زندگی کا یہی دستور ہوا کرتا ہے
کوئی جابر کوئی مجبور ہوا کرتا ہے
عاشقوں کا کوئی معیار نہیں ہوتا ہے
عشق میں آقا بھی مزدور ہوا کرتا ہے
بے وفائی کا نہ الزام لگاؤ مجھ پر
کفر، مومن سے بہت دور ہوا کرتا ہے
پڑھ نہیں پاتیں زمانے کی یہ بوڑھی آنکھیں
درد جو شعر میں مذکور ہوا کرتا ہے
تم ستم ڈھا کے بھی آرام نہیں پاتے ہو
دل ستم سہہ کے بھی مسرور ہوا کرتا ہے
شور ایسا ہے کہ انداز ہی کھا جاتا ہے
چیختا ہے جو وہ مشہور ہوا کرتا ہے
نیند اب بھی سر بالیں ہی حسن رہتی ہے
خواب پلکوں سے ہی کافور ہوا کرتا ہے
ماشاء اللہ حمود بھائی….
اللہ مزید ترقی عطا فرمائے آمین