استاذ من کی موت سے یوں زلزلے برپا ہوئے
ٹوٹا ہمالہ غم کا اور سب لوگ افسردہ ہوئے
تیئس جولائی آہ! کیا رنج و الم کا دن ہوا
سن بیس کے اس سال میں وہ راہی عقبیٰ ہوئے
دل درد سے معمور ہے، کیسے بتاؤں آپ کو
مرگ جناب شیخ سے حالات دل کیا کیا ہوئے
پاکوڑ صوبہ جھارکھنڈ کے گاؤں لیٹی پاڑہ میں
انیس سو باون کا سن تھا شیخ جب پیدا ہوئے
جب الوداع ماں نے کہا تب آٹھ سالہ طفل تھے
بارہ برس کے جب ہوئے تو باپ بھی مردہ ہوئے
بے بال و پر کیسے رہے اللہ ہی کو علم ہے
لیکن یتیمی میں بھی حضرت علم کے شیدا ہوئے
وہ گاؤں سے دہلی گئے مرکز نظام الدین میں
تعلیم حاصل کی وہاں اور علم سے بہرہ ہوئے
پھر رخ بنارس کا کیا اور از سر نو پھر وہاں
عالم ہوئے فاضل ہوئے اور علم کے دریا ہوئے
انیس سو اکیاسی میں وہ جڑ گئے تدریس سے
چالیس برس کل ہوگئے تھے اس سے وابستہ ہوئے
شرعی تھا رقیہ آپ کا اور اس کے ذریعہ دین کی
تبلیغ بھی کرتے رہے اور درد کا چارہ ہوئے
عالم تھے وہ فاضل تھے وہ، نحوی تھے وہ صرفی تھے وہ
علم شریعت کے محافظ، فن کے وہ رسیا ہوئے
وہ زندگی کا بیشتر حصہ بنارس میں رہے
تدریس کی اور جامعہ کے مفتی اعلیٰ ہوئے
تحقیق اور تعلیق سے کامل کیا ’’فتح المغیث‘‘
کل پانچ جلدوں میں جناب شیخ فن آرا ہوئے
کیسے بتاؤں میں کہ وہ کتنے عظیم الشان تھے
جن کے لیے فضل خدا سے فن کے سب در وا ہوئے
تصنیف کی، تالیف کی، تعریب کی، تحقیق کی
جس فن سے وابستہ ہوئے اس فن میں وہ یکتا ہوئے
کاشف کے وہ استاذ تھے سادہ مزاج و خوش خصال
علم و ادب کی شان تھے، دنیا سے بے پروا ہوئے
واہ یار کیا خوب لکھا۔۔۔
رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ