حیات مستعار کے کچھ تشنہ پہلو
تصنیف و تالیف فکر ونظر کی آئینہ دار ہوتی ہے، اس سے مصنف کا زاویۂ نگاہ معلوم ہوجاتا ہے۔ تحریر و تقریر نقطۂ نظر کا پرتو ہے، یہ ایک فطری ضابطہ ہےجس سے دانستن بھی سر مو تجاوز نہیں کیا جا سکتا۔امام ترمذی رحمہ اللہ نے “جامع ترمذی” میں احادیث کی تبویب میں جو انداز اختیار کیا ہے وہ در حقیقت محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عبارت ہے۔أبواب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم،أبواب الصلاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وغیرہ۔
یہ انداز بیان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ کشکولِ گدائی اگر لبریز ہے تو فقط سنت رسول سے اس بخشش کے آگے دنیا جہاں کا گنجینہ ہیچ ہے۔متحدہ ہندوستان میں بھی اس اسلوب کی نظیر ملتی ہے،تقسیم سے قبل شہرت یافتہ اسلامی ریاست جونا گڑھ کے معروف خانوادہ “میمن” میں ایک بچے نے جنم لیا۔ امتدادِ زمانہ کے ساتھ خطیب الہند کا لقب ملا، محمدنام سے موسوم کیے گئے،والد کا نام ابراہیم تھا۔
پسر و پدر پر نام کا نیک اثر پڑا ،توحید و اتباع سنت کے علمبردار نکلے۔حصول علم کے بعد خطیب الہند مولانا محمد صاحب جوناگڑھی رحمہ اللہ نے میدان عمل سنبھالا ،درس وتدریس کے ساتھ تحریر و تقریر کا بھی محاذ سر کیا، جویان حق کے لیے نشان راہ بنے۔آپ کی بے شمار کتابیں ہیں جو مختلف موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں اس کے باوصف ان میں یکسانیت کا ایک پہلو بدرجہ اتم موجودہے،ان کتابوں کی محمدی نسبت۔ اخبار محمدی، ارشاد محمدی، خطبات محمدی،معراج محمدی وغیرہ ۔
یہاں بھی وہی محبت و عقیدت کارفرما نظر آتی ہےجو امام ترمذی رحمہ اللہ کا طرۂ امتیاز ہےنیز اس حقیقت کا اعتراف بھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری نسبت ہی کامیابی کی کلید ہے۔یہ غیر معمولی نسبت ہے،انتساب سے اعتقاد کا پتہ چلتا ہے اور اعتقاد کا انحراف انتساب سے جھلکتا ہے۔
خاطر نشین رہے کہ علماء کے سلسلے میں سوانحی مواد کا کافی فقدان ہے۔مولانا محمد جوناگڑھی رحمہ اللہ جیسی جلیل القدر شخصیت کی خدمات جلیلہ کا شایان شان تذکرہ اب تک مفقود ہے، آپ کی حیات و خدمات پر مبنی لٹریچر تین اشخاص کے حوالے سے معروف ہے جو از حد مختصر ہے:
۱۔مولانا محمد داؤد راز دہلوی
۲۔محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
۳۔ڈاکٹر محمد مجیب الرحمن بنگلہ دیشی
اول الذکر دونوں بزرگوں کی نگارشات فی الحال میری دسترس میں نہیں ہیں اس لیے ان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔بروقت جو کتاب پیش نظر ہے وہ ڈاکٹر محمدمجیب الرحمٰن بنگلہ دیشی کی بنگلہ تحریر کا اردو ترجمہ ہے،خطیب الہند ڈاکٹر صاحب کے خسر ہیں۔(نام کتاب: مولانا محمد جوناگڑھی رحمہ اللہ،حیات وخدمات)
کتاب کا حجم گرچہ کم ہے البتہ ڈاکٹر صاحب کی مخلصانہ کوششوں کا عکس جمیل ہے،مشمولات سے ادراک ہوتا ہے کہ نہایت عرق ریزی وجانفشانی سے کام لیا گیا ہے،حتی الامکان علمی نقوش کے احاطے کی کوشش کی گئی ہے۔مستقبل کے تذکرہ نویسوں کےلیے نقش اول کاحامل یہ خاکہ سنگ میل کی اہمیت رکھتا ہے۔
مصنف کے مطابق مولانا کی حیات وخدمات کا خاطر خواہ تذکرہ نہ ہونا نہایت مایوس کن ہے،اس سلسلے میں مولانا کے پسماندگان کے حوالے سے جابجا ان کا درد چھلک پڑا ہے۔اللہ کے دین کے لیے آپ نے جو قربانیاں دیں علماء کی ایک جماعت بھی اس کے لیے کم تھی۔کلمہ کی سربلندی کے لیے جو بار گراں آپ نے اٹھایا ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے،کم وبیش ڈیڑھ سو کتابوں کا مؤلف اب تک ٹھیک سے متعارف نہ ہو سکا۔زندگی کے تابناک گوشے گمنامی کی نذر ہو گئے،عظیم اشخاص کی زندگی کی ایک ایک پرت کھلنی چاہیے تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہو،قوم وملت کے لیے ان کی حیثیت کسی سرمایہ سے کم نہیں۔
آپ کے تذکرے میں سفر دہلی اور دہلی کی معروف درسگاہ دارالحدیث رحمانیہ کا ذکر ملتا ہے،ارباب مدرسہ کا آپ سے والہانہ لگاؤ آپ کی خدمات کا برملا اعتراف تھا۔دعوت وتبلیغ کے لیے بےشمار اسفار آپ نے کیے،مولانا ثناء اللہ امرتسری اور مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی بھی اکثرآپ کے ہمراہ ہوتے۔
شہر بنارس بھی آپ کی تشریف آوری کا گواہ ہے،چونکہ اس عہد میں دیار کاشی علمائے بر صغیر کی سرگرمیوں کا گہوارہ تھا، جنوبی بنارس کا مدن پورہ علاقہ علم دوستی اور علماء کی قدردانی میں اپنی مثال آپ تھا ، علمی مرکز ہونے کی وجہ سے یہ خطہ اہل علم کی آماجگاہ تھا ،جامعہ رحمانیہ کے نام سےایک معروف دانشگاہ یہاں بھی علم و ہنر کے گوہر لٹا رہی تھی،اس علاقہ کے ایک عالم مولانا محمد الیاس رحمہ اللہ (م1984ء)تھے ، آپ کانگریس پارٹی کے سینئر لیڈر بھی تھے۔
مولانا محمد الیاس رحمہ اللہ کے بارے میں مولانا محمد یونس مدنی رقمطراز ہیں:
’’مولانا محمد جوناگڑھی رحمہ اللہ جو جماعت اہل حدیث کے مشہور عالم گزرے ہیں،جن کی دینی میدان میں بڑی خدمات ہیں ان کو سب سے پہلے بنارس میں لانے والے آپ کے والد ماجد محمد ابوالقاسم رحمہ اللہ (م1952ء)ہی ہیں۔‘‘(تراجم علمائے اہل حدیث بنارس،ص:350)
اس اقتباس سے کم از کم تین باتیں معلوم ہوئیں:
(۱) مولانا محمد جوناگڑھی رحمہ اللہ کا بنارس میں ورود ہوا۔
(۲)آپ دعوت وتبلیغ کے سلسلے میں ایک سے زائد مرتبہ بنارس وارد ہوئے۔
(۳) سب سے پہلا علمی سفر مولانا محمد الیاس رحمہ اللہ کے والد ماجد کی دعوت پر کیا۔
اس طرح کے بےشمار اسفار آپ کی دعوت وتبلیغ کا جزو لاینفک تھے جن کی تفتیش وقت کی ضرورت ہے۔علاوہ ازیں آپ کی جدوجہد ومساعی کی طویل فہرست ہے جس کا ہر گوشہ ایک ضخیم دفتر کا متقاضی ہے۔سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے
آپ کے تبصرے