سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے متعلق ایک روایت اور اس کی حقیقت

ابوالمحبوب سیدانورشاہ راشدی حدیث و علوم حدیث

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم،وبعد!
مرزاجہلمی وغیرہ سنن ابوداؤد کی روایت پیش کرکے سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف خوب اپنے بغض کااظہارکرتے نظرآتے ہیں اور انھیں مخالف حدیث قراردیتے ہوئے برملا کہتے ہیں کہ ان کا گھر شریعت کی منع کردہ اشیاء سے گھرا نظر آتا ہے، یعنی آپ کے گھر میں سونے اور ریشم کااستعمال،درندوں کی کھال بچھانا اور درندوں پرسواری کرنا جیسے ناجائزامورپائے جاتے تھے۔
حدَّثنا عَمرُو بنُ عُثمانَ، حدَّثنا بقيةُ، عن بَحِيْرٍ، عن خالد، قال:وفد المقدام بن مَعدِي كَرِبَ وعمرو بنُ الأسودِ، ورَجُلٌ من بني أسدِ من أهل قِنَّسرِينَ إلى معاويَة بن أبي سفيانَ، فقال معاويةُ لِلمقدام: أعَلِمْتَ أن الحسنَ بنَ علي تُوفِّي؟ فرجَّعَ المِقدَامُ، فقال له رجل: أترَاها مُصِيبَةً؟ قال له: ولم لا أراها مُصيبةً وقد وضعه رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم – في حَجرِه، فقال: “هذا مِنِّي وحُسينٌ مِنْ علي”؟! فقال الأسَديُّ: جمرةٌ أطفأها اللهُ عزَّ وجلَّ، قال: فقال المقدامُ: أما أنا، فلا أبرحُ اليومَ حتى أُغيِّظَكَ وأُسمِعَكَ ما تَكرَه، ثم قال: يا معاويةُ، إن أنا صدقَتُ فصدِّقني، وإن أنا كذبتُ فكذِّبْني، قال: أفْعَلُ: قال: فأنشُدُكَ بالله، هلْ سمعتَ رسولَ الله – صلَّى الله عليه وسلم – ينهى عن لبسِ الذَّهَبِ؟ قال: نَعَمْ. قال: فأنشُدكَ باللهِ، هل تَعْلَمُ أن رسولَ الله – صلَّى الله عليه وسلم – نهى عن لبسِ الحريرِ؟ قال: نَعَمْ. قال: فأنشُدُكَ بالله، هل تَعْلَمُ أن رسولَ الله – صلَّى الله عليه وسلم – نهى عن لبسِ جلود السَّباع والرُّكوب عليها؟ قال: نَعَمْ. قال: فواللهِ لقد رأيتُ هذا كُلَّه في بيتِك يا معاويةُ، فقال معاويةُ: قد علِمتُ أني لن أنجوَ مِنْكَ يا مقدامُ، قال خالدٌ: فأمر له معاويةُ بما لم يأمُرْ لِصاحبَيه، وفَرَضَ لابنِه في المئتينِ، ففرَّقها المقدامُ على أصحابه قال: ولم يُعطِ الأسديُّ أحداً شيئاً مما أخذَ، فبلغ ذلك معاويةَ، فقال: أما المقدامُ فرجلٌ كريمٌ بَسَطَ يدَه، وأما الأسديُّ فرجلٌ حسنُ الأمساكِ لشيئه

(مقدام بن معدی کرب(رضی اللہ عنہ)، عمرو بن اسود اور بنی اسد کے قنسرین کے رہنے والے ایک شخص معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے پاس آئے، تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے مقدام سے کہا: کیا آپ کو خبر ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا انتقال ہو گیا؟ مقدام نے یہ سن کر ’’انا لله وانا اليہ راجعون‘‘ پڑھا تو ان سے ایک شخص نے کہا: کیا آپ اسے کوئی مصیبت سمجھتے ہیں؟ تو انھوں نے کہا: میں اسے مصیبت کیوں نہ سمجھوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنی گود میں بٹھایا اور فرمایا: یہ میرے مشابہ ہے اور حسین علی کے ۔ یہ سن کر اسدی نے کہا: ایک انگارہ تھا جسے اللہ نے بجھا دیا تو مقدام نے کہا: آج میں آپ کو ناپسندیدہ بات سنائے اور ناراض کیے بغیر نہیں رہ سکتا، پھر انھوں نے کہا: معاویہ! اگر میں سچ کہوں تو میری تصدیق کریں اور اگر میں جھوٹ کہوں تو جھٹلا دیں، معاویہ بولے: میں ایسا ہی کروں گا۔ مقدام نے کہا: میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں: کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونا پہننے سے منع فرمایا ہے؟ معاویہ نے کہا: ہاں۔ پھر کہا: میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں: کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی کپڑا پہننے سے منع فرمایا ہے؟ کہا: ہاں معلوم ہے، پھر کہا: میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں: کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں کی کھال پہننے اور اس پر سوار ہونے سے منع فرمایا ہے؟ کہا: ہاں معلوم ہے۔ تو انھوں نے کہا: معاویہ! قسم اللہ کی میں یہ ساری چیزیں آپ کے گھر میں دیکھ رہا ہوں؟ تو معاویہ نے کہا: مقدام! مجھے معلوم تھا کہ میں تمھاری نکتہ چینیوں سے بچ نہ سکوں گا۔ خالد کہتے ہیں: پھر معاویہ نے مقدام کو اتنا مال دینے کا حکم دیا جتنا ان کے اور دونوں ساتھیوں کو نہیں دیا تھا اور ان کے بیٹے کا حصہ دو سو والوں میں مقرر کیا، مقدام نے وہ سارا مال اپنے ساتھیوں میں بانٹ دیا، اسدی نے اپنے مال میں سے کسی کو کچھ نہ دیا، یہ خبر معاویہ کو پہنچی تو انھوں نے کہا: مقدام سخی آدمی ہیں)
یہ روایت سندااور متنا ہر دو اعتبار سے ضعیف ہے۔
اولا:جان لیناچاہیے کہ ’’سنن ابی داؤد‘‘کی دومشہور روایات ہیں،جن سے سنن ابوداؤد مروی ہے:
۱۔روایت ابی علی اللؤلؤی
۲۔ روایت ابوبکربن داسۃ
اول روایت مشرق میں مشہور ہے،جبکہ دوسری مغرب میں،امام ابوعلی اللؤلؤی نے امام ابوداؤد کے ساتھ طویل عرصہ گذارتے ہوئے ان پر’’السنن‘‘ کی بیس سال قرأت کی ہے،جبکہ ابن داسۃ وہ شخص اور شاگرد ہیں جنھوں نے سب سے آخر میں آپ پر ’’ السنن‘‘ پڑھی ہے۔ابوعلی اللؤلؤی کے شاگرد قاضی ابوعمرقاسم بن جعفر الھاشمی کے مطابق امام ابوداؤد نے آخر میں ابن داسۃ کی روایت میں پائی جانے والی اسنادی اور متنی اضافے(اپنے نزدیک) مشکوک ہونے کی وجہ سےحذف کردیے تھے ۔
سنن ابوداؤد کی یہ تفصیلی روایت بروایت ’’اللؤلؤی‘‘ہے،جبکہ روایت ابن داسہ میں مختصرامروی ہے،جسے امام بیہقی نے اپنی ’’السنن ‘‘میں روایت کیاہے:
أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الرُّوذْبَارِيُّ، أنا أَبُو بَكْرِ بْنُ دَاسَةَ، ثنا أَبُو دَاوُدَ، ثنا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ الْحِمْصِيُّ، ثنا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحْر[کذا]، عَنْ خَالِدٍ، قَالَ: وَفَدَ الْمِقْدَامُ بْنُ مَعْدِ يكَرِبَ إِلَى مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ: وَأَنْشُدُكَ بِاللهِ، هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ لُبْسِ جُلُودِ السِّبَاعِ وَالرُّكُوبِ عَلَيْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ

روایت ابن داسۃ نکارت سے لبریز تفصیلی قصہ سے خالی ہے،اب یاتوخود امام ابوداؤد نے اسے حذف کیاہےیاان سے نیچے والے روات میں سے کسی نے ،اس حوالے سے فی الحال کوئی قابل قدر اور مضبوط قرینہ نہیں مل سکا،واللہ اعلم،لیکن معلوم ہوتاہے کہ نکارت سے لبریزیہ قصہ امام ابوداؤد کے ہاں بھی مشکوک ہے،یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس (زیربحث) روایت سے قبل درج بالا باب سے متصل اول حدیث خودسیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ سےمرفوعاروایت بھی ذکر کی ہے،جس میں درندوں کی کھالوں پرسواری کرنے سے ممانعت مذکورہے،چنانچہ آپ ’’باب في جلود النُّمور والسِّباع ‘‘کے تحت فرماتے ہیں:
(۴۱۲۹)حدَّثنا هنَّادُ بنُ السَّريِّ، عن وكيعٍ، عن أبي المُعتمِرِ، عن ابنِ سيرين عن معاوية، قال: قال رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم -لا تركبُوا الخَزَّ، ولا النِّمارَ” قال: وكان معاويةُ لا يُتَّهم في الحديثِ عن رسولِ الله – صلَّى الله عليه وسلم

اس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے۔یہی روایت سنن نسائی میں بطریق قتادة بن دعامة،عن أبي شيخ الهُنائي،سےان الفاظ کے ساتھ مروی ہے،ابوشیخ الھنائی کہتے ہیں:
أنه سمع معاوية وعنده جمع من أصحاب محمد في الكعبة قال: أتعلمون أن نبي الله -صلَّى الله عليه وسلم- نهى عن ركوبٍ على جلد النمور؟ قالوا: نعم

سنن نسائی کی اس روایت میں ہے کہ سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث صحابہ کرام کی ایک جماعت کے سامنے اور وہ بھی کعبۃ اللہ کے اندربیان کی،امام ابوداؤد نے اس روایت کو باب کے ساتھ متصل ذکرکرکے (غالبا) درج بالا قصہ میں نکارت ہی کی طرف اشارہ کیاہے،کہ جب وہ خود درندوں پرسواری کرنے کی ممانعت نبی اکرم ﷺسے نقل کررہے ہیں(جیساکہ مقدام رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کایہ اقرار موجود ہے)توپھر وہ آخر عمدااس کے برعکس کیسے عمل کرسکتے یااپنے گھر میں اسے کیسے برداشت کرسکتےہیں!خصوصا نسائی والی روایت کے الفاظ تواوربھی اس بات کوپختہ کردیتے ہیں،کیونکہ یہ بات وہ صحابہ کرام کی ایک جماعت کے سامنے بیان کررہے ہیں۔سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کے گھرمیں اگر درج بالاچاروں قابل اعتراض اشیاء کااستعمال ہوتاتواول توخود سیدنامعاویہ ہی اس حدیث کوصحابہ کے مجمع میں بیان نہ کرتے،دوسراان کے بیان کرنے پر خودیہ صحابہ بھی ان پر معترض ہوجاتے کہ جب آپ ان اشیاء کی ممانعت رسول اللہ ﷺسے نقل کررہے ہیں توپھر آپ کاگھران چیزوں سے کیوں پاک نہیں؟لیکن آخر کیاوجہ ہے کہ سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ پر کہیں سے بھی کوئی صحابی اعتراض وارد نہیں کرتا؟بہرحال!یہاں صرف اس قدر دکھانامقصود ہے کہ امام ابوداؤد کے ہاں بھی ان اشیاء أربعہ والا قصہ منکرہی ہے،اسی لیے اس روایت سے قبل خود سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاحدیث نقل کرکے اس میں نکارت پائے جانے کی طرف اشارہ کیا۔واللہ اعلم
ثانیا:زیادۃ الثقۃ
زیربحث روایت کوبقیۃ بن الولید سےتین روات روایت کرتے ہیں:
۱۔عمروبن عثمان بن سعید الحمصی
۲۔حیوۃ بن شریح
۳۔احمد بن عبدالملک بن واقد الحرانی
حیوۃ بن شریح اور احمد بن عبدالملک کی روایت مختصرہونے کے ساتھ ساتھ نکارت سے لبریزقصہ سے یکسر خالی ہے:
حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، قَالَا: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنَا بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ، قَالَ: ” نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحَرِيرِ وَالذَّهَبِ وَعَنْ مَيَاثِرِ النُّمُورِ

احمد بن عبدالملک اور حیوہ دونوں ہی ثقاہت اور مرتبہ میں عمروبن عثمان سے بڑھے ہوئے ہیں۔اول تو امام،ثقہ،حافظ اور متقن ہونے کے ساتھ ساتھ امام احمد،امام بخاری،امام ابوحاتم رازی ،امام ابوزرعۃ رازی وغیرہم جیسے ائمہ کی ایک جماعت کے شیخ اور استاذ ہیں۔اور دوسرے بھی محدث فقیہ اور ثقہ وثبت ہونے کے ساتھ ساتھ شیخ الدیار المصریہ بھی ہیں،امام احمد ودیگر ائمہ نے انھیں ثقہ قراردیاہے،یہ بھی امام احمد، امام عبداللہ بن المبارک اور عبداللہ بن وہب جیسے اجلہ محدثین کے استاذ ہیں۔اس کے برعکس جبکہ عمروبن عثمان ثقہ وصدوق ہونے کے ساتھ بھی اگرچہ امام محمد بن یحیی ذہلی،امام ابوحاتم رازی،امام ابوزرعہ رازی،امام ابوداؤد،امام نسائی،امام بن ماجہ وغیرہم کئی ائمہ کے شیخ ہیں،لیکن مرتبہ میں بہرحال امام احمدبن عبدالملک اور حیوہ سے کم ہیں،امام ابوحاتم نے انھیں صدوق کہاہے،امام نسائی وغیرہ نے ان کی توثیق کی ہے۔حافظ ابن حجر نے تقریب التھذیب میں انھیں ’’صدوق‘‘ قراردینے پراکتفاکی ہے۔ بالفرض انھیں ثقہ بھی ماناجائے تب بھی امام حرانی اور حیوہ بن شریح سے درجہ ثقاہت میں کم ہیں،کیونکہ اول ثقہ،متقن اوردرجہ امامت پرفائزہونے کے ساتھ ساتھ حفاظ حدیث میں شمار ہوتے ہیں،جبکہ دوسرےبھی ثقہ وثبت ہونے کے ساتھ فقیہ ومحدث بھی ہیں،اب ایسے حفاظ اور اثبات جب منکر قصہ کوبیان نہیں کرتے اور ان کے مدمقابل محض ثقہ ہی اسے بیان کرنے میں منفردہے توپھر حفاظ واثبات کوچھوڑ کرکیونکر ایک ثقہ کی بیان کردہ زیادتی قابل قبول ہوسکتی ہے؟اور یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ مطلقا زیادۃ الثقہ کوقبول کرنامنہج محدثین نہیں،وہ توقرائن کودیکھ کرہی اس کے قبول کافیصلہ کرتے ہیں۔حافظ ابن حجر وغیرہ نے صراحت کردی ہے کہ امام عبدالرحمن بن مہدی،امام یحیی بن سعید القطان،امام احمد بن حنبل،امام یحیی بن معین،امام علی بن مدینی،امام بخاری،امام ابوحاتم رازی ،امام ابوزرعہ رازی،امام نسائی اورامام دارقطنی وغیرہم جیسے کئی اجلاء اورناقدین فن زیادۃ الثقہ کومطلقا قبول کرنے کامؤقف نہیں رکھتے تھے،بلکہ اس حوالے سے وہ قرائن کودیکھ کرہی زیادۃ الثقہ کے قبول کافیصلہ فرماتے تھے،چنانچہ آپ’’نزھۃ النظر‘‘ میں فرماتے ہیں:
والمَنقولُ عن أَئمَّةِ الحَديثِ المُتَقَدِّمينَ كعبدِ الرحمنِ بنِ مَهْدي، ويحيى القَطَّانِ، وأَحمدَ بنِ حنبلٍ، ويحيى بنِ مَعينٍ، وعليِّ بنِ المَدينيِّ، والبُخاريِّ، وأَبي زُرْعةَ الرازي، وأَبي حاتمٍ، والنَّسائيِّ، والدَّارقطنيِّ وغيرِهم – اعتبارُ التَّرجيحِ فيما يتعلَّقُ بالزِّيادةِ وغيرها، ولا يُعْرَفُ عن أَحدٍ منهُم إِطلاقُ قَبولِ الزِّيادةِ

لہذاجب ثابت ہواکہ ائمہ جہابذہ ثقہ کی زیادتی کوصرف قرائن کومدنظر رکھ کرہی قبول کیاکرتے تھے، اسے مطلقا شرف قبولیت دیناان کبار ائمہ کامنہج نہیں،توپھر عمروبن عثمان الحمصی کی بیان کردہ زیادتی کومحض زیا دۃ الثقۃ کہہ کرکیسے قبول کیاجاسکتاہے خصوصا زیادتی نکارت سے لبریزہو جس کی قرائن بھی تائید کرتے ہیں،بلکہ یوں کہناچاہیے کہ یہاں قرائن ہی اس زیادت کورد کرتے نظرآرہے ہیں۔
یہاں یہ امر بھی قابل توجہ اور قابل غور ہے کہ خود عمروبن عثمان الحمصی بھی بعض دفعہ اس زیادت کوبیان نہیں کرتے،چنانچہ عمروبن عثمان کے طریق سے مروی یہی روایت سنن نسائی میں قصہ کے بغیر مختصراہی ہے:
(۴۵۶۶)أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحِيرٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ يَكْرِبَ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحَرِيرِ، وَالذَّهَبِ، وَمَيَاثِرِ النُّمُورِ
(۴۵۶۷)وأَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحِيرٍ، عَنْ خَالِدٍ قَالَ: وَفَدَ الْمِقْدَامُ بْنُ مَعْدِ يَكْرِبَ عَلَى مُعَاوِيَةَ، قَالَ: أَنْشُدُكَ بِاللهِ، هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ لُبْسِ جُلُودِ السِّبَاعِ وَالرُّكُوبِ عَلَيْهَا؟ قَالَ: نَعَم

یہاں سنن نسائی میں عمروبن عثمان حمصی اس روایت کو قصہ کے بغیر مختصرا ہی روایت کررہے ہیں اور یہ بات بھی زیادتی میں شک ضرور پیدا کر دیتی ہے۔

آپ کے تبصرے

3000