طلبۂ مدارس کے لیے’ ادب‘سیکھنا کیوں ضروری ہے؟

یاسر اسعد

ایک کمرے کا تصور کیجیے جہاں خوبصورت اور قیمتی چیزیں موجود ہیں، مگر وہ تمام چیزیں بکھری پڑی ہیں، یکایک اس میں کوئی شخص داخل ہوگا تو وہ کیا تاثر لے گا؟ یقیناًیہ بکھراؤ اس کی طبیعت پر گراں گزرے گا۔ اس کے برعکس جس کمرے میں اشیاء بھلے قیمتی نہ ہوں، لیکن قرینے سے رکھی گئی ہوں تو وہاں جانے والا شخص اچھا تاثر لے گا اور صاحب کمرہ کے ذوق کا بھی معترف ہوگا۔ یہیں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حسن وخوبصورتی انفرادی نہیں ہوتی بلکہ یہ ظاہری حالات کے مجموعے سے مل کر وجود میں آتی ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو مجال انکار نہیں کہ ترتیب، سلیقہ اور قرینہ ہر فرد کو محبوب ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ لوگ اس کو عمل میں لانے کے سلسلے میں کوتاہ ثابت ہوتے ہیں، حالانکہ یہ چیز ہمارے تمام امور میں دخیل ہونا چاہیے۔

آپ ایک عام تحریر لے لیجیے ، اور اس کا موازنہ کسی ادیب کی /ادبی تحریر سے کیجیے۔ آپ محسوس کریں گے کہ الفاظ تو دونوں کے یہاں ہیں، لیکن ان کی ترتیب اور جملوں میں ان کا درست استعمال دوسری تحریر کو ممتاز کرتا ہے اور اس کو اثر انگیز بنا دیتا ہے۔ یہی ادب ہے، اور کچھ نہیں۔ روز مرہ ہی کے بولے جانے والے الفاظ اگر قرینے سے زبان کے قواعد کی رعایت کرتے ہوئے ترتیب دے دیے جائیں تو ان کا اثر دو چند ہوجاتا ہے۔

یہ تو ہوئی ادب کی اہمیت، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم طالبان علوم نبوت کو اس کے سیکھنے کی کیا ضرورت؟ ہم تو ٹھہرے سیدھے سادے ملا لوگ۔ ان تصنعات سے ہم کو کیا واسطہ۔ تو عرض ہے کہ ہم جس دین کے ماننے والے ہیں اس کی من جملہ خصوصیات میں اس کی تعلیمات کا انسانی فطرت کے مناسب وموزوں ہونا بھی ہے۔ اسلامی تعلیمات کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسلام نے انسانی فطرت کو جتنا ملحوظ خاطر رکھا ہے اتنا کسی اور مذہب نے نہیں خیال کیا ہے۔ نماز کا وقت ہو اور کھانا بھی حاضر ہو تو پہلے کھانا کھاؤ، بیمار ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھ لو، سفر میں جارہے ہو تو روزہ مت رکھو، الغرض اسلام کی نفسیات کے اعتبار پر مبنی بہیتری مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ جو مقصود ہو وہ بدرجۂ اتم پورا ہو۔ نماز درپیش ہونے پر اگر آدمی کھانا چھوڑ کر نماز پڑھنے چلا گیا تو نہ تو نماز کا خشوع باقی رہے گا،اور دوسری طرف کھانا نصیب نہ ہونے کا قلق بھی رہے گا۔

اتنی لمبی چوڑی تقریر کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات میں توازن واعتدال وترتیب کی جو اثر آفرینی ہے اس کا دائرہ صرف عبادات تک محدود نہیں، بلکہ ہمیں ہر معاملے میں احسان واتقان کا حکم دیا گیا ہے۔ ہمارا مقصد دعوت الی اللہ ہے، اور یہ اسی وقت پورا ہوگا جب اس راہ کی مساعی میں اثر اور کشش ہوگی۔ تبلیغ کا منبع یا تو ہماری زبان ہوگی یا پھر ہمارا قلم۔ دونوں سے الفاظ نکلتے ہیں۔ اب یہی الفاظ ہم قرینے، سلیقے اور ترتیب سے ادا کریں تو مخاطب اور مدعو متاثر ہوگا اور ہماری دعوت قبول کرے گا۔ دوسری صورت میں ہماری دعوت لاکھ اچھی چیز کی طرف ہو، طریقے میں خامی کے سبب اس کا دائرۂ اثر محدود ہوگا۔

یہ دور میڈیا کا ہے۔ الکٹرانک میڈیا کے علاوہ پرنٹ میڈیا میں اخبارات ورسائل کی تعداد روز افزوں ترقی پر ہے۔ بات اگر دینی مجلات ورسائل کی کی جائے تو ان کا بھی سرکولیشن کچھ کم نہیں، لیکن بات جہاں معیار کی آتی ہے تو ایک دو کے علاوہ اور کوئی اس قطار میں کھڑا نظر نہیں آتا۔

تصویر کا دوسرا رخ قابل توجہ ہے۔ اردوزبان میں اسلامی ادب کے نام پر جو لٹریچر ہے اس میں زیادہ تر ان مصنفین کی نگارشات داخل ہیں جن کے افکار ونظریات اسلام سے کلی طور پر میل نہیں کھاتے۔ ان مولفین  کی تحریریں بڑی پائیدار اور مؤثر ہوتی ہیں، لیکن ان سے اسلام کی صحیح طور پر ترجمانی نہیں ہوپاتی۔ اور چونکہ صحیح اسلامی مواد کی طرف رہنمائی کرنے کے لیے ہمارے پاس اثر انگیز تحریریں نہیں ہوتیں اس لیے خواندہ طبقہ انہی کو اپنا محور مطالعہ بنا لیتا ہے اور پھر اس کے افکار ونظریات غلط سمت میں چلے جاتے ہیں۔
تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ادب سیکھیں، اور ’’ادب برائے ادب‘‘ نہیں بلکہ ’’ادب برائے اصلاح‘‘ پڑھیں اور اس کا انطباق اپنی گفتگو اور تحریر میں کرنے کی کوشش کریں۔
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
زاھد

بہت خوب جناب یاسر
بڑے ہی اچھے اسلوب میں ادب سیکھنے کا طریقہ بتاگیے