ایک کام کرو

کاشف شکیل شعروسخن

جان من صرف ایک کام کرو

قصہ عشق اب تمام کرو


آیا ہے واعظوں کا وفد یہاں

میکدے میں کچھ اہتمام کرو


روئے تاباں سے آنکھ خیرہ ہے

زلفیں چہرے پہ لاؤ شام کرو


سہہ نہ پاؤں گا یہ عذاب سکوت

جان لے لو مگر کلام کرو


جزو ہستی ہو تم ضرورت ہو

میں ہوں ناقص مجھے تمام کرو


یوں سر بزم مجھ سے بیزاری

کچھ تو پردے کا اہتمام کرو


چائے تیار ہوگئی ہو اگر

اس کو لب سے لگا کے جام کرو


سنگ ہے دل مگر ہے سنگ‌ سیاہ

کاشف اس دل کا استلام کرو

آپ کے تبصرے

3000