قبلہ کی مرکزیت و اہمیت اور ہماری ذمہ داریاں

سفیان قاضی مدنی تعلیم و تربیت

دین اسلام میں توحید و وحدت کا نظریہ سب سے عظیم نعمت ہے۔ توحید کی ضد شرک اور وحدت کی ضد تفرقہ بازی ہے جنھیں انتہائی شنیع اعمال گردانا جاتا ہے، اسلامی اقدار وارکان کو ان دو پیرایوں میں جوڑنے کے لیے قرآن وسنت نے چند اساسی اسباب وشعار کا ذکر کیا ہے، جن میں سرفہرست خانہ کعبہ کی مرکزیت اور اسے اساسی قبلہ قرار دیے جانے کا مسئلہ ہے۔ قبلہ یعنی خانہ کعبہ، اللہ رب العالمین کے شعائر میں سے ایک عظیم شعیرہ ہے ۔قبلہ توحید کی عظمت کا مرکز ہے۔ امت کی آفاقی وحدت کا راز ہے، عالمگیر اجتماعیت کا مظہر ہے۔امت مسلمہ میں لاکھوں اختلافات کے باوجود قبلہ کے رخ کی تعیین ساری امت کو ایک قدر مشترک پر قائم رہنے کی دعوت دیتی ہے ۔ مگر ایک عرصہ سے دیکھا جارہا ہے کہ امت مسلمہ کے بعض طبقات کی طرف سے کچھ ایسے عجیب وغریب احکام ومسائل کا ظہور ہورہا ہے جو دین اسلام کو خارجیت وناصبیت کے علاوہ اعتزال وارجا کی گندگی سے آلودہ کررہے ہیں، اس میں ہری پگڑی اور ایرانی عمامہ کا بڑا ہاتھ ہے۔قبلہ کی توہین میں اب ’ کعبہ کیا دیکھتے ہو، کعبے کا کعبہ دیکھو‘ جیسے اشعار لب بام ہیں۔ کربلا کی سرزمین کے کعبہ شریف سے بھی افضل ہونے پر اجماعی دعوے ٹھونکے جارہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں دعا وابتہال کے وقت قبلہ کا رخ کرنا بھی اب بعض ناسمجھوں کو کھٹکنے لگا ہے۔ گویا قبلہ کی وحدت میں رکھا کیا ہے؟ جو کچھ بھی لینا ہے لے لیں گے کربلا سے۔ اور بچا کھچا چرس گانجوں سے گھری درگاہوں سے۔ ظاہر ہے سب کچھ وہیں ملے گا تو قبلہ کس کام کا؟
جبکہ قبلہ ہماری ساری دینی توجہات کا مرکز ہونا چاہیے۔ نماز ، دعا ، ذبیحہ، تدفین جیسے مسائل میں اس کی مرکزیت پر ذرا بھی آنچ آنے سے ہمیں اسے بچانا چاہیے۔ خانہ کعبہ کی مرکزیت کو چیلنج کرنا دین اسلام کو چیلنج کے مترادف ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ مسجد نبوی کی تعمیر پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی، بیت المقدس کی تعمیر انبیاء بنو اسرائیل نے کی، جبکہ خانہ کعبہ کی تعمیر میں اگر اسرائیلی روایتوں کے حوالے سے بات کی جائے تب بھی بابائے انسانیت حضرت آدم اور بانی مکہ حضرت ابراہیم علیہما السلام کا نام ملتا ہے۔ اس طرح یہ مقدس مقام امت محمدیہ کے لیے کئی سعادتوں کا مرکز ہے۔انبیاء کرام کی مرکزیت کا محور ہے۔ یہ مرکزیت صرف عبادتوں میں نہیں بلکہ دنیا کے جغرافیائی نقشے میں بھی خانہ کعبہ کو قبلہ کی حیثیت حاصل ہے، سائنسداں لاکھ اس حقیقت کو دبانے کی کوشش کرے ، زیولوجی کی کوئی پنسل محور ارضی کی تعیین میں کعبے کی وسطیت کے بغیر دنیا کا جغرافیائی خاکہ نہیں بنا سکتی۔
مسلمانوں کا قبلہ بے شمار فضائل کا حامل ہے ۔ یہ وسطیت و اعتدال کا عظیم نمونہ ہے ، مسلمانوں کے علم وعمل کا اساسی مصدر ہے اور اسی مستحکم و مضبوط نسبت کی بنیاد پر قبلہ کا رخ کرنا شرعی مطالب میں سے قرار دیا گیا ہے ( ذلك ومن يعظم شعائر الله) ، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز وغیر نماز میں دعا وابتہال کے وقت قبلہ رخ ہونا صریح اور صحیح احادیث سے ثابت ہے ، قبلہ رخ ہوکر دعا کرنا قبولیت کا سبب بھی ہے اور توحید کا حفظان بھی ، بعض بزرگان سلف سے تو ذکر وعبادت کی مجلس میں بھی قبلہ رخ ہوکر بیٹھنے کا تذکرہ ملتا ہے۔
حضرت مناوی شافعی فرماتے ہیں: قبلہ رخ ہوکر بیٹھنا ایک مرغوب عمل ہے،بندہ مومن کا ہر عمل، حرکت وسکون نظام عبودیت کے تحت ہونا چاہیے۔ اگر بندہ سونے، جاگنے،کھانے پینے،حتی کہ بیٹھنے اٹھنے میں بھی بہ نیت ثواب قبلہ کی پابندی کرے تو ضرور ماجور ہوگا، لہذا استقبال قبلہ کوئی عبث و بےکار عمل نہیں ، بلکہ اس طریقہ کی پابندی ایک مسنون عمل ہے۔ ( فیض القدیر:۲/۵۱۲)
اور امام قسطلانی شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:دعا کی حالت میں استقبال قبلہ ایک مسنون عمل ہے، جس کے بارے میں متعدد حدیثیں وارد ہیں ۔( ارشاد الساری:۹/۱۹۹)
ذیل میں ان چند احادیث کا ذکر ہے جو نماز و دعا میں استقبال قبلہ پر دلالت کرتی ہیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جس دن بدر کی لڑائی ہوئی اس دن رسول اللہﷺ نے مشرکوں کو دیکھا کہ وہ ایک ہزار تھے اور آپ ﷺکے اصحاب تین سو انیس آدمی۔ اللہ کے نبیﷺ نے قبلہ کی طرف چہرہ مبارک کیا، پھر اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے اور پکار کر اللہ سے دعا کرنے لگے ’’اےاللہ! جو تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے اسے پورا کر دے، اے اللہ! جو تو نے وعدہ کیا ہے اسے تو عطا فرمادے، اے اللہ! اگر یہ مسلمانوں کی جماعت ہلاک ہو گئی، تو پھر زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ بچے گا۔ پھر آپ ﷺاپنے ہاتھ کو پھیلائے ہوئے برابر یہ دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ آپﷺ کی چادر آپ کے دونوں مونڈھوں سے اتر گئی، ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور آپﷺ کی چادر کو لیا، اور آپﷺ کےمونڈھے پر ڈال دی، پھرآپﷺ سے لپٹ گئے ۔ اور فرمایا: اے اللہ کے نبیﷺ! بس آپ کی اتنی دعا کافی ہے، اب اللہ تعالی آپ سے کیا ہوا وعدہ ضرور پورا فرمائے گا، چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی:
إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ
(اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سےفریاد کر رہے تھے، پھر اللہ تعالی نے تمھاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا جو لگاتار چلے آئیں گے“۔ (الانفال: ۹) چنانچہ اللہ تعالی نےفرشتوں کے ذریعے آپ ﷺ کی مدد کی۔ الخ(مسلم :۱۷۶۳)
ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی جنگ سے پہلے قبلہ کا رخ کیا اور قریش کے ان ظالموں پر بد دعا کی جن کا ظلم حد سے تجاوز کرچکا تھا، چنانچہ ہر وہ شخص جس کا آپ نے نام لیا غزوہ بدر میں مقتول پایا گیا۔( بخاری:۳۹۶۰/ مسلم:۱۷۹۴)
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ کے مقام پر قبلہ کا رخ کرکے دعا کرتے رہے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔ ( مسلم:۱۲۱۸)
اسامہ بن زید کی حدیث میں ہے کہ آپ نے یوم عرفہ کو اونٹنی سمیت قبلہ کا رخ کیا اور دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ کے ہاتھ مبارک سے اونٹنی کی نکیل گرگئی تو آپ نے ایک ہاتھ سے نکیل اٹھائی،جبکہ دوسرا ہاتھ قبلہ کی طرف اٹھا ہی رہا۔ ( نسائی:۷/۸۳)
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی دعا کے وقت قبلہ کا رخ کرتے تھے۔ ( الجامع الصحیح:۱۴/۱۱۲)
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول ہوا تو ہم اس وقت موجود تھے، جب آپ وحی سے فارغ ہوئے تو تھوڑی دیر بعد آپ نے قبلہ کا رخ کیا ، ہاتھوں کو بلند کیا اور یہ دعا فرمائی:
اللهم زدنا ولا تنقصنا
[ترمذی:۳۱۷۳]یعنی اے اللہ! تو اپنے فضل وکرم میں مزید اضافہ فرما اور اسے کم نہ کر۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت عبد اللہ ذی البجادین کی تدفین سے فارغ ہوئے تو آپ نے قبلہ رخ ہوکر ہاتھوں کو بلند کیا اور دعا فرمائی: اے اللہ! میری شام اس حالت میں ہوئی کہ میں اس بندہ سے راضی تھا، لہذا اے رب تو بھی اس سے راضی ہوجا۔ عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ یہ رات کا وقت تھا، ان کلمات کو سن کر میرے دل میں خواہش ہوئی کہ کاش ان کی جگہ میری تدفین ہوتی اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے دعا فرماتے۔( مسند بزار:۵/۱۲۳)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ قبیلہ دوس کے سردار حضرت طفیل بن عمرو پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور کہا: یا رسول اللہ،میرا قبیلہ سرکشی اور نافرمانی پر اتر آیا ہے، لہذا آپ ان کے لیے بد دعا کر دیجیے، چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ ہوکر ہاتھوں کو بلند کیا، لوگوں کو یہ گمان ہوا کہ آپ بد دعا کریں گے، مگر آپ نے بد دعا نہیں فرمائی بلکہ ہدایت کی دعا فرماتے ہوئے کہا:یا اللہ! قبیلہ دوس کو شرف وہدایت نصیب فرما اور ان سب کو اسلام کی نعمت سے سرفراز فرما۔ ( صحیح ادب المفرد:۲۲۸)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ ہمیشہ قبلہ رخ ہوکر بیٹھنا پسند کرتے تھے، اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کرتے وقت یوں باب باندھا ہے: باب من كان يستحب إذا جلس أن يجلس مستقبل القبلة یعنی: باب اس بیان میں کہ بیٹھتے وقت قبلہ رخ ہوکر بیٹھنا بھی مستحب عمل ہے ۔ ( ابن ابی شیبہ:۸/۶۷۵)
ان نصوص کے علاوہ دسیوں دلیلیں ہیں جن میں قبلہ کی تعظیم واحترام کا خیال رکھا گیا ہے۔
حج کے اعمال کو دیکھیے، جن میں طواف کی ابتدا قبلہ شریف سے، نیز صفا مروہ پہاڑ پر قبلہ رخ ہوکر دعا کا حکم، عرفہ، مزدلفہ میں مشعر حرام، جمرات میں کنکری مارنے اور پھر قبلہ کا رخ کرکے دعا کرنے،ہدی واضاحی جانوروں کی قربانی ان سارے امور میں پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف رخ کرنے کا اہتمام کیا۔
حج کے علاوہ دیگر دعاؤں کے مقامات میں استسقاء( یعنی طلب برسات کی خاطر ) آپ نے قبلہ کا رخ فرمایا۔( بخاری:۱۰۰۵)، جنگ بدر کو روانہ ہوتے وقت قبلہ کی سمت رخ کرکے دعا فرمائی۔( مسلم: ۱۷۶۳) میت کی تدفین میں قبلہ کی سمت کا اہتمام کروایا۔ اذان دیتے وقت قبلہ کی طرف رخ کرنے کی تعلیم دی۔
اب آئیے ان مسائل پر غور کرتے ہیں جو قبلہ کی سمت رخ کرکے کرنے سے منع کیے گئے ہیں ۔
قبلہ رخ ہوکر پیشاب وپاخانہ کرنے یا قضاء حاجت کے وقت اسے اپنی پیٹھ دینے سے آپ نے منع فرمایا۔ ( بخاری:۱۴۴، مسلم:۲۶۵)
قبلہ کی جانب تھوکنے سے آپ نے منع فرمایا۔(بخاري:۴۰۸/مسلم:۵۴۸)
انھی شرعی نصوص کے پیش نظر اہل علم نے اس بات کا لحاظ رکھا ہے کہ اہل قبور کی زیارت کے وقت اگر دعا کی ضرورت پڑے تو قبلہ کا رخ کریں، باوجود یہ کہ قبر کی طرف رخ کرکے دعا کرنے میں مضائقہ نہیں، تاہم توحید وسنت کی حفاظت کی خاطر اور توحید کے باب میں عوامی کمزوریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے قبلہ کا رخ کرکے دعا کرنا ہی افضل و بہتر ہے، علماء احناف کی صحیح اور صریح تعلیمات بھی یہی ہیں کہ سلام کے وقت قبر مبارک کا رخ کیا جائے اور دعا کے وقت رخ موڑ کر قبلہ کی جانب متوجہ ہو۔ چنانچہ امام ابولیث اور کرمانی سے مروی ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کے وقت سلام پڑھنے کی خاطر قبر مبارک کا رخ کرتے اور دعا کے وقت قبلہ رخ ہوتے۔(اخنائیہ:۱۴۷)
اور فتاوی تاتارخانیہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے یہ قول مروی ہے کہ کسی کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ اللہ کے اسماء وصفات کے بغیر دعا کرے، بلکہ مجھے یہ بھی ناپسند ہے کہ کوئی اپنی دعا میں عرش بارئ تعالی کی عمارت یا کھنبوں کا وسیلہ لگائے، یا یہ کہے کہ فلاں کے بہ حق میری دعا قبول فرما۔ ( بحوالہ: التنویر شرح جامع الصحیح:۳/۱۴۸)
نیز علامہ عبدالرحمن بن محمد حنفی(ت۔۱۰۷۸) نے قبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے حنفی آداب ذکر کرتے ہوئے فرمایا: روضہ شریفہ میں نماز سے فراغت کے بعد کوشش کریں کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کے پاس قبلہ رخ ہوکر دعا کریں اور تین یا چار بالشت دور ہی کھڑے رہیں۔( بحوالہ: مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر:۱/۳۱۳)
لہذا قرآن وسنت کے دلائل اور بعض علماء احناف کی صراحت کے مطابق عبادتوں کا محور و مرکز ہی قبلہ ہے۔
لہذا قبلہ کا رخ کرنا اور قبلہ کو اساسی درجہ دینا امت مسلمہ کے اتحاد کی علامت ہے ،موجودہ دور میں قبلہ کی اساسیت امت مسلمہ کے لیے یہ ایک اعتقادی، قانونی اور عملی چیلنج ہے، قبلہ سے محبت کا تقاضہ ہے کہ اس کی مرکزیت کا ذکر ہماری مجلسوں کی رونق رہے،شاید اس کی مرکزیت کا یقین ہماری صفوں میں توحید و اتحاد کو دوبارہ زندہ کردے۔یقینا یہ امت اگر اپنے پرکھوں(صحابہ وتابعین) کی جاگیر پر لوٹ آئے تو عالمی منظر نامہ پر اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکتی ہے۔ توفیق دینے والا رب ہے۔

آپ کے تبصرے

3000