عشق کے خار زار کا زخم سہا نہ جائے کیوں
آبلہ پا جو ہو گئے، کیجیے ہائے ہائے کیوں
بربطِ کائنات پر عشق کا ساز چھیڑیے
سوزِ جگر بڑھائیے، اپنے نہ ہوں پرائے کیوں
وعدہِ وصل پہ اگر دل کو یقیں ہے بے جھجھک
راہِ وفا میں رکیے کیا، پاؤں بھی ڈگمگائے کیوں
اس کی جفا بڑی گراں، اس کا ستم ہے سوز جاں
عشق کا ذکر جب بھی ہو آنکھ اُمنڈ نہ آئے کیوں
دے دیا دل بے ساختہ، زہرہ جبیں کو دیکھ کر
عشق میں کیسا مشورہ، لیجیے کوئی رائے کیوں
کوئی تو جا کے کہہ دے اب قائدِ خیر خواہ سے
دوسرے مسئلے بھی ہیں، ایک فقط یہ گائے کیوں
کاشفِ بے قرار پر، کون فریفتہ ہوا
مل نہ سکی سرائے دل، خِشت کی ہو سرائے کیوں
بہت خوب بہت عمدہ، ما شاء الله تبارك الله