اس سے کہو کہ یوں نہ سر عام چل پڑے
آخر کو دل ہے جانے کہاں کب مچل پڑے
اتنا نہ دور جاؤ کہ جینا محال ہو
یوں بھی نہ پاس آؤ کہ دم ہی نکل پڑے
کچھ فاصلہ رکھو کہ ذرا حوصلہ رہے
قربت میں یوں نہ ہو کہ جگر ہی پگھل پڑے
ایسی بلندیاں بھی نہ دیکھو کہ ٹوٹ جاؤ
اتنا نہ سر اٹھاؤ کہ گردن پہ بَل پڑے
ایسی صدا لگاؤ کہ روشن ہو انقلاب
ایسی پکار ہو کہ زمانہ اچھل پڑے
اچھا ہوا کہ اپنے ہی کچھ کام آ گئے
دھوکا دیا جو یار نے ہم بھی سنبھل پڑے
دنیا کسی سرائے کے آنگن سے کم نہیں
آئے تھے چند روز کو ٹھہرے کہ چل پڑے
حدت لبوں کی تھی کہ شرارے تھے ہونٹ پر
میرے تو ہاتھ آپ کے شبنم سے جل پڑے
لازم ہے ضبط درد کی شدت میں بھی سراجؔ
ایسی بھی آہ کیا کہ کلیجہ ابل پڑے
آپ کے تبصرے