کبھی ہم جو سوئے سفر دیکھتے ہیں
تو کم زور اپنی نظر دیکھتے ہیں
درختوں کی شاخوں میں الجھے رہو تم
جو اہل نظر ہیں ثمر دیکھتے ہیں
سڑک عشق کی پار کرتے نہیں وہ
ادھر دیکھتے ہیں ادھر دیکھتے ہیں
یہی سوچتے سوچتے عمر گزری
کدھر دیکھنا تھا کدھر دیکھتے ہیں
گزرتے ہیں سب قافلے سامنے سے
ہمی بیٹھ کر رہ گزر دیکھتے ہیں
کبھی دیکھتے ہیں کھلا آسماں ہم
کبھی ناتواں بال و پر دیکھتے ہیں
جہاں کے نظاروں پہ پابندیاں ہیں
تو ہم آج کل اپنا گھر دیکھتے ہیں
جو شاد! آئنہ دیکھتے ہیں کبھی ہم
پریشان اپنی نظر دیکھتے ہیں
ماشاءاللہ کافی عمدہ کلام ہے