مانگتا ہوں میں چیز ہی کچھ اور
مجھ کو دیتی ہے زندگی کچھ اور
میرؔ کی پنکھڑی بجا لیکن
تیرے ہونٹوں کی نازکی کچھ اور
تیری ہر بات تھی بجا لیکن
تیرے لہجے میں بات تھی کچھ اور
تم نے عینک غلط لگائی ہے
ورنہ یہ آنکھ دیکھتی کچھ اور
دل میں کیا کیا خیال آتے ہیں
مجھ سے کہتی ہے آگہی کچھ اور
بام پر وہ ضرور آئے ہیں
آج چھٹکی ہے چاندنی کچھ اور
تیرگی سے عبث شکایت ہے
تو بڑھا اپنی روشنی کچھ اور
قیس و فرہاد لد گئے کب کے
اب ہے مطلوبِ عاشقی کچھ اور
بہ گیا تو بھی ساتھ موجوں کے
شاد! تجھ سے امید تھی کچھ اور
آپ کے تبصرے