آنکھ کو دریا نہ کریں

سراج عالم زخمی شعروسخن

اس طرح آپ سر بزم تو رسوا نہ کریں

میری جانب کبھی آنکھوں سے اشارہ نہ کریں


دھڑ کنیں، سانسیں، تمنائیں ٹھہر جاتی ہیں

آپ لِلّٰہ مجھے غور سے دیکھا نہ کریں


دل دھڑکتا ہوا سینے سے اچھل پڑتا ہے

اس طرح مجھ کو محبت سے پکارا نہ کریں


آئینے میں بھی سدا آپ کا چہرہ دیکھوں

ایسے آنکھوں میں خدارا تو سمایا نہ کریں


چھوڑ دیتا ہوں یہ پیراہنِ پیکر اپنا

اتنی شدت سے مجھے یاد تو آیا نہ کریں


احتیاطاً میں کسی اور سے ملتا ہی نہیں

آپ کو لوگ مری آنکھ میں دیکھا نہ کریں


اور بھی غم ہیں زمانے میں غم دل کے سوا

خشک رہنے دیں ابھی آنکھ کو دریا نہ کریں


جانے کیا سوچ کے آنکھیں بھی چھلک پڑتی ہیں

حال مفلس کا کبھی پیار سے پوچھا نہ کریں


بے یقینی میں ہوئے خواب بھی دھندلے دھندلے

سوتے سوتے بھی چراغوں کو بجھایا نہ کریں


اک نہ اک دن تو یہ حالات موافق ہوں گے

ٹوٹ بھی جائیں اگر آپ تو بکھرا نہ کریں


ہم محبت میں بھی اخلاص کے قائل ہیں سراجؔ

آپ مل جائیں تو اپنی بھی تمنا نہ کریں

آپ کے تبصرے

3000