ماہ رمضان، روزے اور اعتکاف سے متعلق بعض ضعیف اور موضوع روایات

امیر الاسلام بن بحرالحق چاند پوری حدیث و علوم حدیث

اسلامی کیلنڈر کا نواں مہینہ رمضان المبارک تمام مسلمانوں کے لیےبڑی اہمیت وعظمت کا حامل ہے۔ اس کی شان وعظمت پر متعدد قرآنی آیات شاہد ہیں۔ ذخیرہ احادیث میں بھی ا س کی خصوصیات و فضائل موجود ہیں۔ تا ہم ان ہی فضائل کے ضمن میں بعض ایسی روایات بھی وارد ہوئی ہیں جو اسنادی حیثیت سے نہایت ہی کمزور وضعیف ہیں، بلکہ ان میں سے بعض تو موضوع (من گھڑت) روایات کے درجے میں آتی ہیں۔
لہذا اہل علم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس ماہ کی آمد کے موقعے پر مستند ومعتبر احادیث ہی کو عوام الناس کے سامنے بیان کریں اور ضعیف وموضوع روایات کو بیان کرنے سے گریز کر یں تاکہ عوام الناس میں اس ماہ کے تعلق سے کسی طرح کی بدعقیدگی یا اوہام وخرافات نہ پیدا ہوں۔
پیش نظر تحریر میں بعض ان ہی ضعیف وموضوع روايات کو مختصر تخریج و تبصرہ کے ساتھ پیش کر نے کی کو شش کی گئی ہے، تاکہ یہ احادیث قارئین کے علم میں آجائیں اور انھیں ان احادیث کے تعلق سے صحیح رخ اپنانے میں آسانی ہو۔ واللہ ولی التوفیق
حدیث نمبر۱-۲-۳:
عَنْ أبِىْ هُرِيْرَةَ رَضيَ اللّه عنهُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّم: لاتَقولوا: رَمَضانُ؛ فإِنَّ رَمَضانَ اسمٌ مِن أسماءِ اللهِ عَزَّ وجَلَّ، ولَكِن قولوا: شَهرُ رَمَضانَ
(ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم رمضان نہ کہو، کیوں کہ رمضان اللہ تعا لی کے ناموں سے ایک نام ہے، بلکہ تم کہا کرو:رمضان کا مہینہ)
تخریج وتبصرہ:
اسے امام ابن عدی نے الکامل (ج۱۰، ص:۲۱۸) میں، امام بیہقی نے السنن الکبری (حدیث نمبر ۷۹۰۴) میں بطریق: ابومَعْشر سِنْدی، عن سعید مقبری، عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ، مرفوعاً روایت کیاہے۔
یہ ايك منكر روايت ہے۔ ابومَعشر سِنْدی کو امام بخاری اور بعض دیگر ائمہ نے’منکر الحدیث،کہا ہے ۔ یحی بن سعید القطان نے ’انتہائی ضعیف، امام نسائی اور دارقطنی نے بھی ضعیف کہا ہے ۔ ابن عدی اور حافظ ذہبی نے اس راوی کی نقل کردہ منکر روایات میں سے اس روایت کو بھی شمار کیا ہے۔ جورقانی نے اسے ‘حدیث باطل’ اور قرطبی نے ’لا یصح‘ یعنی ’یہ صحیح نہیں ہے‘ کہا ہے۔ اسی طرح امام نووی، حافظ ابن حجر اور بدر الدین عینی حنفی وغیرہ نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔ (الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی: ج۱۰، ص۲۱۸، الاباطیل: ج۲، ص۱۲۲، المُفہم لما اشکل من تلخیص مسلم: ج۱، ص۱۵۲، میزان الاعتدال: ج۵، ص۱۱، المجموع شرح المہذب للنووی: ج۶، ص۲۴۸، فتح الباری: ج۴، ص۱۳۵، عمدۃ القاری: ج۱۰، ص۲۶۵)
اسی مفہوم کی ایک روایت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے۔ جسے تمام نے الفوائد (ج۱، ص۱۰۴، حدیث نمبر ۲۴۱) میں بطر یق: ناشب بن عمرو شیبانی، عن مقاتل بن حیان، عن ضحاک بن مزاحم، عن ابن عمر مرفوعاً روایت کیا ہے ۔ یہ حدیث بھی سخت ضعیف ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’واہ ٍ جداً‘ کہا ہے۔ (الضعیفہ:۱۰/۳۶۵)
اس کی سند میں درج ذیل علتیں ہیں:
۱۔’ناشب بن عمرو شیبانی‘ کو دارقطنی نے ضعیف کہا ہے اور ان سے قبل امام بخاری نے ’منکر الحدیث‘ کہا ہے۔ (میزان الاعتدال: ج۵، ص۵ طبع الرسالہ، لسان المیزان: ج۸، ص۲۴۴ بتحقیق ابی غدہ )
۲۔ علت انقطاع، کیوں کہ ضحاک بن مزاحم کا ابن عمر سے سماع ثابت نہیں ہے۔ جیسا کہ ابوزرعہ رازی وغیرہ نے اس کی صراحت کی ہے۔ (تحفۃ التحصیل لابن العراقی ص:۱۵۵)
اسی طرح عائشہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بھی ایک روایت آئی ہے۔ جسے ابوطاہر محمد بن احمد انباری نےالمشیخہ (حدیث نمبر۵۲) میں اور ان ہی کے طریق سے ابن النجار نے ’ذیل تاریخ بغداد‘ (ج۵، ص۷۵) میں روایت کیاہے۔ اس کی سند مظلم (تاریک) ہے۔ اس میں متعدد مجاہیل روات ہیں۔ سیوطی نے اسے موضوعات کے ضمن میں ذکر کیا ہے۔ (اللآلی المصنوعہ :۲/۸۳)
خلاصہ کلام یہ کہ ایسی کوئی حدیث ثابت نہیں ہے جس سے اس مہینہ کو صرف ’رمضان‘ (بلا کسی اضافت) کہنے کے عدم جواز پر استدلال کیا جا سکے، بلکہ اس کے برخلاف متعدد صحیح احادیث میں بغیر کسی اضافت کے صرف ’رمضان‘ کہا گیا ہے۔ امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے اندر ایک باب قائم کیا ہے ’باب ھل یقال: رمضان او شھر رمضان‘ یعنی صرف رمضان کہا جا ئے یا ماہ رمضان؟ اور اس کے تحت بعض ان احادیث ذکر کی ہیں جن میں صرف رمضان کہا گیا ہے۔ لہذا ’رمضان‘ اور ’ماہ رمضان‘ دونوں طرح سے اس کا نام لیا جاسکتا ہے۔ اور جمہور اہل علم کا بھی یہی موقف ہے۔ وللہ الحمد
حدیث نمبر۴:
هُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ، وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ، وَآخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ
(ماہ رمضان کا ابتدائی حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ بخشش اور آخری حصہ جہنم سے آزادی کا باعث ہے)
تبصرہ وتخریج:
ماہ رمضان کی فضیلت میں وارد اس حدیث کی کافی شہرت ہے۔ در اصل یہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ایک طویل روایت کا حصہ ہے۔ جس کے پورے الفاظ درج ذیل ہیں:
عَنْ سَلْمَانَ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ شَعْبَانَ، فَقَالَ: “أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ أَظَلَّكُمْ شَهْرٌ عَظِيمٌ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ، شَهْرٌ فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، جَعَلَ اللَّهُ صِيَامَهُ فَرِيضَةً، وَقِيَامَ لَيْلِهِ تَطَوُّعًا، مَنْ تَقَرَّبَ فِيهِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَيْرِ، كَانَ كَمَنْ أَدَّى فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ، وَمَنْ أَدَّى فِيهِ فَرِيضَةً، كَانَ كَمَنْ أَدَّى سَبْعِينَ فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ، وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ، وَالصَّبْرُ ثَوَابُهُ الْجَنَّةُ، وَشَهْرُ الْمُوَاسَاةِ، وَشَهْرٌ يَزْدَادُ فِيهِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ، مَنْ فَطَّرَ فِيهِ صَائِمًا كَانَ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِهِ، وَعِتْقَ رَقَبَتِهِ مِنَ النَّارِ، وَكَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْتَقِصَ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ”. قَالُوا: لَيْسَ كُلُّنَا نَجِدُ مَا يُفَطِّرُ الصَّائِمَ. فَقَالَ: “يُعْطِي اللَّهُ هَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَى تَمْرَةٍ، أَوْ شَرْبَةِ مَاءٍ، أَوْ مَذْقَةِ لَبَنٍ، وَهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ، وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ، وَآخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ، مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوكِهِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ، وَأَعْتَقَهُ مِنَ النَّارِ، وَاسْتَكْثِرُوا فِيهِ مِنْ أَرْبَعِ خِصَالٍ: خَصْلَتَيْنِ تُرْضُونَ بِهِمَا رَبَّكُمْ، وَخَصْلَتَيْنِ لَا غِنًى بِكُمْ عَنْهُمَا، فَأَمَّا الْخَصْلَتَانِ اللَّتَانِ تُرْضُونَ بِهِمَا رَبَّكُمْ، فَشَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَتَسْتَغْفِرُونَهُ، وَأَمَّا اللَّتَانِ لَا غِنًى بِكُمْ عَنْهُمَا، فَتَسْأَلُونَ اللَّهَ الْجَنَّةَ، وَتَعُوذُونَ بِهِ مِنَ النَّارِ، وَمَنْ أَشْبَعَ فِيهِ صَائِمًا، سَقَاهُ اللَّهُ مِنْ حَوْضِي شَرْبَةً لَا يَظْمَأُ حَتَّى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ
(سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے شعبان کے آخری روز ہم سے خطاب کرتے ہوئے فر مایا: لوگو! تم پر عظيم الشان مہینہ سايہ فگن ہو رہا ہے، يہ بابركت مہینہ ہے، اس میں ايک ايسى رات ہے جو ايک ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اللہ سبحانہ و تعالى نے اس كے روزے فرض كيے ہيں اور اس مہینے كى راتوں كا قيام نفلى ہے، جس نے بھى اس مہینہ میں كوئى خير و بھلائى كا كام سرانجام دے كر قرب حاصل كيا تو وہ ايسے ہى ہے جيسے كسى نے اس مہینہ كے علاوہ كوئى فرض ادا كيا اور جس نے اس مہینہ ميں كوئى فرض سرانجام ديا تو وہ ايسے ہى ہے جيسے كسى نے اس مہینہ كے علاوہ ستر فرض ادا كيے، يہ صبر كا مہینہ ہے، اور صبر كا ثواب جنت ہے، يہ خير خواہى كا مہینہ ہے۔اس ماہ مبارك میں مومن كا رزق زيادہ ہو جاتا ہے اور جس كسى نے بھى اس مہینہ میں روزے دار كا روزہ افطار كرايا اس كے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں اور اس كى گردن جہنم سے آزاد كر دى جاتى ہے اور اسے بھى روزے دار جتنا اجروثواب حاصل ہوتا ہے اور كسى كے ثواب میں كمى نہيں ہوتى۔صحابہ كرام نے عرض كيا: ہم میں سے ہر ايك كے پاس تو روزہ افطار كرانے كے ليے كچھ نہيں ہوتا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ’’اللہ تعالى يہ اجروثواب ہر اس شخص كو ديتا ہے جس نے بھى كسى كا روزہ كھجور يا پانى كے گھونٹ، يا دودھ كے ساتھ افطار كرايا، اس ماہ كا ابتدائى حصہ رحمت ہے اور درميانى حصہ بخشش اور آخرى حصہ جہنم سے آزادى كا باعث ہے،جس كسى نے بھى اپنى لونڈى اور غلام سے تخفیف کی اللہ تعالى اسے بخش ديتا اور اسے جہنم سےآزاد كر ديتا ہے، اس ماہ مبارك میں چار كام زيادہ سے زيادہ كيا كرو: دو كے ساتھ تو تم اپنے پروردگار كو راضى كروگے اور دو خصلتیں ایسی ہیں جن سے تم بےپرواہ نہيں ہوسكتے:جن دو خصلتوں سے تم اپنے پروردگار كو راضى كر سكتے ہو وہ يہ ہيں: اس بات كى گواہى دينا كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں اور اس سے بخشش طلب كرنا، اور جن دو خصلتوں كے بغیر تمھیں كوئى چارہ نہيں: جنت كا سوال كرنا اور جہنم سے پناہ مانگنا ہے۔جس نے بھى اس ماہ مبارك ميں كسى روزے دار كو پيٹ بھر كر كھلايا اللہ سبحانہ و تعالى اسے ميرے حوض كا پانى پلائےگا وہ جنت میں داخل ہونے تك پياس محسوس نہيں كرے گا)
اس حدیث کو ابن خزیمہ نےصحیح ابن خزیمہ(ج۳، ص۱۹۱، حدیث نمبر۱۸۸۷) میں، ابو عبد اللہ محاملی نے الامالی (ص۲۸۶، حدیث نمبر۲۹۳) میں، بیہقی نے شعب الایمان (ج۵، ص۲۲۳، حدیث نمبر۳۳۳۶) میں بطریق:یوسف بن زیاد، عن ہمام بن یحی العوذی ،عن علی بن زید بن جدعان، عن سعید بن مسیب، عن سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ، مرفوعاً روایت کیا ہے۔
ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس حدیث پر جو باب قائم کیا ہے اس میں’’ان صح لخبر‘ (اگر یہ حدیث صحیح ہو تو) کی قید لگائی ہے ۔ جو غالباً سندحدیث میں متکلم فیہ راوی ہونے ، یا حدیث کے ثابت نہ ہونے کی طرف اشارہ ہوتا ہے جیساکہ اہل علم اس سے واقف ہیں۔یہاں اس حدیث کی سند میں یوسف بن زیاد ابوعبداللہ بصری کو امام بخاری اور ابو حاتم الرازی نے’منکر الحدیث‘ کہا ہے۔ دارقطنی نے اسے باطل روایات بیان کرنے کے لیےمشہور راوی قرار دیا ہے۔ (التاریخ الکبیر: ج۸، ص۳۸۸، الجرح والتعدیل: ج۹، ص۲۲۲، لسان المیزان: ۸/۵۵۴)
اس میں علی بن زید بن جدعان بھی ضعیف راوی ہے۔(تقریب التہذیب: ۴۷۳۴)
لہذا یہ سند سخت ضعیف ہے۔ ساتھ ہی متن حدیث میں بھی نکارت پائی جاتی ہے۔ اسی لیے بہت سارے علماء و محدثین نے اسے ’حدیثٌ منکرٌ‘ اور بعض نے’حدیثٌ باطلٌ‘ کہا ہے۔ (العلل لابن ابی حاتم: ۱/۲۴۹، عمدۃ القاری: ج۱۰، ص۲۶۹، الضعیفہ للالبانی: ۸۷۱)
واضح رہے کہ مذکورہ حدیث کو حارث بن محمد بن ابی اسامہ نے اپنی مسند میں (کما فی المطالب العالیہ 6/23) اور عقیلی نے الضعفاء(۱/۱۵۱) میں بطریق عبد اللہ بن بکر السہمی، عن ایاس ، عن سعیدبن المسیب عن سلمان الفارسی مرفوعاً روایت کیا ہے۔
حارث کی سند میں عبد اللہ بن بکر سہمی نے کی صراحت کی ہے:
حَدَّثَنِي بَعْضُ أَصْحَابِنَا رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ : إِيَاسٌ، رَفَعَ الْحَدِيثَ إِلَى سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ

اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایاس اور سعید بن مسیب کے درمیان اور بھی واسطے ہیں جنھیں ایاس نے حذف کر دیا ہے۔ لہذا ان مبہم روات کو ابن خزیمہ والی مذکورہ بالا سند کے روات پر محمول کرنا ہی قرینہ قیاس ہے۔ نیز’ایاس‘ خود مجہول راوی ہے۔ عقیلی نے کہا:’’یہ مجہول ہے اور اس کی حدیث محفوظ نہیں ہے۔‘‘ذہبی اور عینی نے اس کی اس روایت کو ’خبر منکر‘ کہا ہے۔(الضعفاء: ۱/۱۵۱، میزان الاعتدال: ۱/۲۸۲، عمدۃ القاری: ۱۰/۲۶۷)
حدیث نمبر۵:
عن أبي مسعود الغفاري، قال:سمعتُ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم، يقولُ ذاتَ يومٍ، وَقَدْ أَهَلَّ رَمَضَانُ:لَوْ يَعْلَمُ الْعِبَادُ مَا فِي رَمَضَانَ لَتَمَنَّتْ أُمَّتِي أَنْ تَكُونَ السَّنَةُ كُلُّهَا رَمَضَانَ
(ابو مسعود غفاری سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو ایک دن ، جب رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا تھا، فرماتے ہوئے سنا: ’’اگر بندوں کو معلوم ہوجائے کہ رمضان کی کیا فضیلت ہے؟ تو میری امت پورے سال رمضان رہنے کی تمنا کرنے لگے)
تخریج وتبصرہ:
یہ حدیث بھی ایک طویل روایت کا حصہ ہے اسے مطوّلاً ابو یعلی موصلی نے المسند (ج۹، ص۱۸۰، حدیث نمبر۵۲۷۳) میں، ابن خزیمہ نے الصحیح (ج۲، ص۹۰۹، حدیث نمبر۱۸۸۶) میں، بیہقی نے فضائل الاوقات (ص۱۵۸، حدیث نمبر۴۶) میں بطریق: جریر بن ایوب بجَلی، عن الشعبی، عن نافع بن بُردہ، عن ابی مسعود غفاری۔ مرفوعاً روایت کیا ہے۔
یہ ایک باطل روایت ہے ۔ اس کی سند میں جریر بن ایوب بجلی کوفی کو بعض نے ’منکر الحدیث‘ اور بعض نے ’ضعیف الحدیث‘ اور بعض نے ’متہم بالوضع‘ تک کہا ہے۔ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: ج۲، ص۵۰۳، لسان المیزان بتحقیق ابی غدہ: ج۲، ص۴۲۹) اس میں اور بھی دیگر علتیں ہیں۔ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اسے موضوع کہا ہے۔ (الموضوعات: ج۲، ص۱۸۹)
حدیث نمبر۶:
عَن أَبِي هُرَيرة- رضي الله عنه- قال: قال رسول الله صَلَّى الله عَليْهِ وَسلَّم: صُومُوا تَصِحُّوا
(حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:روزہ رکھو ،صحت مند رہو گے)
تخریج وتبصرہ:
اسے طبرانی نے الاوسط (ج۸، ص۱۷۴، حدیث نمبر۸۳۱۲) میں، ابو نعیم اصفہانی نے الطب النبوی (ج۱، ص۲۳۶) میں روایت کیا ہے۔ اس کی سند میں ایک راوی محمد بن سلیمان بن ابی داود حرانی (جو ’بُوْمہ‘ سے معروف ہے ) پر بعض محدثین نے کلام کیا ہے۔ (تہذیب التہذیب:۳۱۲)
اسى طر ح اس میں زہیر بن محمد تمیمی خراسانی کے بارے میں محدثین کا یہ کہنا ہے کہ ان سے اہل شام کی روایت ضعیف ہوتی ہے۔ (تہذیب التہذیب: ۶۴۵) حافظ عراقی نے اس کی سند کو ضعیف کہا ہے۔ اسی طرح علامہ البانی نے مذکورہ علتوں کی بنا پر اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (تخریج احادیث الاحیاء: ص۹۷۳، حدیث نمبر۳، السلسلۃ الضعیفہ:ج۱، ص۴۲۰، حدیث نمبر۲۵۳)
نوٹ:جدید میڈیکل سائنس کی روشنی میں انسانی صحت کے لیے روزے کی افادیت مسلم ہو چکی ہے۔ لیکن اس سے یہ جواز نہیں ملتا کہ بلا کسی ثبوت کے اس کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کردیں۔
حدیث نمبر۷:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ –رضي الله عنه- قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لِكُلِّ شَيْءٍ زَكَاةٌ، وَزَكَاةُ الْجَسَدِ الصَّوْمُ
(ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر چیز کی زکاۃ ہوتی ہے اور جسم کی زکاۃ روزہ ہے)
تخریج وتبصرہ:
اسے ابن ماجہ نے السنن (کتاب الصوم، حدیث نمبر۱۷۴۵) میں روایت کیا ہے۔ ابن ماجہ کی سند میں موسی بن عبیدہ ہے جو بالاتفاق ضعیف راوی ہے۔ دیگر علتیں بھی ہیں۔ اسی مفہوم کی ایک روایت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے وہ بھی سخت ضعیف ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں: السلسلۃ الضعیفۃ: ج۳، ص۴۹۷، حدیث نمبر۱۳۲۹)
حدیث نمبر۸:
عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:اعْتِكَافُ عَشْرٍ فِي رَمَضَانَ كَحَجَّتَيْنِ وَعُمْرَتَيْنِ
(علی بن حسین (زین العابدین) اپنے والد حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: رمضان میں دس دنوں کا اعتکاف (اس کا ثواب) دوحج اور دوعمرے کے برابر ہے)
تخریج وتبصرہ:
اسے طبرانی نےالمعجم الکبیر (ج۳، ص۱۲۸، حدیث نمبر ۲۸۸۸) اور بیہقی نے شعب الایمان (ج۵، ص۴۳۶، حدیث نمبر۳۶۸۰) میں بطریق : ہیَّاج، عن عَنبسۃ، عن محمد بن زاذان، عن علی بن الحسین، عن ابیہ مرفوعًا روایت کیا ہے۔
یہ موضوع (من گھڑت) روایت ہے، عنبسہ بن عبد الرحمن قرشی کے بارے میں ابو حاتم رازی نے کہا: ’’یہ جھوٹی حدیثيں گھڑتا تھا۔‘‘ محمد بن زاذان متروک راوی ہے۔ ہیّاج بن بسطام بھی ضعیف ہے۔ (البدر المنیر: ۵/۷۶۷، مجمع الزوائد: ۳/۱۷۳، الضعیفۃ: ۲/۱۰)
حدیث نمبر۹:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنِ اعْتَكَفَ يَوْمًا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ جَعَلَ اللَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ ثَلَاثَ خَنَادِقَ، كُلُّ خَنْدَقٍ أَبَعْدُ مِمَّا بَيْنَ الْخافِقَيْنِ
(ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ کی رضا کے لیے ایک دن کا اعتکاف کرتا ہے، اللہ تبارک وتعالی اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کردیتا ہے۔ ہر خندق مشرق ومغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے)
تخریج وتبصرہ:
اسے طبرانی نے الاوسط (ج۷، ص۲۲۰، حدیث نمبر۷۳۲۶) اور بیہقی نے شعب الایمان (ج۵، ص۴۳۵، حدیث نمبر ۳۶۷۹) میں بطریق: بشر بن سلم، عن عبد العزیز بن ابی رَوّاد، عن عطاء بن ابی رباح، عن ابن عباس رضی اللہ عنہما مرفوعاً روایت کیا ہے۔
بشر بن سلم کو ابوحاتم رازی نے ’منکر الحدیث‘ کہا ہے۔ (الجرح والتعدیل: ۲/۳۵۸) طبرانی نے اسے روایت کرنے کے بعد کہا: بشر بن سلم اسے عبد العزیز سے روایت کرنے میں منفرد ہے۔
لہذا ایسے راوی کی روایت قابل تحمل نہیں ہوتی بلکہ منکر کہلاتی ہے۔ بیہقی نے اسے روایت کرنے کے بعد اس کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ابن حجر نے کہا:
وفي المتن نكارةٌ شديدَةٌ
(متن حدیث میں سخت نکارت ہے)
اسی طرح سخاوی نے اسے منکر کہا ہے۔ (التلخیص الحبیر:۲/۴۱۶، الاجوبۃ المرضیہ فیما سئل السخاوی عنہ من الاحادیث النبویہ:۲/۷۳۲)
حدیث نمبر۱۰:
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ فِي الْمُعْتَكِفِ:هُوَ يَعْكِفُ الذُّنُوبَ، وَيُجْرَى لَهُ مِنْ الْحَسَنَاتِ كَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ كُلِّهَا
(ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے معتکف کے بارے میں ارشاد فرمایا:وہ ( معتکف) گنا ہوں سے کنارے ہو جاتا ہے اور اسے عملاً نیک اعمال کرنے والے کی طرح پوری پوری نیکیاں عطا کی جاتی ہیں)
تخریج وتبصرہ:
اسے ابن ماجہ نےالسنن (کتاب الصیام، باب فی ثواب الاعتکاف، ج۲، ص۶۵۸، حدیث نمبر:۱۷۸۱) میں بطریق: عیسی بن موسی بخاری، عن عُبیدۃ العمِّی، عن فَرْقد، عن سعید بن جبیر، عن ابن عباس رضی اللہ عنہما مرفوعاً روایت کیا ہے۔
اس سند میں عبیدہ مجہول اور فرقد ضعیف راوی ہیں جبکہ عیسی بن موسی مدلس راوی ہے۔ ابن حجر نے مرتبہ رابعہ میں انھیں ذکر کیا ہے۔ (تعریف اھل التقدیس:۱/۱۶۸، مصباح الزجاجہ للبوصیری: ۲/۸۵)
مذکورہ علتوں کی بنا پر یہ حدیث سخت ضعیف ہے۔ واللہ اعلم بالصواب!
نوٹ: اعتکاف کی فضیلت کے لیے یہ بات کافی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس عبادت کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے اور ہر سال رمضان میں دس دن اعتکاف فرماتے تھے اوراتنی پابندی کرتے کہ ایک مرتبہ جب آپ اعتکاف میں نہ بیٹھ سکے تو آپ نے شوال کے آخری دس دن اعتکاف فرمایا اور جس سال آپ ﷺ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے دس دن کے بجائے۲۰/دن اعتکاف فرمایا۔صحیحین میں یہ ساری حدیثیں موجود ہیں۔ واللہ الموفق
مذکورہ بالا احادیث کے علاوہ اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں جنھیں محدثین نے ضعیف، منکر، باطل یا موضوع قرار دیا ہے۔ لیکن پھر بھی بعض واعظین خصوصی طور پر ماہ رمضان کے موقعے پر دانستہ یا غیر دانستہ بیان کرتے رہتے ہیں ۔ اس مختصر مقالے کا مقصد تحریر یہ ہے کہ ہمیں(علماء وعوام سب کو) دینی امور میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ضعیف روایات کے بارے میں راجح اور درست بات یہی ہے کہ احکام وفضائل دونوں میں نا قابل عمل ہیں۔ اور جہاں تک موضوع (من گھڑت) روایات کی بات ہے تو اہل علم کا متفقہ فیصلہ ہے کہ کسی حدیث کے بارے میں یہ جانتے ہو ئے کہ یہ جعلی حدیث ہے اسے بیان کرنا ہی جائز نہیں، بلکہ حرام ہے۔ ہاں اگر کوئی اسے روایت کرنے کے ساتھ ہی ساتھ یہ بیان کر دے کہ یہ موضوع حدیث ہے تو اتنی اجازت ہے۔
اللہ ہمیں ماہ رمضان کےفضائل واحکام کو ثابت شدہ نصوص کی روشنی میں جاننے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین!

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Mohammad furquan

مفید مضمون، جزاک اللہ خیرا