حقیقت چھپائی جاتی ہے

عبدالکریم شاد شعروسخن

تمھاری یاد تو کب سے مٹائی جاتی ہے

یہ کیا بلا ہے جو دل میں سمائی جاتی ہے


مجھ آئنے سے نظر یوں چرائی جاتی ہے

کہ میری بات ہنسی میں اڑائی جاتی ہے


میں پوچھتا ہوں کسی سے معاوضہ جب بھی

مجھے ضمیر کی قیمت بتائی جاتی ہے


نہیں ہے جس میں کوئی ذکر دشت و مجنوں کا

وہ داستانِ محبت سنائی جاتی ہے


وہ آشکار نہیں کرتے اپنے جلووں کو

’’نقاب میری نظر سے اٹھائی جاتی ہے‘‘


حجاب ہی سے تو پہچانتے ہیں عورت کو

بھلا کسی سے حقیقت چھپائی جاتی ہے


سفر ہے پیش بیاباں کے بعد دریا کا

درخت کاٹ کے کشتی بنائی جاتی ہے


لگی ہے روک مسافر کی لڑکھڑاہٹ پر

قدم قدم پہ مگر مے پلائی جاتی ہے


نہیں ہے کچھ بھی تمھارا ستم کیے جانا

مگر ہماری خودی آزمائی جاتی ہے


کسی امیر کی ایجاد کردہ آتش میں

کسی غریب کی دنیا جلائی جاتی ہے


تو سامنے ہے مگر دیکھ تو دیوانہ پن

تصورات کی محفل سجائی جاتی ہے


کبھی کلام ہو مردوں کے ضبط پر بھی شاد!

بپا ہے شور کہ عورت ستائی جاتی ہے

آپ کے تبصرے

3000