خود کی خبر نہیں

شعیب سراج شعروسخن

آگاہ تیرے حسن سے میں ہوں اگر نہیں

تو بھی تو میرے عشق سے کچھ باخبر نہیں


اشکوں میں اپنے غم جو چھپاتا ہے ہر گھڑی

کیسے بھلا میں کہہ دوں کہ وہ باہنر نہیں


اک عمر ہو رہی ہے نکلتے ہوئے انھیں

جانے ہماری آہ میں کیوں کر اثر نہیں


گزری ہیں ہجر میں مری شامیں یہ سوچتے

ایسی بھی کوئی شام ہے جس کی سحر نہیں


کیسے کروں خیال تری دوستی کا جاں

ایسی جگہ ہوں میں جہاں خود کی خبر نہیں


کیسے سراج تیری غزل معتبر ہوئی

حالات حاضرہ پہ تو اک بھی سطر نہیں

آپ کے تبصرے

3000