بحرین اور اسرائیل معاہدہ: سوال تو بنتا ہے!

ابوتحسین خان سیاسیات

بحرین ایک اسلامی ملک ہے جو خلیجی کونسل کا ایک ممبر ہے، اس کی مجموعی آبادی ایک رپورٹ کے مطابق 14 لاکھ ہے جس میں نو لاکھ بحرینی اور 5 لاکھ مقیمین ہیں۔ مجموعی آبادی میں 80 فیصد مسلم (جس میں 41 فیصد سنی، 39 فیصد شیعہ ہیں) 11 فیصد عیسائی اور 9 فیصد دیگر مذاہب ( مثلا یہودی، ہندو، سکھ اور بوہری وغیرہ) کے پیروکار ہیں۔ اسلام یہاں کا رسمی مذہب ہے اور عربی یہاں کی سرکاری زبان ہے، بیشتر شیعہ آبادی امامیہ فرقے سے تعلق رکھتی ہے جبکہ سنی مذہب کے ماننے والے مذہب مالکی سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہاں کی اصل آبادی میں 63 فیصد قدیم و اصل بحرینی ہیں جبکہ بقیہ 37 فیصد دیگر عرب ، ایشیاء و یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین ہیں جن میں 12 فیصد عمان، 3 فیصد سعودی عرب، 2 فیصد یمن، 8 فیصد ایران، 5 فیصد ہندوستان، 4 فیصد پاکستان جبکہ بقیہ کا تعلق دیگر یورپی و افریقی ممالک سے ہے۔
بحرین اور شیعہ:
بحرین کا اصل مذہب شیعہ امامیہ ہے، یاقوت الحموی اپنی مایہ ناز کتاب معجم البلدان میں رقم طراز ہیں:
” تمام بحرین والے روافض ہیں، بعض کو چھوڑ کر ان میں اس مذہب کی کوئی مخالفت نہیں کرتا”۔ (معجم البلدان:150/5)
نیز ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ اپنی کتاب “الدرر الکاملہ” میں لکھتے ہیں:
” اہل بحرین کا شمار کبار روافض میں ہوتا ہے”۔ ( نقلا عن حمد الجاسر: المعجم الجغرافی:1/218)
اسی طرح امام نبھانی المالکی فرماتے ہیں:
“یہ بات ذکر کی جاتی ہے کہ بیشتر بحرین والے شیعہ ہیں”۔ (تحفہ نبھانیہ، ص:73)
مگر شیخ ڈاکٹر عبدالحمید بن مبارک آل الشیخ مبارک اپنی کتاب ‘نبذة مختصرة عن المذهب المالكي في الإحساء’ میں اس قول کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں:
بے شک اہل بحرین تو ان کی اکثریت مذہب سنی مالکی کی پیروکار ہے لیکن شیعوں کی بحرین کی طرف کئی تاریخی ہجرتیں واقع ہوئی ہیں بنابریں فی الوقت بحرین میں موجود بیشتر شیعہ آبادی کئی دفعات میں پہنچی ہے:
۱۔پہلی بار سن 1670 ء میں کہ جب قبیلہ خالد نے قطیف کو فتح کیا تھا جس کی بنا پر یہاں کے بیشتر شیعہ اثنا عشریہ نے بحرین کی طرف ہجرت کی۔
۲۔دوسری بار سن 1835 ء میں کہ جب احساء کے شیعوں نے فیصل بن ترکی بن عبداللہ آل سعود کے دور میں بحرین کی طرف ہجرت کی۔
۳۔تیسری بار سن 1869 ء میں عیسی بن علی آل خلیفہ حاکم بحرین کے عہد میں کہ جب شیعوں نے بحرین کی طرف بحیثیت کاشتکار و عمال ہجرت کی۔
۴۔چوتھی بار سن 1946 ء میں بعض شیعہ بحرین آئے۔
سعودی عرب اور بحرین دوستی:
سعودی عرب اور بحرین میں بہت اچھی اور گہری دوستی ہے، چنانچہ دونوں ملکوں کے مابین دوستی کی ایک بہت ہی ناقابل فراموش تاریخ رہی ہے، خواہ موسس المملکہ عبدالعزیز کی پہلی بحرین زیارت ہو یا 2018 ء میں خادم حرمین شریفین کا بحرین وزٹ، پھر سن 1971 ء میں بحرین کو آزادی ملنے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان عسکری ٹریننگ ہو یا تجارتی، سیاسی ہو یا ثقافتی، معاشی ہو یا معاشرتی، سعودی عرب نے اپنے بھائی کی ہر طرح، ہر وقت، ہر محاذ پر دامے درمے قدمے سخنے مدد اور تعاون فرمائی ہے، ملک فہد پل بھی دونوں ملکوں کے درمیان گہرے رشتے کی عکاسی کرتا ہے کہ جس پل کے ذریعہ ماہانہ 20 لاکھ مسافروں اور سینکڑوں مال بردار ٹرکوں کا آواگمن ہوتا ہے، گزشتہ 8 سالوں میں دونوں ملکوں کے درمیان 59% تجارتی تعلقات بڑھے ہیں، دونوں ملکوں کے مابین 3 سے 7 ارب امریکی ڈالر کا سالانہ تجارتی لین دین ہوتا ہے، نیز اسی طرح گزشتہ سال 9 بحرینی پروجیکٹس پر سعودی فنڈ کا 489 ملیئن ڈالر کا انویسٹ و ایگریمنٹ اور آئندہ سال دونوں ملکوں کو جوڑنے والی کنگ حمد پل کی تعمیر کا منصوبہ بھی دونوں ملکوں کے مابین مضبوط تعلقات کا بین ثبوت ہیں۔
بحرین اور صفوی دراندازی:
ایران گزشتہ کئی دہائیوں سے بحرین کے امن واستقرار کو ہدف اصلی بنائے ہوئے ہے، بحرین کی پوری تاریخ ایرانی دراندازیوں سے بھری پڑی ہے، چنانچہ پہلی ایرانی دراندازی سن 1968ء میں انگریزی فوج کے بحرین سے ہٹنے کے وقت کی گئی کہ جب ایران نے بحرین کی زمینوں پر اپنا حق جتلاتے ہوئے اس ملک پر قبضہ کرنے کی ناپاک کوشش کی، دوسری دراندازی سن 1981ء میں ہوئی کہ جب ایرانی شہ اور دخل اندازی پر بعض شرپسند عناصر کے ذریعے بحرینی حکومت کا تختہ پلٹنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ اسی طرح سن 1996ء میں ایرانی خفیہ تنظیم حزب اللہ کے ذریعے دوبارہ تختہ پلٹنے کی ناکام کوشش کی گئی، پھر سن 2011 ء میں ایرانی دہشت گردوں کے خفیہ حملے میں 19 بحرینی پولیس اہلکار قتل کردیے گئے، ان تمام ناکامیوں کے باوجود ایرانی دراندازیاں جاری رہیں۔ چنانچہ اسی کی ایک کڑی سن 2013 ء میں بحرین میں ایرانی تعاون سے اسلحہ و بارود بنائے جانے کی ایک فیکٹری کا پردہ فاش ہونا اور پھر سن 2016 ء میں بحرینی حزب اللہ کمانڈر کے خلاف مختلف جرائم و دہشت گردانہ اعمال میں ملوث ہونے پر پابندی قابل ذکر ہیں۔
سعودی عرب نے متذکرہ بالا مختلف مواقع پر، مختلف مقامات میں عمومی طور پر، “دراز” گاؤں میں خصوصی طور پر ایرانی حملوں اور دراندازیوں کو ناکام بنایا ہے اور اپنے پڑوسی ملک کی ہر ممکن تعاون کی ہے۔
متذکرہ بالا حقائق کی روشنی میں اسرائیل اور بحرین تعلقات استوار ہونا حیرت انگیز ہے، لولو و جواہر کی سب سے بڑی مارکیٹ مانی جانے والی اس چھوٹی سے ملک کو آخر ایسی کون سی مجبوری آن پڑی کہ اسے اسرائیل سے اعلانیہ مفاہمت قائم کرنی پڑی؟ عسکری اعتبار سے کمزور مانے جانے والے اور جنگی مسائل میں دوسروں کی مدد پر منحصر رہنے والے ملک نے کیوں اسرائیل کو اپنا حلیف بنالیا؟ کیا اچانک ایرانی دخل اندازی اور دراندازی اتنی زیادہ بڑھ گئی تھی کہ یہ سخت قدم اٹھانا پڑا؟
کیا ایرانی دراندازی روکنے اور ملکی سالمیت کو مضبوط بنانے کے لیے بحرین نے یہ غیر مترقبہ قدم اٹھایا ہے؟ آخر اسرائیل کب تک اور کن شروط پر بحرینی سرحدوں کی حفاظت کرے گا؟ کیا نصف شیعہ آبادی ملک کی اس پیش قدمی سے مطمئن ہوجائے گی؟ غاصب و ظالم اسرائیل سے دوستی کے کہاں دور رس اثرات مرتب ہوں گے؟ اس دوڑ میں اگلا نمبر کس کا ہے؟ بہرحال سوال تو بنتا ہے! بہت سارے سوالات واشکالات ہیں کہ جن سے پردہ اٹھنا باقی ہے!
خیر اس تجارتی دنیا میں کچھ بھی ہو، ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ رب العالمین اسلامی ممالک کے ذمہ داران کو نیک و خیر خواہ لوگوں کی صحبت و رفاقت نصیب فرما، بروں کی صحبت سے دوری اختیار کرنے کی توفیق عطا فرما تاکہ وہ امت مسلمہ کے لیے بالعموم اور اپنے ملک کے لیے بالخصوص بہتر فیصلے لے سکیں۔آمین!تقبل یا رب العالمین!

3
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
Wasim Akram

مختصر مگر جامع تحریر
جزاکم اللہ خیرا!

Mohammad furquan

اسرائیل کے ساتھ دبئ و بحرین کی دوستی کے پیچھے کوئی ہے جس کی رضامندی سے ایسا ہو رہا ہے اور میرے خیال سے ہونا بھی چاہیے، آج سعودی عربیہ جو اس میں بیچھے ہٹے ہوئے ہیں اس میں بھی راج ہے، اور وقتی طور پر پیچھے رہنا بھی چاہیے، سعودی عربیہ جہاں سیاسی چال چل رہے ہیں وہی دین سلف کی بقاء کے لئے بھی ایسا کر رہے ہیں، کیونکہ آگر سعودی عربیہ پر کسی غیر کا قبضہ ہو گیا تو شاید ہی دنیا میں عقائد سلف باقی رہےگا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ بالکل ختم ہو جائے… Read more »

Abdussaboor

سب لوگ اپنی اپنی کرسی کے لئے پریشان ہیں، مسلمان کے لئے آج کے دور میں کوئی بھی نہیں ہے۔