یورپ سے علامہ اقبال کا واسطہ تعلیم وکانفرنس کی حد تک رہا ہے۔ ۱۹۰۵ میں پہلی بار آپ لندن گئے، پروفیسر آرنلڈ کی تحریک پر یونیورسٹی آف میونخ میں ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا۔ ۱۹۰۸ میں بیرسٹر کی ڈگری حاصل کی اور ہندوستان واپس لوٹ آئے۔ اس کے علاوہ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس ۱۹۳۰ اور پھر ۱۹۳۳ میں یورپ کے مختلف ممالک روم، اٹلی، پیرس، برلن، اسپین جیسے ممالک کا بھی دورہ کیا۔ ابتدا میں آپ یورپ کو ترقی، علم وحکمت، انسانی دوستی کا سرچشمہ تصور کرتے، آپ کی نگاہ میں ساری علمی، اقتصادی، اجتماعی ترقیات کا محور و منبع یورپ ہی تھا، مگر تعلیمی مقصد کی خاطر وہاں قیام کے دوران علم و ادب کے آرٹیفیشل کرداروں کو دیکھ کر حواس باختہ ہوئے، سیالکوٹ کی گلیوں میں جس آرنلڈ، ولیم کوپر، لانگ فیلو کا نام سنتے تھے یورپ پہنچ کر اندازہ ہوا کہ علم وحکمت کی یہ فراوانیاں مادیت پسندی کا گل وگوہر ہیں، ڈارون کے نظریہ الحاد کا پرتو ان کے دماغوں پر سوار ہے، قومی، نسلی، مذہبی تعصب، بے جا تکلف وتصنع، عقل وخرد کی مکمل غلامی اس قوم کا سامان زیست ہے، آزادی افکار، حرام سرمایہ داری، مسیحیت کے نام پر دہریت کے بازار نے انھیں آمریت کا شکار بنایا ہے۔اس دید و شنید کے بعد شاعر مشرق علامہ اقبال جب وطن لوٹے تو مغربی تہذیب کے سب سے بڑے نقاد ٹھہرے۔
پھر یہ غوغا ہے کہ لا ساقی شراب خانہ ساز
دل کے ہنگامے مئے مغرب نے کر ڈالے خموش
علامہ اقبال کی شاعری کم وبیش بارہ ہزار اشعار پر مشتمل ہے، ادبی احصائیات کے مطابق فارسی کلام ۸۰۸۰ اشعار جبکہ کلیات اردو ۴۴۲۶ اشعار پر مشتمل ہے، ان اشعار کا ایک ربع حصہ یورپی تہذیب کے معائب و مثالب کا منظر نامہ پیش کرتا ہے، آپ نے جہاں فرنگیت کے تحقیقی ذہن کو سراہا ہے وہیں ان کے ہر گوشہ زندگی، نظام حکومت، تعلیم وتربیت، کلیسا وعبادت کی نقد وجرح کے میزان میں نقاب کشائی کی ہے، علامہ اقبال کی دور رس نگاہ یہ اندازہ لگا چکی تھی کہ یورپ کی بظاہر ترقی مستقبل میں فسادات اخلاق،تمدن کے قتل اور روحانی اقدار کی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ علوم وفنون، ایجادات وصنعتی ترقیاں خود اہل یورپ اور ساری دنیا کےلیے وبال جان بن جائیں گے۔
یہ عیش فراواں، یہ حکومت، یہ تجارت
دل سینۂ بے نور میں محروم تسلی
تاریک ہے افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے
یہ وادئ ایمن نہیں شایان تجلی
علامہ اقبال یورپ کے نشیب وفراز پر گہری نگاہ رکھتے تھے۔ اس کی ترقی کو شاخ نازک کا آشیانہ تصور کرتے، کیوں کہ اس تہذیب نو میں مشنری تو ترقی یافتہ ہورہی تھی تاہم انسان کی اجتماعی زندگی خود غرضی، مادہ پرستی، دھوکہ دہی میں ریکارڈ توڑ تنزلی کی طرف گامزن تھی۔
دیار مغرب کے رہنے والو، خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زر کم عیار ہوگا
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا
یورپی تہذیب وتمدن بظاہر انسانیت کا خیر خواہ ہے۔ مگر گزشتہ دو صدیوں سے ہونے والے استعماری پیچ وخم اس کی کھل کر تردید کرتے ہیں، یہ یورپی قومیں جب بھی بحیثیت مستعمر دوسرے ملکوں پر حاوی ہوئیں تو مادیت اور زر پرستی کے شجر خبیثہ کو اپنا حرزجاں بنایا، تہذیب اور مذہبی اقدار کا جنازہ نکالا، اہل ملک پر ظلم کے پہاڑ توڑے، یورپی تاریخ کے سیاہ ترین اوراق ان مظالم کے گواہ ہیں۔ اقبال نے مغرب کے اس استعماری ذہن کو بھی خوب آڑے ہاتھوں لیا ہے، بلکہ افرنگی سیاست کی بنیاد کو اسلام دشمنی کی اساس قرار دیتے ہوئے کہا:
تری حریف ہے یا رب سیاست افرنگ
مگر ہیں اس کے پجاری فقط امیر ورئیس
اور یورپی سیاست کی ابلیست پر کہا:
بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تو نے
بنائے خاک سے اس نے دو صد ہزار ابلیس
ایک جگہ یہ بھی کہا:
فساد قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیر پاک وخیال بلند وذوق لطیف
یورپی استعمار و نظام حکم کو آپ انسانیت کی توہین سمجھتے تھے:
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
مجلس آئین و اصلاح ورعایات وحقوق
طب مغرب میں مزے میٹھے اثر خواب آوری
نیز:
یورپ میں بہت روشنئ علم وہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
رعنائی تعمیر میں، رونق میں،صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات
یہ علم،یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات
بے کاری وعریانی ومے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کی فتوحات
وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم
حد اس کے کمالات کی ہے برق وبخارات
یورپ سے حد درجہ نفرت کا اندازہ اس انٹرویو سے بھی ہوتا ہے جو علامہ نے ۱۹۳۸ میں آل انڈیا ریڈیو کو دیا تھا ، جس میں آپ نے یورپ میں ایٹمی طاقت کی ایجاد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
’’سائنس نے تباہی کے جو انجن ایجاد کیے وہ انسان کے ثقافتی کارناموں کو پیوند خاک کرنے میں مصروف ہیں، جو حکومتیں خون وآتش کے اس کھیل میں شریک نہیں ہیں وہ اقتصادی اعتبار سے کمزور انسانوں کا خون چوس رہی ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر ایک حشر بپا ہے، جہاں انسانی ہمدردی اور رفاقت کی کوئی آواز سننے میں نہیں آتی۔‘‘ (بحوالہ :ماہ نامہ سیارہ ،ص: ۲۱۲)
مغربی نظام تعلیم بھی علامہ کی گرفت سے نہ بچ سکا، آپ کی نظر میں مغربی تعلیم محض مادیت اور سیکولر پرستی کا شاخسانہ ہے، جو نہ صرف الحاد وبے دینی کے جراثیم کو جنم دیتا ہے بلکہ تربیت و اخلاق کی ردائے کہنہ کو پارہ پارہ کرتا ہے۔
کوئی پوچھے حکیم یورپ سے
ہند ویوناں ہیں جس کے حلقہ بگوش
کیا یہی ہے معاشرت کا کمال
مرد بے کارو زن تہی آغوش
نیز:
اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین ومروت کے خلاف
نوجوانوں کی مردہ دلی کا یورپ کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہتے ہیں:
گرچہ مکتب کا جواں زندہ نظر آتا ہے
مردہ ہے مانگ کے لایا ہے فرنگی سے نفس
یورپی سرمایہ دارانہ نظام کو آپ سود کی علمبرداری کا طعنہ دیتے تھے، بلکہ علامہ کی شاعری کے یورپ پر تنقید کا لب لباب ہی اس کے سرمایہ دارانہ مادیت کا محاکمہ ہے۔ بقول اقبال مغرب کے تصور علم و ترقی، تربیت واخلاق، انسانیت، دین، خیر و شر کی بنیادیں مادیت، سرمایہ اور استعمار کے گرد گردش کرتی ہیں۔
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
وہ حکمت ناز تھا جس پر خردمندان مغرب کو
ہوس کے پنجۂ خونیں میں تیغ کارزاری ہے
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے
علامہ اقبال کی مغرب دشمنی کے مظاہر ایک دو مقالہ میں سمٹنے والا موضوع نہیں، بلکہ اس سے کہیں زیادہ آپ کے زاویہ ہائے نگاہ کے اسباب ومحرکات کو منظر عام پر لانے کے لیے مستقل اکیڈمک تحقیقات کی ضرورت ہے۔ جس میں آپ کی مغرب دشمنی کی بنیادی وجوہات، یورپ کی ادھوری انسانیت اور چیچک زدہ تہذیب کو، اہل مشرق (دیگر الفاظ میں: اہل اسلام) سے ان کی نفرت وکدورت کے معیار کو طشت از بام کرنا ناگزیر ہے۔
اقبال نے جس تہذیب نو کی بات کی وہ بس نام کی ہے ۔اہل مغرب اور صلیبیوں کے ہر چیز پر ابلیسیت چھائی ہے
Batreen Thareer