائم ہے:
(ا)نصوص شرعیہ کو اپنے ایک خاص فکر اور نظریے کے تابع بنانا، پھر اس نظریہ کے خلاف وارد نصوص کا ڈھٹائی سے انکار کرنا بلکہ بعض اوقات ان نصوص کی تحریف کرنا۔
(ب)علمی فقدان اور اسلامی تاریخ و ثقافت کے بنیادی مصادر سے لاعلمی اور ناواقفیت، اسی لےا ان کے احکام ونظریات عموما صحیح دلائل سے خالی ہوتے ہیں۔
(ج)علمی مصادر ومراجع کے تفاوت ِ درجات سے نابلد ہونا یا تجاہل عارفانہ سے کام لینا، چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ یہ مصادر ومراجع کے حوالے سے کتنی جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تاریخِ حدیث بارے میں گفتگو کرتے وقت کتب ادب کا حوالہ اور فقہ کے بارے میں بات کرتے وقت کتب تاریخ کا حوالہ دیتے ہیں مثلا دمیری کی «حیاة الحيوان» کے منقولات کی صحت پر یقین کرتے ہیں اور «موطا» کی مرویات کو جھٹلاتے ہیں نیز صحیح بخاری پر حملہ آور ہوتے ہیں اور «الأغاني» جیسی رافضی فکر پر مشتمل کتاب کو خوب اہمیت دیتے ہیں۔
(د)اسلامی مباحث کے حوالے سے علمی امانت داری کو پس پشت ڈال دینا۔
(ج)نصوص کی غلط تفسیر اور نادر معنی ومفہوم کشید کرنا:
یہ امر دو حالتوں سے خالی نہیں ہوسکتا اولا یا تو بربنائے جہالت ایسی غلطی کرتے ہوں اور یہ کوئی بعید از عقل بات نہیں ہے کیونکہ مستشرقین کی اکثریت عربی زبان کے معانی ومدلولات کو سمجھنے سے قاصر ہوتی ہے اور نتیجتاً وہ اس طرح کی فحش غلطیوں کے شکار ہوتے رہتے ہیں۔
یا تو جان بوجھ کر ایسی غلطی کرتے ہیں جو بلا شبہ ان کی اسلام دشمنی کا ایک مظہر ہوتا ہے اور مستشرقین کے لٹریچر میں اس قبیل سے غلطی عموما اسلامی احکام ومسائل مثلا جہاد، غلامی کا تصور، اسلام میں عورتوں کا مقام ومرتبہ اور سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی نظام وغیرہ میں بکثرت دیکھنے کو ملتی ہے۔چونکہ اس طرح کے حساس مسائل کی تشریح وتوضیح محض تاریخی واقات کی بنیاد پر نہیں کی جا سکتی ہے بلکہ اس کے لےہ شرعی احکام وضوابط اور تفسیر وفقہ کی معرفت ازحد ضروری ہے لیکن افسوس کہ یہ سارا کچھ ان کے یہاں مفقود ہے!!
(د)تاریخی واقعات کا من مانی تجزیہ کرنا:
تاریخی واقعات و حوادث کے نقد وتبصرے کے لے اس باب میں مقررکردہ علمی ضابطوں کی پاسداری انتہائی ضروری ہوتی ہے، اس کے جانچنے اور پرکھنے میں نفسی رجحان، قلبی میلان اور ذاتی جذبات واحساسات اور شوق وذوق کا بالکل بھی دخل نہیں ہونا چاہیے اس لیے کہ تاریخی اخبار دراصل واقع شدہ حقائق کے ترجمان ہوتے ہیں، لیکن اس کے برخلاف مستشرقین محض خواہشات کی بنا پر ایک مخصوص طے شدہ فکر کے زیرِ اثر یہ اس کام کو انجام دیتے ہیں۔
(ہ)حقیقت کے کسی پہلو کو نمایاں کرنا اور کسی واقعے کو اس کے خارج از سیاق (آوٹ آف کنٹیکسٹ) پیش کرنا:
تاریخ کے کسی گوشے کو نمایاں کرنے اور دوسرے کو چھپانے سے متعلقہ واقعے کی صحیح تصویر کشی کے بجائے اس کا حلیہ بگڑ جاتا ہے مثلا اگر ہم تاریخِ اسلام کا مطالعہ کرتے ہوئے اس میں رونما ہونے والے داخلی حادثات، سیاسی زندگی، حکمرانوں کی تخت نشینی، ان کی معزولی اور ان میں ایک دوسرے کے خلاف ہونے والے شورش وبغاوت اور ان جیسے واقعات کو مرکوز کرتے ہوئے یہ کہیں کہ ’اسلامی تاریخ‘ ہے تو یہ ظاہر ہے اس کے ساتھ بدترین ناانصافی ہوگی تاہم اسی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے دورحاضر کے بہت سارے اسکالروں نے یہی نتیجہ اخذ کیا مثلا احمد امین، طہ حسین، شوقی ضیف وغیرہم۔
(و)اسلامی تاریخ کے مطالعے کو کمزور تر کرنا اور دیگر اقوامِ عالم کی تواریخ کو شامل کرنا:
غزو فکری کا ایک طریقہ یہ بھی ہے اسلامی جامعات ومدارس اور دیگر مراکزِ علم وفن میں امت مسلمہ کے مطالعۂ تاریخ کو کمزور کر دی جائے اور اس کے اندر کفریہ امتوں کی قدیم وجدید تاریخ کو لا کر بھر دیا جائے، جس سے قارئین کے دلوں میں اسلامی تاریخ کے حوالے سے تنگی کا احساس پیدا ہو، اس لےر کہ اس تاریخ کا ایک بڑا حصہ غیروں سے متعلق ہوتا ہے اور اسلامی تاریخ اگر ہوتی بھی ہے تو وہ حدرجہ بگڑی ہوئی شکل وصورت میں!!
(ز)آخری زمانوں میں مسلمانوں کے بدتر حالات کو اسلامی تعلیمات کی حقیقی صورت کے طور پر پیش کرنا:
اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کو ان کے دین سے دور کیا جائے چونکہ یہ ان کے سامنے مسلمانوں کی دینی تعلیمات سے دوری اختیار کرنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بگڑے ہوئے حالات، انحطاط وزوال اوراضمحلال وپسماندگی کے مختلف ادوار کو بطور دین پیش کرتے ہیں اور ان کے سامنے طرزِ زندگی کے دو طریقے بیان کرتے ہیں کہ یا تو وہ اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے اسی پچھڑے پن، گراوٹ اور تنزلی کے شکار رہیں یا یوروپین کی طرح مذہبی احکام وقوانین کو پس پشت ڈال کر ترقی، بلندی، کامیابی اور تقدم وتطور کی طرف گامزن ہوں اور کمالِ عیاری اور مکاری سے وہ تیسری چیز جو ان دونوں سے بہتر ہے، اسے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ امت کی ترقی کا واحد راستہ دینِ حق یعنی اسلام کے مطلوبہ معیار تک پہنچنا ہے اور اس کی ناکامی کا طبعی نتیجہ عقیدۂ توحید اور اسلامی تعلیمات کے سلسلے میں کوتاہی برتنا ہے۔
(ح)گمراہ فرقوں کے ادوار کو نمایاں کرنا اور بڑھا چڑھا کر پیش کرنا:
فتنہ پرور مستشرقین اور ان کے دم چھلوں نے اسلامی عقائد و افکار سے منحرف ہونے والے فرقوں اور گروہوں مثلا خوارج، روافض، قرامطہ، اخوان الصفا، معتزلہ اور جہمیہ وغیرہ نیز گمراہ کن رجال وشخصیات مثلا ابن سبا، عبیداللہ بن میمون القداح، حاکم العبیدی، صاحبِ زنج علوی، حسین بن منصور حلاج اور ابن عربی وغیرہم کی تاریخ اور ان کے زیغ وضلال سے پُر علمی تراث اور سرگرمیوں کو خوب خوب بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے، اسے فروغ دینے کے لےے انورں نے مستقل ادارے قائم کررکھے ہیں۔ ان گمراہ فرقوں کو اصلاحی تحریکات کے طور پر بیان کرتے ہیں جبکہ یہ سراسر حقائق وواقعات کے بر عکس ہے۔[۶]
بہر کیف اسلامی تاریخ کو مسخ کرنے اور اسے بگاڑنے کے لےع مستشرقین اور دیگر دشمنانِ دین ان تمام آٹھوں وسائل کو استعمال کرتے ہیں۔ جن میں سر فہرست سب سے بڑا کردار ان باطنی منافق رافضیوں کا ہے جنووں نے نہ صرف اسلامی تاریخ کے اندر دسیسہ کاری اور تحریف وتشویہ کی ہے بلکہ اپنے باطل افکار و نظریات کو تقویت دینے میں قرآن کریم میں بھی تحریف کرنے سے باز نہیں آئے اور امت کے سب سے افضل ومقدس گروہ صحابۂ کرام کو بھی نشانۂ طعن بنایا۔
قاتل الله الرافضة أنى يؤفكون
چوتھا مظہر:-شریعت اسلامیہ کے بارے میں اعتراضات وارد کرنا اور حکومت اور بالادستی کے لےل اسے نااہل قرار دینا:
ان کاکہنا ہے کہ اسلامی شریعت عصر حاضر کے پیدا شدہ نت نئے مسائل کے بارے میں حل نہیں پیش کر سکتی لہذا اس کے بالمقابل اقوامِ عالم کے وضع کردہ قوانین جو کہ عقل و شرع اور فطرت سلیمہ کے عین مخالف ہیں، ان کی اشد ضرورت ہے، دوسرا سبب یہ ہے کہ شرعی قوانین کو نافذ کرنے سے معاشرے میں طائفیت اور گروہ بندی کو ہوا ملتی ہے اور کبھی کبھی تحکیمِ شریعت سے انکار اس لیے کیا جاتا ہے کہ دین پاکیزگی اور شفافیت کا نام ہے لہذا اسے جھوٹ اور مکر و نفاق پر مشتمل سیاست سے دور رکھنا چاہیے!
پانچواں مظہر:- عورتوں کے احکام ومسائل کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرنا اور اسلامی گھرانوں کو تباہ وبرباد کرنا:
مسلمان عورتوں اور اسلامی گھرانوں کو سب سے زیادہ نظریاتی اور عملی یلغار کا سامنا کرنا پڑا ہے اس لےگ کہ کفار ویہود ونصاری اور ان کے منافق پیروکاروں کو یہ بات معلوم ہے کہ منظم معاشرے کی اصل جڑ درحقیقت ایک ماں اور باپ سے وجود میں آنے والا کنبہ اور گھرانہ ہے اور بالخصوص آنے والی نسلوں کی تربیت گاہ بھی یہی مسلمان عورتیں ہیں لہذا اسے اعتقادی خرابی اوراخلاقی انارکی میں مبتلا کیا جائے جس سے خاندانی تباہی کے نتیجے میں پورا اسلامی معاشرہ بربادی کے دہانے پر پہنچ جائے اور پھر بآسانی انیںت اپنے افکار و تصورات اور طرزِ زندگی میں ڈھالا جاسکے۔
اس خبیث مقصد کو بروئے کار لانے کے لے یہ لوگ درج ذیل وسائل کو استعمال کرتے ہیں:
(ا)عورتوں سے متعلق بعض شرعی احکامات مثلا لباس وحجاب، گھریلو امور کی انجام دہی اور خاندانی اور معاشرتی طرز زندگی کے بارے میں اعتراضات پیدا کرنا، عورتوں کو مظلوم اور حقوق انسانی سے محروم قرار دینا، آزادیٔ نسواں اور مساوات کی بات کرنا وغیرہ۔
فرق یہ ہے کہ کچھ لوگ تو اپنی بے دینی اور خباثتِ نفسی کو صراحتاً ظاہر کردیتے ہیں جبکہ دوسرے لوگ علماء ربانیین کو عورتوں سے متعلق وراد نصوص کو نہ سمجھنے کا طعنہ دیتے ہوئے انیںے متشدد اور انتہاپسند بھی کہتے ہیں اور خود ان نصوص شرعیہ کی بھونڈی تاویل کرکے مغربی افکار کی ہم نوائی کرتے ہیں۔
(ب)اسلامی گھرانوں کے اندر فحاشی اور بے حیائی، بداخلاقی اور بدعقیدگی کو فروغ دینے والے شیطانی اور ابلیسی ٹی وی چینلوں، مختلف میڈیائی پلیٹ فارموں اور ان جیسے دیگر آلات و وسائل موبائل وغیرہ کو ہر چھوٹے بڑے مرد وعودت کے ہاتھوں ہاتھ عام کردینا۔
(ج)آغازِ شباب ہی میں مسلمان بچوں کے لے مغربی ممالک تک پہنچنے کا راستہ ہموار کرنا جہاں ان کے ذہن ودماغ کی اچھی طرح برین واشنگ کی جاسکے اور ان کے بنیادی عقائد و افکار اور اخلاق کو اس قدر متاثر کرسکیں کہ وہ لوٹ کر آنے کے بعد اپنے ہی بچے، گھرانے اور معاشرے کے لےر تباہی کا سامان بن سکیں۔
(د)مسلمانوں کے لیے آسائش وآرام کے ایسے بیش بہا وسائل کی فراہمی جس سے آخرت کی بے فکری اور دنیا کی محبت ان کے دلوں میں راسخ ہوجائے۔
(ہ)مسلم گھرانوں میں بعض عائلی قوانین مثلاً طلاق ونکاح، وراثت و گواہی میں درجۂ تفاوت، تعدد ازواج اور مرد کی حاکمیت وقوامیت کے بارے شبہات پیدا کرکے عورتوں کو شرعی احکام کے خلاف نفرت و بغاوت پر آمادہ کرنا۔
(و)بعض اسلامی ملکوں کے تعلیمی نصاب پر قبضہ جمانے کی کوشش کرنا اور ان میں ایسی کتابیں داخل کرنا جس سے نوخیز اور سادہ ذہن کے طلبہ اسلام کے بارے میں شکوک وشبہات کے شکار ہوجائیں۔
چھٹا مظہر:اسلامی اقتصادیات پر متعدد اعتراضات کرکے سود اور دیگر حرام وسائلِ کسب کو حلال قرار دینا:
اسلامی اقتصاد (Islamic economy) دراصل حکم الہی کے مطابق مصلحت عامہ کے پیش نظر، عدل وانصاف پر مبنی، ایک کامل نظامِ معیشت ہے جو دو انتہا پسند نظریۂ اقتصاد یعنی کیپٹلزم اور سوشلزم کے مابین حقیقت و واقعیت اور اعتدال و توازن سے متصف ہے۔
پہلا کیپٹلزم جہاں سرمایہ داری اور اموال جمع کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جاتا ہے وہیں موخر الذکر انسانی عقل وفطرت کے برخلاف انفرادی ملکیت کا سرے سے منکر ہے، ایسے میں دین اسلام کی وسطیت اور اعتدال اظہر من الشمس ہے۔ اسی لےک دشمنان ِ اسلام اس بہترین نظامِ اسلامی کو تہ و بالا کرنے کے لے درج ذیل چند اعتراضات اور شبہات کا سہارا لیتے ہیں۔
(ا)ان کا خیال ہے کہ اسلامی نظامِ اقتصاد کو آج کے دور میں بروئے کار نہیں لایا جاسکتا، اس لےو کہ سودی کاروبار اب ایک اضطراری صورت حال اختیار کر گیا ہے جس کے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں!
(ب)ان کا کہنا ہے کہ اسلام کا تعلق صرف بندے اور رب العالمین کے مابین ہے نہ کہ لوگوں کے دنیاوی کاروبار اور معاملات سے اس کا کوئی ربط ہے۔
یہ درحقیقت وہی فاسد نظریہ ہے جس کا اظہار شعیب علیہ السلام کی قوم نے قرآن کے ان الفاظ میں یوں کیا تھا:
یا شعیب أصلوٰتك تأمرك أن نترك ما یعبد آباؤنا أو أن نفعل فی أموالنا ما نشاء[۷]اے شعیب! کیا تیری نماز تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادوں کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور اپنے مال ودولت کے بارے میں جو کچھ کرنا چاہیں وہ بھی نہ کریں؟
(ج)حرام کردہ تجارتی کاروبار اور معاملات بالخصوص بینک سے متعلقہ کاروبار کوتاویل کرکے حلال قرار دینا، ان کے ناموں کو بظاہر تبدیل کردینا نیز دلالی اور محنتانہ کے نام پر رشوت خوری کا بازار گرم کرنا غرضیکہ حرام و حلال کی تمیز کےد بغیر مال کمانے کے تمام تر وسائل کو اپنانا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا تھا:
ليأتين على الناس زمان لايبالى المرء مما أخذ المال أمن الحلال أم من الحرام[۸]لوگوں پر ایسا وقت ضرور آئے گا کہ لوگوں کو اپنے کمائے مال کی پرواہ نہیں ہوگی کہ آیا حلال طریقے سے مال آیا ہے یا حرام۔
(د)مسلمانوں کے بازاروں میں ایسے خیالات اور طریقۂ کار کو پروموٹ کرنا جس سے فریب، جھوٹ، دھوکہ دہی اور فراڈ کو استعمال کرکے لوگوں کے اموال کو باطل طریقے سے لوٹ کر کھایا جائے۔
(ہ)اسلامی اقتصادیات کو اس قدر کمزور کردینا کہ مسلمان ممالک ان کفار ومشرکین اور منافقین وملحدین کے تابع اور محتاج بن کر رہ جائیں۔
شبہات واعتراضات کے نشر وفروغ میں غزوۂ فکری کے وسائل و ذرائع:
اگر یہ بات کہی جائے کہ اس سلسلے میں کفار اور یہود ونصاری کا سب بڑا وسیلہ وہ مسلمانوں ہی میں سے بعض وہ منافق افراد ہیں جنیںل اہلِ اسلام کو ان کے دینی واخلاقی اقدار وروایات سے برگشتہ کرنے کے لےض بطور ایجینٹ استعمال کیا گیا، بلکہ انواں نے بعض اسلامی ممالک میں ان دشمنانِ اسلام کفار کے لےہ ناجائز عسکری قبضہ (military occupation) جمانے کا سبب بھی بنے، امریکہ کی غنڈہ گردی اور عراق و افغانستان میں اس کے فوجی قبضے اس کی واضح مثال ہے۔
چنانچہ اگر آپ لبرل اور علمانیت زدہ منافقین کی تحریروں کو پڑھیں گے تو آپ کو ان کے جگالی پن اور کفار کے دعوؤں اور نعروں میں حددرجہ فکری یکسانیت اور یگانگت محسوس کریں گے۔
ان منافقین کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے:
وإذا لقوا الذين آمنوا قالوا آمنا وإذا خـــلوا إلى شياطينهم قالوا إنما نحن مستهزءون[۹]کہ جب یہ اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں اور جب اپنے گروگھنٹالوں کے پاس تنہائی میں ہوتے ہیں تو صرف ان سے مذاق کرتے ہیں۔
بہرحال ان کے علاوہ بھی دیگر بہت سارے وسائل ہیں جنیںھ ذیل کے سطور میں اجمالاً بیان کیا جا رہا ہے۔
(ا)میڈیا اور ذرائع ابلاغ، خواہ وہ پرنٹ میڈیا ہو، الیکٹرانک میڈیا ہو یا سوشل میڈیا ہو، لوگوں کی توجہات کا مرکز بننے اور ان کے ذہن ودماغ کو متاثر ومخاطب کرنے میں پوری انسانی تاریخ میں اس نے بے مثال کردار ادا کیا ہے۔
(ب)تحریک استشراق (Orientalist Movement) جو ہمیشہ اسلامی عقائد و افکار اور احکام ومسائل کے خلاف پروپیگنڈے کی مہم چلانے اور اسلامی تاریخ وسیرت کے باب کو گندلا کرنے بلکہ اسے مسخ کرنے کے لےا مختلف کتب ومولفات اور مضامین کو منصۂ شہود پر لاتا رہا ہے۔
(ج)عالمگیریت کے نام پر اجنبی مدارس (Foreign Schools) کا قیام جس میں انتہائی باریک بینی کے ساتھ منحرف اہداف ومقاصد پر مشتمل مخلوط نصابی کتابیں طلبہ کو پڑھائی جائیں، بلکہ بعض جگہوں پر تو درسی مقررات(syllabuses) تک میں ان کفار کی رسائی ہوتی ہے جو اس کوشش میں سرگرم عمل رہتے ہیں کہ ان تمام مواد کو حذف کردیا جائے جن میں کفار سے بغض ونفرت اور عدوات ودشمنی رکھنے کے لے کہا گیا ہو اور جہاد وقتال کے باب کو سرے سے خارج کردیا جائے۔
(د)بلاد کفر میں طلبہ اور طالبات کی ایک بڑی تعداد کا حصول علم کے لےا راستہ ہموار کرنا، جہاں مخلوط نظام تعلیم کے تحت ان کے سامنے اسلام کے بارے میں مختلف اعتراضات پیش کےت جائیں اورشرعی علوم سے خالی ذہن ودماغ کو بری طرح سے اثر انداز کیا جائے۔
(ہ)عقیدۂ توحید اور عقیدۂ ولاء وبراء کے حقیقی تقاضوں کو پس پشت ڈالنے کے لےس اسلامی رواداری اور آسمانی مذاہب کے حوالے سے اخوت و بھائی چارگی اور تقارب ادیان کے نام پر مختلف جلسے، کانفرنسیں اور میٹنگیں منعقد کی جائیں۔
(ہ)انسانی حقوق اور حقوقِ نسواں کے تحفظ کی خاطر بین الاقوامی سطح پر کانفرنسوں کا انعقاد کرنا جہاں اسلام میں بیان کےب گئے عورتوں کے حقوق کی توہین کی جاتی ہے، بظاہر عورتوں کی آزادی اور مساوات کے نعرے بلند کےا جاتے ہیں۔
(و)عقلانیت زدہ ماڈرنزم کے دعویداروں نے نقلِ صحیح یعنی کتاب وسنت کے باوجود عقل کو ترجیح دیتے ہوئے جن نصوص کا انکار کیا ہے، اسے کفار ومنافقین اچک لیتے ہیں اور لوگوں کے سامنے خوبصورت انداز میں پیش کرکے اعتقادی اور اخلاقی بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
(ز)بعض بھولے بھالے علماء اور دعاة کے وہ فتاویٰ ومقالات جنھیں شرپسند اہل بدعت اور منافقین اپنے منحرفانہ افکار کی تائید میں خوب خوب استغلال کرتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے یہ اپنی نیک نیتی کے ساتھ، عمومی مصلحت کے پیش نظر کسی مسئلے میں شروط وضوابط کے بغیر تاویل کرتے ہیں درآنحالیکہ وہ اپنے آپ کو شرعی قوانین پر عمل پیرا تصور کرتے ہیں لیکن بعد میں اس کے جو خطرناک عواقب اوربھیانک نتائج سامنے آتے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ لا شعوری میں یہ کفار ومنافقین کے اہداف ومقاصد بروئے کار لانے میں ممد و معاون ثابت ہوئے ہیں۔[۱۰]
اللہ رب العالمین کفار ومنافقین اور دیگر دشمنانِ اسلام سے امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے۔ آمین
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
______________________
مراجع و مصادر
۱۔البقرہ:۲۱۷/۲
۲۔الممتحنہ:۴/۶۰
۳۔الكافرون:۱/۱۰۴-۶
۴۔يونس:۳۲/۱۰
۵۔الزمر:۲۹/۳۹
۶۔مجلة البيان، شماره نمبر (۲۱-۲۲) میں شائع شدہ مضمون’وسائل الغزو الفکری في دراسة التاريخ‘سے بالاختصار ماخوذ ہے۔
۷۔ ہود:۸۷/۱۱
۸۔صحيح البخاري، كتاب البيوع، باب قول اللّه تعالى:يا أيّها الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا(۲۰۸۳)
۹۔سورہ بقرہ:۱۴/۲
۱۰۔ ترجمہ و تلخیص از کتاب’ولو شاء ربك ما فعلوه للشيخ عبد العزيز بن ناصر الجليل‘ ص ۷۵-۱۲۰ فصلِ ثانی کا دوسرا کامل مبحث

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Zawar

Very important knowledge