مسجد نبوی میں ایک نماز ایک ہزار کے برابر یا پچاس ہزار کے برابر؟

نسیم سعید تیمی حدیث و علوم حدیث

عبادت کی غرض سے اللہ تعالی نے صرف ان تین مسجدوں کے لیے رخت سفر باندھنے کی اجازت دی ہے جن کی تعمیر انبیاء کے مبارک ہاتھوں سے ہوئی ہے:

لا تشد الرحال الا الی ثلاثة مساجد: المسجد الحرام، ومسجد الرسول ومسجدالاقصی (صحيح البخاري:۲ /۶۰،حدیث نمبر:۱۱۸۹، صحيح مسلم:۲/۱۰۱۴، حدیث نمبر:۱۳۹۷، عن ابی ھریرۃ) صرف تین مسجدوں کا ہی سفر کیا جا سکتا ہے:مسجد حرام، مسجد رسول اللہﷺ اور مسجد اقصی۔

مسجد حرام خلیل اللہ ابو الانبیاء سید الموحدین ابراہیم -علیہ السلام- اور ان کے وارث رسالت فرزند ارجمند اسماعیل -علیہ السلام-کے اخلاص وللہیت اور توحید وفداکاری کی یادگار ہے، مسجد نبوی سید الانبیاء خاتم النبیین محمد بن عبد اللہ-صلی اللہ علیہ وسلم- کی عظمت وعبودیت کی نشانی ہے اور مسجد اقصی حضرت سلیمان -علیہ السلام- کی نبوت اور بے مثال خداداد سلطنت کی گواہ ہے۔

اللہ رب العالمین نے اپنے حبیب کی زبان مبارک سے ان تینوں مسجدوں کی اہمیت وفضیلت بتلا کر ان کی عظمت مسلمانوں کے دل کے نہاں خانوں میں بٹھا دی ہے، آپ -ﷺ- کا ارشاد ہے:

صلاة في المسجد الحرام مئة ألف صلاة، وصلاة في مسجدي ألف صلاة، وفي بيت المقدس خمس مئة صلاة (شعب الإيمان:۶/۴۱، حدیث نمبر :۳۸۴۸ ،عن جابر بن عبد اللہ، و۶/۳۹، حدیث نمبر:۳۸۴۵ عن ابی الدرداء، حسن بمجموع طرقہ)مسجد حرام میں ایک نماز ایک لاکھ نماز کے برابر، میری مسجد میں ایک ہزار کے برابر اور مسجد اقصی میں پانچ سو کے برابر ہے۔

مسجد نبوی میں نماز کی جو فضیلت صحیح حدیث سے ثابت ہے وہ یہ ہےکہ یہاں ایک نماز ایک ہزار کے برابر یا اس سے افضل ہے، حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے صحیحین میں روایت ہےآپ -ﷺ- نے فرمایا:

صلاة في مسجدي هذا خير من ألف صلاة فيما سواه، إلا المسجد الحرام(صحیح البخاری:۲/۶۰،حدیث نمبر:۱۱۹۰،مسلم:۲/۱۰۱۲،نمبر:۱۳۹۴)میری اس مسجد میں ایک نماز دوسری مسجدوں میں ادا کی گئی ایک ہزار نماز سے بہتر ہے سوائے مسجد حرام کے۔

لیکن مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو بخاری ومسلم کی اس صحیح ترین روایت کو چھوڑ کر بعض ضعیف روایات پر اعتماد کرتے ہوئے سمجھتے اورسمجھاتے ہیں کہ مسجد نبوی میں ادا کی گئی ایک نماز پچاس ہزار نماز کے برابر ہے، ہم ایسے لوگوں کی اس لا علمی یا غلط فہمی یا ان کے مشایخ کی اندھی تقلید سے پردہ اٹھاتے ہوئےان روایات کی تخریج اور ان کا دراسہ اس تحریر میں پیش کر رہے ہیں، وما توفیقی الا باللہ وان ارید الا الاصلاح۔

امام ابن ماجہ نے بیان کیا:

حدثناهشام بن عمارقال:حدثناأبوالخطاب الدمشقي قال: حدثنا رُزَيق أبوعبدالله الألهاني، عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((صلاةالرجل في بيته بصلاة، وصلاته في مسجدالقبائل بخمس وعشرين صلاة، وصلاته في المسجد الذي يجمع فيه بخمس مائة صلاة، وصلاته في المسجد الأقصى بخمسين ألف صلاة، وصلاته في مسجدي بخمسين ألف صلاة، وصلاة في المسجد الحرام بمائة ألف صلاة))(سنن ابن ماجہ:۱/۴۵۳، حدیث نمبر:۱۴۱۳)ابن ماجہ نے کہا کہ ہشام بن عمار نے مجھ سے ، انھوں نے ابو الخطاب دمشقی سے، انھوں نے رزیق ابو عبد اللہ الہانی سے، انھوں نے انس بن مالک سے بیان کیا کہ آپ -ﷺ- نے فرمایا:آدمی کی نماز اس کے اپنے گھر میں ایک نماز ہے، محلے اورقبیلے کی مسجد میں پچیس نماز کے برابر ہے، جامع مسجد میں پانچ سو کے برابر ہے، مسجد اقصی میں پچاس ہزار کے برابر ہے،میری مسجد (مسجد نبوی) میں پچاس ہزار کے برابر ہے اور مسجد حرام میں ایک لاکھ نماز کے برابر ہے۔

اس حدیث کو امام طبرانی نے بھی المعجم الاوسط (۷/۱۱۲، حدیث نمبر:۷۰۰۸) میں اور ابن عساکر نے تاریخ دمشق(۱۵/۱۵۹) میں ابن ماجہ کے استاد ہشام بن عمار کے طریق سے روایت کیا ہے۔

طبرانی نے کہا: انس کی یہ حدیث صرف اسی سند سے مروی ہے، ہشام بن عمار نے اکیلے بیان کیا ہے۔

سند حدیث کا دراسہ:

یہ سند ضعیف ہے، اس میں دو علتیں ہیں:

(۱)ابو الخطاب دمشقی جس کا نام حماد ہے ، یہ مجہول روای ہے۔(دیکھیے: تقریب التھذیب ص:۶۳۶، ترجمہ:۸۰۷۹)

(۲)رْزَیق ابو عبد اللہ الالہانی، اس کے بارے میں ابو زرعہ نے کہا:لا با س بہ(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم:۳/۵۰۵، ترجمہ:۲۲۸۸)

حافظ ابن حجر کہا:صدوق لہ اوہام کہ یہ صدوق تو ہے لیکن اس کے اوہام ہیں۔(تقریب التھذیب ص:۲۰۹، ترجمہ:۱۹۳۸)

اورابن حبان نے اسے الثقات(۴/۲۳۹، ترجمہ نمبر:۲۶۹۸) میں ذکر کیا، اسی طرح المجروحین(۱/۳۰۱، ترجمہ نمبر: ۳۵۱) میں بھی ذکر کیا اور کہا:

ينفرد بالأشياء التي لا تشبه حديث الأثبات التي لا يجوز الاحتجاج به إلا عند الوفاق کہ وہ ایسی چیزیں روایت کر جاتے ہیں جو ثقہ راویوں کی حدیث سے میل نہیں کھاتیں۔ اس لیے اس سے احتجاج کرنا درست نہیں الا یہ کہ دوسرے راوی اس کی موافقت کریں۔

معلوم ہوا کہ جب یہ راوی کسی حدیث کی روایت میں متفرد ہو تو وہ حدیث قابل احتجاج نہیں ہوتی جب تک دوسرے راوی اس کی موافقت اور متابعت نہ کرے؛ کیونکہ یہ وہم کا شکار ہوجایا کرتا ہے اور یہاں زیر بحث حدیث کی روایت میں یہ متفرد ہے اس کی کسی نے متابعت نہیں کی ہے۔

مذکورہ بالادو علتوں کی وجہ سے علماء نے اس حدیث کوضعیف قرار دیا ہے:

ابن الجوزی نے کہا:ھذا حدیث لا یصح(العلل المتناھیۃ فی الاحادیث الواھیۃ:۲/۸۶)

امام ذہبی کہا:ھذا منکر جدا(ميزان الاعتدال:۴/۵۲۰)

ابن الملقن، ابن حجر اور ناصر الدین الالبانی نےبھی اس پر ضعف کا حکم لگایا ۔(دیکھیے:البدر المنیر:۹/۵۱۴،التلخیص الحبیر:۴/۳۳۰،الثمر المستطاب فی فقہ السنۃ والکتاب:۲/۵۸۰)

یہ حدیث اور ایک طریق سے مروی ہے جسے خطیب بغدادی نےتلخیص المتشابہ فی الرسم(۱/۴۸۸) میں روایت کیا ہے، انھوں نے بیان کیا:

أخبرني الحسن بن أبي طالب، نا محمد بن عبد الله الكوفي، نا الوليد بن عزوز السنجاري بسنجار، نا محمد بن عامر الأنطاكي، قال: نا الربيع بن نافع، نا سلمة بن علي أبو الخطاب كان يسكن باللاذقية، عن رزيق بن عبد الله أنه سمع أنس بن مالك يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:«الصلاة في المسجد الحرام بمائة ألف صلاة، والصلاة في مسجدي بخمسين ألف صلاة، والصلاة في المسجد الذي يجمع فيه الجمعة بخمس و عشرين ألف صلاة، والصلاة في مسجد القبايل بخمس وعشرين ألف صلاة»

ترجمہ حدیث:آپ ﷺ نے فرمایا:مسجد حرام میں ایک نماز ایک لاکھ نماز کے برابر ہے، میری مسجد میں پچاس ہزار کے برابر ہے، جامع مسجد اور محلے کی مسجد میں پچیس ہزار کے برابر ہے۔

سند کادراسہ:

یہ سند موضوع ہے، اس میں کئی علتیں ہیں۔

· رْزَیق بن عبد اللہ مجہول ہے جیسا کہ ابھی پچھلی سند میں گزرا۔

· سلمۃ بن علی ابو الخطاب بھی مجہول ہے، اس کے بارے میں خطیب بغدادی نےتلخیص المتشابہ فی الرسم(۱/۴۸۸) میں کہا:هو في عداد المجهولينکہ اس کا شمار مجہول روات میں ہوتا ہے۔

· الولید بن عَزور اس راوی کے بارے میں تلاش بسیار کے باوجود کوئی معلومات دستیاب نہیں ہو سکی۔

· محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ابو المفضل الکوفی، یہ کذاب راوی ہے، یہ سارق حدیث تھا دوسرے راوی کی حدیث کو اپنی طرف منسوب کر لیتا تھا ،اسی طرح سے ایک حدیث کی سند دوسری سند سے جوڑ دیتا تھا، اس کے بارے میں خطیب بغدادی نے کہا: “فكتب الناس عنه بانتخاب الدار قطني، ثم بان كذبه فمزقواحديثه،وأبطلواروايته،وكان بعد يضع الأحاديث للرافضة کہ لوگوں نے «انتخاب دارقطنی» کی وجہ سے اس سے حدیثیں لکھیں، پھر جب اس کی کذب بیانی واضح ہوگئی تو لوگوں نے اپنی ان کاپیوں کو پھاڑ دیا جن میں اس کی حدیثیں تھیں، اس کی روایت کو باطل قرار دیا اور بعد میں وہ رافضیوں کے لیے حدیثیں گھڑنے لگا۔

خطیب نے ازہری سے نقل کیا کہ ابو المفضل دجال وکذاب تھا۔ (دیکھیے:تاریخ بغداد:۳/۴۹۹، ترجمہ نمبر:۱۰۳۰،لسان المیزان:۵/۲۳۱، ترجمہ:۸۱۱)

معلوم ہوا کہ اس سند کے تمام روات مجروح ہیں سوائے الربیع بن نافع اور محمد بن عامر الانطاکی کے۔

ابن ماکولا نے «الإكمال في رفع الارتياب عن المؤتلف والمختلف في الأسماء والكنى والأنساب» (۲/۴۶۴) میں کہا:والحديث منكر ورجالہ مجہولون ماعداالربیع بن نافع کہ یہ حدیث منکر ہے، اس کے تمام رجال مجہول ہیں سوائے الربیع بن نافع کے۔

ابن ماکولا نے صرف ربیع بن نافع کو مجروح روات سے مستثنی کیا ہے جبکہ محمد بن عامر بھی ثقہ ہیں۔

حضرت انس کی حدیث کے دونوں طریق کے دراسہ کے بعد یہ بات ہر انصاف پسند کےلیے دو دو چار کی طرح عیاں ہوگئی کہ اس کا پہلا طریق دو علتوں کی وجہ سے ضعیف ہے جس سے احتجاج کرنا درست نہیں اور دوسرا طریق چار علتوں کی وجہ سے موضوع کے درجے تک پہنچ جاتا ہے۔

حضرت انس -رضی اللہ عنہ- سے یہ بھی مروی ہے کہ مسجد نبوی میں ایک نماز دس ہزار نماز کے برابرہے، چنانچہ ابن منده نے«مسند ابراہیم بن ادہم الزاہد» (ص:۳۹،حديث نمبر:۳۰)میں اورابو نعیم نے «حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء»(۸/۴۶)میں العباس بن حمزۃ کے طریق سے روایت کیا۔ عباس بن حمزۃنے کہا:

حدثنا عبدالرحيم بن حبيب،ثناداودبن عجلان،ثناإبراهيم بن أدهم،عن مقاتل بن حيان، عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الصلاة في المسجد الحرام مائة ألف صلاة والصلاة في مسجدي عشرة آلاف صلاة، والصلاة في مسجد الرباطات ألف صلاة».

ترجمہ حدیث:آپ -ﷺ- نے فرمایا:مسجد حرام میں ایک نماز ایک لاکھ نماز کے برابر ہے، میری مسجد میں دس ہزار کے برابر ہے اور سرحد کی مسجدوں میں ایک ہزار کے برابر ہے۔

ابو نعیم نے اس کے بطلان کی طرف اشارہ کرتے ہوئےکہا:

لم نكتبه إلا من حديث عبد الرحيم عن داودکہ ہمیں یہ حدیث صرف عبد الرحیم عن داود کے طریق ہی سے ملی ہے۔

اس حدیث کی سند بھی گزشتہ حدیث کی طرح موضوع ہے اس میں دو علتیں ہیں:

(۱)داود بن عجلان ضعیف ہے۔(تقریب التھذیب:ص۱۹۹، ترجمہ:۱۸۰۰)

(۲)عبد الرحیم بن حبیب، اس کے بارے میں یحیی بن معین نے کہا:ليس بشيء کہ وہ کچھ بھی نہیں ہے، یعنی وہ حد درجہ ضعیف ہے،اورابن حبان نے کہا:وكان يضع الحديث على الثقات… ولعله قد وضع أكثر من خمسمائة على رسول الله صلى الله عليه وسلم کہ وہ ثقہ راویوں پرحدیثیں گھڑتا تھا اور شاید اس نے آپ -ﷺ- پر پانچ سو سے زائد حدیثیں گھڑی ہیں۔(دیکھیے:لسان المیزان للذھبی:۵/۱۵۸،المجروحين:۲/۱۶۳نمبر:۷۸۵)

گزشتہ سطور سے یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی کہ مسجد نبوی میں ادا کی گئی ایک نماز ایک ہزار نماز سے افضل ہے ، یہ فضیلت حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آئی ہے جسے امام بخاری ومسلم نے صحیحین میں روایت کیا ہے، ایک ہزار کے بر خلاف دس ہزار یا پچاس ہزار والی روایات یا تو ضعیف ہیں یا موضوع اورمن گھڑت ہیں؛ اس لیے صحیح حدیث کو اپنائیں اور اسے دوست واحباب کے درمیان عام کریں اور ضعیف وموضوع روایات سے خود بھی دور رہیں اور دوسروں کو بھی دور رکھیں۔ وما علینا الا البلاغ وصلی اللہ علی نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا۔

آپ کے تبصرے

3000