اسلام نے انسانوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت اس وقت دی تھی جب دنیا اس اصطلاح سے واقف بھی نہیں تھی۔ اس لیے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ بنیادی انسانی حقوق اور مساوات انسانی کی آبیاری میں اسلام کا امتیازی کردار رہا ہے۔
قرآن حکیم کی تعلیمات کی روشنی میں:
(۱)تمام انسان باعزت اور مکرم ہیں۔ اللہ نے فرمایا:
وَ لَقَدۡ کَرَّمۡنَا بَنِیۡۤ اٰدَمَ وَ حَمَلۡنٰہُمۡ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ وَ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلۡنٰہُمۡ عَلٰی کَثِیۡرٍ مِّمَّنۡ خَلَقۡنَا تَفۡضِیۡلًا (سورہ اسراء آیت نمبر 70) اور بے شک ہم نے اولاد آدم کو عزت دی اور ان کو خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزیں روزی دیں اور ان کو اپنی بہت مخلوق سے افضل کیا۔ (ترجمہ احمد رضا خان)
(۲)تمام انسانوں کی تخلیق یکساں اہتمام سے خوبصورت قالب میں ہوئی۔ اللہ نے فرمایا:
لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫(سورہ التین آیت نمبر 4) بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی)ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔ (ترجمہ طاہر القادری)
(۳)عہد بندگی میں تمام انسان یکساں طور پر شامل ہیں۔ اللہ کا فرمان ہے:
وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُہُوۡرِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ اَشۡہَدَہُمۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ ۚ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚ ۛ شَہِدۡنَا ۚ ۛ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنۡ ہٰذَا غٰفِلِیۡنَ (سورہ اعراف 172)اور ( اے رسول ! لوگوں کو وہ وقت یاد دلاؤ ) جب تمھارے پروردگار نے آدم کے بیٹوں کی پشت سے ان کی ساری اولاد کو نکالا تھا اور ان کو خود اپنے اوپر گواہ بنایا تھا ( اور پوچھا تھا کہ)کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا تھا کہ:کیوں نہیں؟ ہم سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں ۔ ( اور یہ اقرار ہم نے اس لیے لیا تھا ) تاکہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ:ہم تو اس بات سے بے خبر تھے ۔(ترجمہ تقی عثمانی)
(۴)علمی و فکری اور مادی قوتیں تمام نوع انسانی کو انسان ہونے کے سبب یکساں طور پر حاصل ہیں۔ قرآن میں ہے:
اَلَمۡ تَرَوۡا اَنَّ اللّٰہَ سَخَّرَ لَکُمۡ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ وَ اَسۡبَغَ عَلَیۡکُمۡ نِعَمَہٗ ظَاہِرَۃً وَّ بَاطِنَۃً ؕ وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ وَّ لَا ہُدًی وَّ لَا کِتٰبٍ مُّنِیۡرٍ (سورہ لقمان آیت 20)کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمھارے لیے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں؟ اس پر حال یہ ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی علم ہو ،یا ہدایت ،یا کوئی روشنی دکھانے والی کتاب۔ (ترجمہ مودودی)
(۵)سب کو یکساں طور پر خلافت کی ذمہ داری دی گئی ہے اور نوع انسانیت کے بابا آدم کو مسجود ملائک بنایا۔ جیسا کہ سورہ البقرۃ آیت نمبر 30 اور 34 میں ہے۔
(۶)سب کا مادہ تخلیق اور اصلی والدین یعنی آدم و حوا ایک ہیں۔ اسی طرح برتری کا معیار بھی ایک ہی بنایا۔ ایسا نہیں کہ کسی کو سر سے پیدا کیا کسی کو پیر سے اور کسی کو بازو سے اور کسی کو پیٹ سے۔ جیسا کہ ہندو دھرم کا ماننا ہے۔ اللہ نے فرمایا:
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ (سورہ الحجرات 13)لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔ (ترجمہ مودودی)
(۷)کسی ایک انسان کو قتل کرنا ساری انسانیت کے قتل کے برابر ہے۔ قرآن پاک میں ہے :
اَنَّہٗ مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَیۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ وَ مَنۡ اَحۡیَاہَا فَکَاَنَّمَاۤ اَحۡیَا النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ(سورہ مائدہ 32) جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا اور جو شخص کسی ایک کی جان بچالے اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا۔ (ترجمہ جوناگڑھی)
اسلام میں محض کسی خاص ملک یا خاندان میں پیدا ہونے سے کوئی شخص بڑا چھوٹا نہیں ہوجاتا۔ اگر ان میں فطری طور پر طبقات وجود میں آتے ہیں تو اس کا سبب خاندانی استحکام، وراثت، صلہ رحمی، حلال و حرام رشتوں کی پہچان، خاندان و نسب کی حفاظت اور انبیاء و صلحاء سے ربط کی حکمت ہے۔ قرآن نے نابرابری اور عدم مساوات کے تمام دائمی عوامل مثلا علاقائیت، خاندان، نسب اور رنگ و نسل، اسی طرح تمام عارضی عوامل مثلا علم و فن ، طاقت و قوت، حسن و جمال اور تہذیب و تمدن وغیرہ کو جن سے سماج میں مرتبے اور حیثیت کے فرق کا اظہار ہوتا ہے انسانوں کے لیے وجہ آزمائش قرار دیا۔ اور یہ واضح کردیا کہ فرق مراتب سے ذرا بھی دھوکہ نہ کھانا یہ چیزیں ہرگز فخر و مباہات کا ذریعہ نہیں ہیں۔
احادیث کی روشنی میں بھی یہی ثابت ہے کہ:
(۱)تمام انسان آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنائے گئے تھے۔
(۲)اللہ تمھاری صورتوں اور مال کو نہیں دیکھتا بلکہ تمھارے اعمال کو دیکھتا ہے۔
(۳)کسی عربی کو کسی عجمی پر یا کسی گورے کو کسی کالے پر ہرگز فضیلت نہیں سوائے تقوی کی وجہ سے۔
(۴)آدمی کی شرافت اس کی دین داری ہے۔ اس کی جواں مردی اس کا دانش مند ہونا ہے اور اس کا اصل حسب و نسب اس کا حسن اخلاق ہے۔
(۵)جینے اور جینے دینے کے حق کو اسلام ہر شخص کے لیے ضروری قرار دیتا ہے۔ وہ کسی بھی بنیاد پر کسی کے باعزت جیتے رہنے کے حق کو سلب کرنے کا قائل نہیں ہے۔ اسلامی حقوق کی ضمانت کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات کی روح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری خطبے میں کھنچ آئی ہے۔ یہ خطبہ بلاشبہ UN Charter سے زیادہ جامع ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام نے انسانیت کو معراج عطا فرمائی۔ عزت و توقیر بخشی۔ اور سب سے اہم چیز یہ کہ اسلام نے انسان کی جان، مال، دین، عزت، عقل اور نسل کو مکمل تحفظ عطا کیا۔
دھیان رکھنے والی بات یہ ہے کہ اسلامی حقوق اور قوانین ناقابل تنسیخ ہیں۔ ان میں کسی قسم کی ترمیم، تبدیلی یا تعطیل کی گنجائش نہیں۔ جب کہ دنیاوی قوانین میں ترمیم و تنسیخ اور تعطیل ہوتی رہتی ہے اور وہ اس کے محتاج بھی ہوتے ہیں۔
آخر میں میں اسلام کا ایک اہم قانون ذکر کر کے میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ اللہ نے فرمایا:
اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ یَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ وَ الۡبَغۡیِ ۚ یَعِظُکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ (سورہ النحل 90)بے شک اللہ تعالٰی عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی کے کاموں ،ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے ،وہ خود تمھیں نصیحتیں کر رہا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کا فہم عطا فرمائے اور اس کی تفہیم کی توفیق دے۔ آمین
آپ کے تبصرے