استاذِ گرامی ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمیؒ (۱۹۴۳-۲۰۲۰ء)

صلاح الدین مقبول احمد مدنی شعروسخن

نگاہِ حق تھی ان کی، اپنی راہ حق کی متلاشی

نہ بھایا ان کو متھراؔ، نہ اجودھیاؔ اور نہ کاشیؔ

جو آئی راس تو مکےؔ مدینےؔ ہی کی بوباشی

لگی ہونے ضیاؔ کی، علم و فن میں، پھر ضیاپاشی


تھے وہ گو زخم خوردہ، حوصلوں سے پہنچے مرہم تک

سفر کیا معجزہ تھا، پہنچے وہ گنگاؔ سے زمزمؔ تک


بلریاؔگنج اعظم گڑھ کا اک معصومؔ دیوانہ

تلاشِ حق میں نکلا، چھوڑ کرکے اپنا کاشانہ

بنا جاکر کے عمرآباد میں وہ ایسا فرزانہ

ملا طیبہؔ میں اس کو علم و فن، دانش کا پروانہ


ہوئی جو ’’جامعہ‘‘ میں اس کی کاوش کی پذیرائی

تو آئی اس کے جذب و جوش و ہمت میں توانائی


کتابُ ’’الجامعِ الکامل‘‘الگ اس کی کہانی ہے

حدیث پاک میں ان کی مہارت کی نشانی ہے

یہی بس عمرِ فانی کے لیے بھی جاودانی ہے

نشانِ حبِّ نبوی ہے، دلیلِ کامرانی ہے


عمل کے واسطے سنت کا ہے شفاف مجموعہ

حدیث مصطفی کا ہے صحیح و صاف موسوعہ


ہے توفیق الٰہی، سن کے دل جو شاد ہو جائے

دیارِ کفر سے اڑ کر وہاں آباد ہو جائے

وہ چھوڑے شرک اور توحید کا مناد ہو جائے

وہ غیروں کی عبادت سے سدا آزاد ہو جائے


تو پھر آخر میں مصلحؔ! ہو نہ کیوں وہ بزمِ طابہ میں

بقیعِ غرقدِ شہرِ خموشانِ صحابہ میں

صلاح الدین مقبول احمد مصلحؔ نوشہروی(کویت)
۲۸؍۱۰؍۲۰۲۰ء

آپ کے تبصرے

3000