حافظ دلشاد محمدی: یادوں کے آئینے میں

عبدالرزاق محمدی وفیات

اس آباد ویرانے میں جسے ہم دنیا اور اس کی چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات کہتے ہیں، کوئی بھی ہمیشہ رہنے نہیں آیا۔ حافظ دلشاد محمدی ہوں یا ہم ہوں سب کو یہاں سے جانا ہے۔ لوح جہاں پر چونکہ حرف مکرر نہیں ہیں اس لیے گردش مدام سے طبیعت اکثر وبیشتر گھبرا جاتی ہے۔ اور آج بھی عزیز دوست دلشاد محمدی کے بالکل اچانک داغ فراق دے جانے سے طبیعت پر ایک نامعلوم سا بوجھ ہے۔
ہمارے کلاس کے ساتھی حافظ دلشاد محمدی سے جو کچھ راز و نیاز اور رسم و راہ تھی اس کا پودا ۲۰۰۳ میں منصورہ کی پرسکون وادئ علم وعرفان میں کھلا اور ممبرا کی بھاگم بھاگ، نفسا نفسی کی مصروف مشین اور کاروبار کے جنگل میں سوکھ گیا۔
کچھ لوگ جادو بیانی لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ کچھ جادوئی آواز اور لحن داؤدی لے کر پیداہوتے ہیں۔ قدرت نے پرنور شخصیت اور بلبل سی شیریں مقناطیسی آواز سے حصہ وافر عطافرمایا تھا۔ آپ نے اپنی آواز کا جادو جگایا ۔ یوٹیوب پر آپ کی ویڈیوز ایک سرچ کی مار ہیں۔آپ کی حسین آواز کے قتیل ہر سو بکھرے ہیں۔
ناآشنا افراد کے لیے خشک مزاج زاہد مرتاض تھے لیکن حلقہ یاراں میں ریشم کی طرح نرم اور باغ وبہار شخصیت تھے ۔مزاحیہ باتوں پر بھی خفیف سا تبسم فرماتے تھے۔ بڑے ہونے کے باوجود مجھ سے قدرے بے تکلفی رکھتے تھے۔فضیلت میں پہلےتین ٹاپر ساتھیوں میں ہواکرتے تھے۔ہمارے مقابلے صوفی باصفا تھے۔
طالب علمی کے دور میں انقلاب زمانہ کی ستم ظریفیوں سے کوئی بھی فرد بشر نہیں بچتا۔ ہم دونوں میں بھی کبھی کبھی تلخیاں ہوئیں لیکن گھنٹے دو گھنٹے کے اندر ہی اندر تلخیاں قند و نبات بن گئیں۔ خدائے بزرگ و برتر سے امید ہے کہ آخرت میں بھی یہ یارانہ اور دوستانہ سلامت رہے گا۔
الاخلاء یومئذ بعضھم لبعض عدو الا المتقین

بہت دکھ ہے کہ میں نے اپنے کلاس کے ٹاپر ساتھی کو کھودیا۔ میری بڑی بے تکلفی تھی۔ منصورہ میں ا ن کا جو کچھ ساتھ رہا اس دوران مصلی امامت پر وہی امامت کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ صبح سویرے ترانہ گنگنانے کے لیے آپ کو ہی یاد کیا جاتا تھا۔ آواز کے بادشاہ تھے۔
فراغت کے بعد مسند امامت وخطابت کو بھی وقار اور اعتبار بخشا۔ دعوت وتبلیغ کے فریضہ سے بھی منسلک رہے۔ کچھ سالوں سے معاش کے لیے ڈرائی فروٹس کی دکان آباد کی ۔
شعر و شاعری اور مشاعرہ سے یک گونہ رغبت والفت تھی ۔ نعتیں بھی پڑھیں ۔ خطابت سے خاص نسبت تھی ۔ تحریری دنیا میں بہت زیادہ مشاقی کے جوہر نہیں دکھاسکے۔ البتہ کچھ اسلامی موضوعات پر چھوٹے کتابچے رقم فرمائے۔
شیخ ابو رضوان محمدی سے خاص تعلق خاطر رکھتے تھے اور عقیدہ کی گھنٹی میں ان کی سنجیدگی اور متانت اپنے عروج پر ہواکرتی تھی۔
میری آخری ملاقات دورہ تدریبیہ کرلا( اکتوبر ۲۰۱۹) میں ہوئی تھی۔جامعۃ التوحید بھیونڈی جب آتے تھے تفصیلی ملاقات ہوہی جاتی تھی۔ لیکن اب تفصیلی ملاقات کے سارے امکانات فی الحال ختم اور سارے دروازے بند ہیں۔اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ وادخلہ جناتک جنت النعیم
کم عمری میں کوئی دوست بالکل اچانک جدائی کا داغ دے جائے تو پورا وجود لرز جاتا ہے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کند بلکہ معطل ہوجاتی ہے۔لیکن کیا کیجیے اس آباد ویرانے کی ساری رونق ہی فنا و سناٹے سے قائم ہے۔
حقیقت کی تلاش میں سراب کاسفر اور جھوٹ کو سچ سمجھنے کا یہ دلچسپ روگ ہماری سرشت میں ہے ۔
بقول علامہ الطاف حسین حالی رحمہ اللہ:
’’مدبر السموات والارض نے اس ویرانہ آباد نما (دنیا)کی رونق اور بہار ہماری اسی غفلت ونادانی پر موقوف رکھی ہے کہ دن رات یہاں کے گورکھ دھندوں میں الجھے رہیں، دھوکے کو حقیقت اور خواب کو بیداری سمجھیں اور جس کوشش و جانفشانی کے ساتھ مکڑی عمر بھر اپنے بودے اور کمزور جالے کے پورا کرنے میں سرگرم رہتی ہے اسی کوشش و جانفشانی کے ساتھ ہم بھی اپنی بے بنیاد اور پادر ہوا عمارتیں چنتے رہیں یہاں تک کہ فنا ہوجائیں۔‘‘
بقول شاعر
نروح ونغدوالحاجتنا
وحاجۃ من عاش لاتنقضی
و یسلبہ الموت اثوابہ
و یمنعہ الموت مایشتھی
تموت مع المرءحاجاتہ
وتبقی لہ حاجۃ ما بقی

ترجمہ:ہم اپنے کاموں میں صبح وشام سرگرم ہیں اور جو زندہ ہے اس کا کام ختم نہیں ہوتا۔
موت ہی اس کے کپڑے اتروائے گی اور موت ہی اس کی خواہشوں کا خاتمہ کرے گی۔
انسان کی خواہشیں اس کے ساتھ ہی مرجاتی ہیں جب تک وہ زندہ ہے کوئی نہ کوئی خواہش اس کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
عبدالخالق محمدی

عبدالرزاق بھائی نے دل کو چھو لینے والے الفاظ کو تحریر فرمایا ہے یقینا ہم اپنے جذبات کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنا سکتے ۔ بس دعا کرتے ہیں اللہ رب العزت حافظ صاحب کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں داخل فرمائے۔ آمین یا رب العلمین