محبت نہیں رہی

سراج عالم زخمی شعروسخن

اب دھڑکنوں میں درد کی شدت نہیں رہی

لگتا ہے اب ہمیں بھی محبت نہیں رہی


کب تک منائیں پیار کریں التجا کریں

اب ٹوٹنے بکھرنے کی عادت نہیں رہی


کچھ ہم بھی بیقرار مسلسل نہیں رہے

کچھ اس کی وہ ادا بھی قیامت نہیں رہی


ہم نے ترے فراق میں صدیاں گذار دیں

اور تم کو یاد آنے کی فرصت نہیں رہی


بچے بڑے ہوئے تو سروں سے گذر گئے

لگتا ہے ماں کے پاؤں میں جنت نہیں رہی

آپ کے تبصرے

3000