شرعی احکام میں ضعیف حدیث سے استدلال کا حکم اور ائمہ سلف کا طرز عمل

جمیل احمد ضمیر حدیث و علوم حدیث

ضعیف حدیث یاتو قطعی طور پر نبی صلى اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہوتى ہے یا ظن غالب کی بنیاد پر وہ پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی ہے، بنا بریں وہ زیادہ سے زیادہ ظن مرجوح کا فائدہ دیتى ہے، لہذااس پر کسى شرعی حکم کى بنیاد رکھنا یا کسى شرعی مسئلہ میں اسے دلیل بناناجائز نہیں۔
علامہ شاطبی فرماتے ہیں:
الأحاديثُ الضعيفةُ الإسناد لا يغلبُ على الظنّ أنّ النبي صلى الله عليه وسلم قالها، فلا يمكن أن يُسنَد إليها حكم
[الاعتصام:۱/۲۸۸] یعنی اگر کوئی حدیث نبی صلى اللہ علیہ وسلم سے ضعیف سند سے مروی ہو تو اس کے متعلق غالب گمان یہی ہے کہ وہ حدیث مشکاۃ نبوت سے صادر نہیں ہوئی ہے، لہذا اس پر کسى حکم کى بنیاد نہیں رکھى جاسکتى ہے۔
علامہ شوکانی فرماتے ہیں:
الضعيف الذي يبلغ ضعفه إلى حدٍّ لا يحصل معه الظن، لا يثبت به الحكم، ولا يجوز الاحتجاج به في إثبات شرع عام، وإنما يثبت الحكم بالصحيح والحسن لذاته أو لغيره؛ لحصول الظن بصدق ذلك وثبوته عن الشارع
[إرشاد الفحول إلى تحقيق الحق من علم الأصول:۱/۱۳۴]اگر کسى حدیث کا ضعف اس حدتک پہنچ جائےکہ اس سے ظن (غالب) حاصل نہ ہوتا ہو تو ایسى حدیث سے کوئى حکم ثابت نہیں ہوگا اور نہ ہى اس سے کسى عام شرعی مسئلہ کے اثبات پر استدلال کرنا جائز ہوگا۔ حکم صرف صحیح اور حسن لذاتہ یا حسن لغیرہ سے ثابت ہوگا، اس لیے کہ اس قسم کى حدیث سے اس بات کا غالب گمان حاصل ہو جاتا ہے کہ یہ حکم شارع سے ثابت ہے۔
ضعیف حدیث سے کسى شرعی حکم پراستدلال کى ممانعت پر ائمہ سلف کا اتفاق بھى منقول ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
لم يقل أحد من الأئمة: إنه يجوز أن يُجعَل الشيءُ واجبًا، أو مُستحبًّا بحديث ضعيف، ومن قال هذا؛ فقد خالف الإجماع
[مجموع الفتاوى:۱/۲۵۱]کسى بھى امام نے یہ بات نہیں کہى ہے کہ ضعیف حدیث سے کس چیز کو واجب یا مستحب قرار دیا جائے، ایسا کہنے والا اجماع کا مخالف ہے۔
حافظ جلال الدین دوانی فرماتے ہیں:
اتفقوا على أنّ الحديث الضعيف، لا تثبت به الأحكام الشرعية
[أنموذج العلوم:ص۲۸۰]اس با ت پر اتفاق ہے کہ ضعیف حدیث سے شرعی احکام ثابت نہیں ہوتے۔
مزید برآں اگر اللہ تعالى کسى حکم کومشروع قرار دینا چاہتا تو وہ اسے اپنے بندوں تک ان کے نزدیک معتبر ذرائع میں سے کسى ذریعہ سے پہنچاتا، لہذا یہ بات محال ہے کہ اللہ تعالى کسى چیز کو مشروع کرنا چاہے اور وہ اس کےبندوں تک محض ایک ایسى ضعیف حدیث کے ذریعہ پہنچےجس کى نسبت صاحب حدیث کى طرف کرنا مرجوح ہو۔
اس بات کى مزید وضاحت کرتے ہوئے علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’الحمد للہ ہم اس بات سے بالکل مامون ہیں کہ شریعت کی کوئی بھی بات جس کا نبى صلى اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہو یا اسے مندوب قرار دیا ہویا آپ نےاسےکرکے دکھایا ہو،وہ ضائع ہوجائے اور وہ بات امت کےایک بھی فردتک نہ تو تواتر کے ذریعہ اور نہ ہى قابل اعتماد (ثقہ) راویوں کى روایت کے ذریعہ پہنچے۔ نیز ہم اس بات سے بھى قطعى طور پر مامون ہیں کہ وہ شرعى حکم محض ایسا شخص نقل کرے جس کى روایت سے حجت قائم نہ ہوتى ہو۔‘‘[الإحکام فی أصول الاحکام:۱/۱۳۶]
شرعى احکام میں ضعیف حدیث سے استدلال کى ممانعت کى وجہ یہ ہےکہ اس سے نبى صلى اللہ علیہ وسلم کى طرف ایک ایسے شرعی حکم کى نسبت کرنا لازم آتا ہے جو آپ سے نہ تو قطعى طور پر اور نہ ہی ظن غالب کى بنیاد پر ثابت ہےاور نبى صلى اللہ علیہ وسلم کى طرف کسى ایسے حکم کى نسبت کرنا جو آپ سے ثابت نہیں شریعت میں اضافہ يا خلل کا سبب ہے، اس لیے کہ شریعت کا دارو مدار وحى پر ہے اور نبى صلى اللہ علیہ وسلم نے شریعت کى جو بھى بات بتائى ہے وہ وحى الہى ہوتی ہے۔
لہذا کسى بھى حدیث سے استدلال کرنے سے پہلے اس کى استنادى حیثیت سے واقفیت ضرورى ہے اور اگر یہ معلوم نہ ہوکہ وہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف تو ایسى صورت میں اس سے استدلال کرنا جائز نہیں۔
علامہ نووی فرماتے ہیں:
’’اگر کسى شخص کو حدیث کے ضعف کا علم ہوتو اس کے لیے اس حدیث سے استدلال کرناجائز نہیں کیونکہ علماکا اس با ت پر اتفاق ہے کہ احکام میں ضعیف حدیث سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ اور اگر اسےاس حدیث کا ضعف معلوم نہ ہو اوروہ اس فن کا جانکار ہو تو اس کے لیےبغیر بحث وتحقیق کےاس حدیث سے استدلال کرنا جائز نہیں، اور اگرکوئى اس فن کا جانکار نہ ہو تو اس کے لیے بھى جائز نہیں جب تک کہ وہ اہل علم سے اس حدیث کے بارے میں پوچھ کر اس کى صحت وضعف کو معلوم نہ کرلے۔‘‘ [شرح النووي على مسلم:۱/۱۲۶]
اسى طرح حافظ ابن حجر کتب سنن اورکتب مسانید میں موجود کسى حدیث سے استدلال کاضابطہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’چونکہ دونوں کے مصنفین نے اپنى اپنى کتابوں میں اس بات کى پابندى نہیں کى ہے کہ وہ صرف صحیح اور حسن حدیثیں ہى ذکر کریں گے۔لہذا اگر استدلال کرنے والا صحیح اور غیر صحیح کے درمیان تمیز کى اہلیت رکھتا ہو تو اس کے لیے قطعا یہ روا نہیں کہ کتب سنن یا کتب مسانید میں موجود کسى حدیث سے اس کى سند کے اتصال اور رواۃ کے احوال سے واقف ہوئے بغیر استدلال کرے۔
اور اگر صحیح اور ضعیف کے درمیان تمیز کرنے کا اہل نہ ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اگر وہ حدیث صحیحین میں بھی ہے یا کسى امام نے اس کو صحیح قرار دیا ہے تو پھر اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس حدیث سے استدلال کر سکتا ہے۔ اور اگر اس حدیث کے متعلق کسى امام کى تصحیح یا تحسین نہ ملے تو ایسى صورت میں اس کے لیے اس حدیث سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہوگا، تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ رطب ویابس جو بھى پائے اس سے استدلال کرنے لگے کیونکہ ایسى صورت میں وہ غیر شعورى طور پر کسى باطل حدیث سے بھى استدلال کر سکتا ہے۔‘‘[النكت على كتاب ابن الصلاح:۱/۴۴۹]
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ تصحیح وتضعیف کے باب میں اس فن کے معتبر اہل علم کى طرف رجوع کرنا ویسے ہى ہے جیسےہم ہرفن میں اس کے ماہر ین کى طرف رجوع کرتے ہیں اور ان کى تحقیقات سے استفادہ کرتے ہیں، مثلا کسى نحوى یا لغوى مسئلہ کے لیے علماء نحو اورعلماء لغت کى طرف رجوع کیا جاتا ہے، لہذااسى طرح تصحیح وتضعیف کے باب میں بھى فن حدیث کےمعتبر اہل علم کى تحقیقات سے استفادہ کیا جائے۔ یہى وجہ ہے کہ امام شافعى رحمہ اللہ جب کسى حدیث کے عدم ثبوت کى بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں:
هذا الحديث لا يثبته أهل العلم بالحديث
[الأم:۴/۷۶-۵/۵-۶/۲۴۳]اس حدیث کو علمائےحدیث (محدثین) ثابت نہیں مانتے۔
نیز امام شافعى کااس باب میں امام احمد سے استفادہ کرنا اور ان سے حدیث کى صحت وضعف کے بارے میں تثبت کرنا اہل علم کے نزدیک معروف ومشہور ہے۔
چنانچہ عبداللہ بن احمد بن حنبل کہتےہیں کہ میں نے اپنے والدکویہ فرماتے ہوئے سنا کہ شافعی نے کہا:
أنتم أعلم بالأخبار الصحاح منا، فإذا كان خبر صحيح، فأعلمْني حتى أذهب إليه
[سير أعلام النبلاء:۱۰/۳۳]آپ کو صحيح احاديث كےبارے میں ہم سےزياده علم ہے لہذا جب كوئى حديث صحيح ہو تو مجھےبتا ديا كریں تاكہ میں اسےاختيار كرلوں۔
یہى وجہ ہے کہ ائمہ سلف نے ایک عالم کے لیے صحیح اور ضعیف حدیث کى معرفت کو لازم قرار دیا ہے۔ چنانچہ امام اسحاق بن راہویہ اور امام احمد بن حنبل رحمھما اللہ فرماتے ہیں:
إنّ العالم إذا لم يعرف الصحيح والسقيم من الحديث لا يسمى عالِمًا
[معرفة علوم الحديث للحاكم:ص۶۰] اگر عالم کو صحیح اور ضعیف حدیث کا پتہ نہ ہو تو اسے عالم نہیں کہیں گے۔
اسى طرح امام احمد کا ایک قول یہ بھى ہے:
ينبغي للرجل إذا حمل نفسه على الفتيا أن يكون عالما بالسنن، عالما بوجوه القرآن، عالما بالأسانيد الصحيحة، وإنما جاء خلاف من خالف لقلة معرفتهم بما جاء عن النبي صلى الله عليه وسلم في السنة، وقلة معرفتهم بصحيحها من سقيمها
[الفقيه والمتفقه للخطيب البغدادي:۲/۳۳۲]
اگر کوئی شخص مفتی بننا چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سنن کا جانکار ہو، قران کے معانی ومفاہیم پر اس کو درک حاصل ہو اورصحیح اسانید (احادیث) کا اسےعلم ہو۔کیونکہ جن لوگوں نے خلاف(سنت ) فتوے دیے تو اس کی وجہ یہی رہی ہے کہ انھیں احادیث کا علم کم تھا اورصحیح وضعیف کےدرمیان تمیز کی صلاحیت نا کافی تھی۔
کسى حدیث سے استدلال کے وقت صحیح اور ضعیف کی تمیز وتحقیق کى اسى اہمیت اور ضرورت کے پیش نظر ہر دور میں علماء امت کى ایک معتد بہ تعدادنے اس جاں گسل کام کابیڑا اٹھایا، ضعیف ومنکراورباطل وموضوع روایات سے ذخیرہ سنت کو محفوظ رکھنے کے لیےبڑى عرق ریزی اور جانفشانى کا مظاہرہ کیا اور اس باب میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے جن کى نظیر دیگر اقوام کى تاریخ میں بالکل ناپید ہے۔
عبد اللہ بن المبارک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ یہ موضوع ومن گھڑت احادیث کا جو سلسلہ چل پڑا ہے اس کا کیا ہوگا؟ تو انھوں نے جواب دیا:
تعیش لها الجهابذة
[ مقدمة ابن الصلاح:ص۶]
یعنی اس کے لیے ماہرنقادحدیث پیدا ہوتے رہیں گے جو ان من گھڑت حدیثوں کى کدورت سے سنت نبویہ کے رخ زیباکوصاف کرتے رہیں گے۔
چنانچہ اس مشن کے لیے مالک بن انس، شعبہ بن حجاج ، سفیان بن عیینہ، یحیى بن سعید القطان، عبدالرحمن بن مہدی، احمد بن حنبل، علی بن المدینی، یحیى بن معین، بخارى، مسلم ، ابو حاتم، ابوزرعۃ اوردارقطنی وغیرہ جیسے جلیل القدر حفاظ سنت ونقاد حدیث پیدا ہوئے جنھوں نے سنت کى حفاظت اور اس کے دفاع میں اپنى پورى زندگى کھپادی اور اسى طرح یہ سلسلہ جارى رہا یہاں تک کہ حافظ ذہبی اورحافظ ابن حجرکادور آیا اور ان دونوں خُدّام حدیث نے صحیح اور ضعیف کے درمیان تمیز کے حوالے سے ایسى عظیم الشان اورگراں قدر علمى خدمات انجام دیں جو بعد کے ادوار میں آنے والے طلبہ حدیث کے لیے مشعل راہ اورسنگ میل کى حیثیت رکھتى ہیں۔
علم حدیث کے حوالے سے اسلاف کی جملہ علمى جہودپر غور کرنےسےیہ حقیقت طشت از بام ہوجاتى ہےکہ ان کى تمام تر کوششوں اور کاوشوں کا صرف اور صرف یہى ایک مقصد تھا کہ نبى صلى اللہ وسلم کى طرف منسوب احادیث کى چھان بین کى جائے، ان میں سے کھرے اور کھوٹے کو الگ کیا جائے اور صحیح اور غلط نسبت کى تحقیق کى جائے۔
چنانچہ اسى کدو وکاوش کے نتیجے میں فن حدیث کے اصول وضوابط نکھر کر سامنے آئے، جرح وتعدیل اور علم رجال کے خدوخال نمایاں ہوئے، مصطلح حدیث کے جواہر پارےوجود میں آئے، فقہ وفتاوى کى کتابوں میں موجود احادیث کى تخریج وتحقیق کافن معرض وجود میں آیا۔
ان سب علوم وفنون کا بنیادى مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ صحیح اور ضعیف احادیث کے درمیان تمیزہو تاکہ صرف انھی احادیث پر عمل کیا جائےجو نبى صلى اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوں۔
علامہ شاطبى رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اگر اسلام کے دفاع میں اٹھ کھڑے ہونے علماء کو ہر کس وناکس راوى کى جو بھى حدیث ملے اسے اخذ کرنا اور قبول کرنا ہى ہوتا تو پھر انھوں نے جرح وتعدیل کا جویہ بیڑا اٹھایا اس کاکوئى معنى ہى نہیں ہوتا جبکہ جرح وتعدیل پر ان کا اتفاق ہے۔ اسى طرح حدیث کى سند طلب کرنا بھى ایک بے مقصد کام ہوتا جبکہ انھوں نے سند کو دین کا حصہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ ان کا یہ کہنا کہ:حدثنى فلان عن فلان (کہ فلاں راوى نے مجھ سے فلاں کے واسطے حدیث بیان کى) یہ یونہى بلا مقصد نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کے ذریعہ حدیث کےراویوں کے بارے میں جاننا مقصود ہوتا تھا تاکہ کسى مجہول یا مجروح یامتہم راوى سے حدیث نہ لى جائے اور نہ ہى ایسے شخص سےجس کى روایت قابل اطمینان نہ ہو، کیونکہ اصل مقصود یہ ہے کہ بلا کسى شک وشبہ کےہمیں اس بات کا غالب گمان ہوجائے کہ یہ حدیث نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائى ہے، تاکہ ہم شریعت میں اس پر اعتماد کر سکیں اوراس پر احکام کى بنیاد رکھ سکیں۔‘‘[الاعتصام:۲/۱۵]
نیز اس سلسلے میں ائمہ سلف کے طرز عمل کو بیان کرتے ہوئے حافظ ابن الجوزی لکھتے ہیں:
وقد كان جماهير أئمة السلف يعرفون صحيح المنقول من سقيمه، ومعلوله من سليمه، ثم يستخرجون حكمه ويستنبطون علمه
[الموضوعات:۱/۸] جماہیر ائمہ سلف کا حال یہ تھا کہ پہلے وہ صحیح اور ضعیف کے درمیان تمیزکرتے پھر اس سے حکم نکالتے اور علم کا استنباط کرتے تھے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إنّ الأئمة لا يروون عن الضعفاء شيئًا، يحتجّون به على انفراده في الأحكام؛ فإنّ هذا شيء لا يفعله إمام من أئمة المحدثين، ولا محقِّقٌ من غيرهم من العلماء
[شرح النووي على مسلم:۱/۱۲۶]
ائمہ (حدیث) ضعیف راویوں سے کوئى ایسی حدیث نہیں روایت کرتے ہیں کہ محض اسى پر اعتماد کرتے ہوئے احکام میں اس سے استدلال کریں، یہ نہ تو ائمہ محدثین کا طریقہ اور شیوہ ہے اورنہ ہى ان کے علاوہ دیگر محقق علماء ایسا کرتے ہیں۔بلکہ بعض ائمہ سے یہاں تک منقول ہے کہ وہ ضعیف حدیث سے استدلال کرنے پر سخت نکیر کرتے تھے۔
چنانچہ ایک بار امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے سامنے صلاۃ جمعہ کے متعلق ایک مسئلہ کا ذکر آیا کہ جمعہ کى نماز کس پر واجب ہے؟ امام احمد نے اس مسئلے میں نبى صلى اللہ علیہ وسلم سے کوئى حدیث ذکر نہیں کى، ایک شخص نے کہا: اس مسئلے کے متعلق میرے پاس ایک حدیث ہے۔اما م احمد بن حنبل نے فرمایا : نبی صلى اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے؟ اس نے کہا : ہاں، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’الجمعة على من آواه الليل إلى أهله۔‘‘
یہ حدیث سن کر امام احمد رحمہ اللہ اس شخص پرسخت برہم ہوئے اور اس سے کہا: ’’استغفر ربك، استغفر ربك‘‘(اپنے رب سے استغفار کرو اپنے رب سے استغفار کرو)
امام ترمذی رحمہ اللہ اس واقعہ کوذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
إنما فعل أحمد بن حنبل هذا؛ لأنه لم يعد هذا الحديث شيئًا، وضعفه لحال إسناده
[جامع الترمذي:۵۰۲]
یعنی حدیث کى سند ضعیف ہونے کى وجہ سے امام احمد بن حنبل نے اس کو ذرا بھى در خو اعتنا نہ سمجھا۔
خلاصہ کلام یہ کہ کسی شرعی حکم کےاثبات کے لیےضعیف حدیث کو بنیاد بناناجائز نہیں اور یہی ائمہ سلف ومحقق اہل علم کاطریقہ رہا ہے، واللہ اعلم۔

2
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
Owais ahmad

ماشا الله بہت بہترین پوسٹ ہیں کافی فائدہ ملا ہیں اس سے۔ میرا خواہش ہیں کہ میں اس کو اپنے پاس محفوظ کرسکوں لیکن اس میں کو اپشن نہیں ہیں محفوظ کرنے کے لئے لھذا کیا اپ مجھے pdf یا word میں مہیا کر سکتے ہیں