آنکھ بھر آئی

ہدایت اللہ خان شمسی شعروسخن

تڑپ کے حال سنایا تو آنکھ بھر آئی

جو اس نے زخم دکھایا تو آنکھ بھر آئی


تھی جس چراغ سے قائم مری امید سحر

ہوا نے اس کو بجھایا تو آنکھ بھر آئی


زمانے بھر کا ستم سہہ کے مسکراتا رہا

فریب اپنوں سے کھایا تو آنکھ بھر آئی


ہمارے شہر کی گلیوں میں قہر ڈھاتے ہوئے

لہو کا سیل در آیا تو آنکھ بھر آئی


صبا نے آہ! خزاؤں کے ساتھ مل کر پھر

گلوں کا رنگ اڑایا تو آنکھ بھر آئی


جبین حال پہ ماضی کی تلخ یادوں نے

سنہری نقش بنایا تو آنکھ بھر آئی


تمام عمر تو اپنوں کی ٹھوکروں میں رہے

کسی نے سر پہ بٹھایا تو آنکھ بھر آئی


بچھڑتے وقت کسی نے جو پیار سے شمسی

مچل کے ہاتھ ہلایا تو آنکھ بھر آئی

آپ کے تبصرے

3000