اس شخص سے میں خود کو بچاؤں کہاں تلک
پھیلا ہوا ہے مجھ میں مرے جسم و جاں تلک
آہو! حصار جسم سے باہر نکل کے آؤ
فریاد بھیجنی ہے مجھے آسماں تلک
تخییل کے بدن پہ نگاہوں کے لمس سے
لکھا ہے میں نے نام ترا کہکشاں تلک
ملتے ہیں احترام سے، عزت سے، پیار سے
یہ روگ آج بھی ہے مگر درمیاں تلک
بے گھر تھے، رحمتوں سے بھی محروم رہ گئے
پھیلی ہوئی تھی چھاؤں مگر سائباں تلک
خود کو بچاؤں، جسم سنبھالوں کہ روح کو
بکھرا ہوا ہے درد یہاں سے وہاں تلک
آپ کے تبصرے