اس قدر غم کو مقدر سے شناسائی ہے
ہجر بھی ہے مری قسمت میں تو صحرائی ہے
مجھ میں اس درجہ سمایا ہے تصور اس کا
جیسے صحرا میں کوئی چاندنی در آئی ہے
آج پھر کوئی سر بزم تماشا ہوگا
آج پھر اس نے محبت کی قسم کھائی ہے
جانے کیوں اس کی ہر اک بات ہی سچ لگتی ہے
یہ الگ بات کہ وہ شخص بھی ہرجائی ہے
ہاتھ رکھ دیتا ہے منہ پر وہ شرارت کر کے
کیا طبیعت بھی مری جاں نے غضب پائی ہے
اب کے ساون نے بہت ہم کو جلایا تنہا
اب کے موسم میں تری یاد بہت آئی ہے
جس کے الفاظ سے لرزاں ہے سماعت میری
وہ کوئی اور نہیں ہے وہ مرا بھائی ہے
رت جَگے دے کے کہاں جانے وہ کھویا زخمیؔ
اب تو بس میں ہوں مری رات ہے تنہائی ہے
آپ کے تبصرے