محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی علامتیں

آصف تنویر تیمی عقائد و نظریات

تحریر: پروفیسر سلیمان بن صالح الغصن
اردو قالب: آصف تنویر تیمی
محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، جن کو اللہ تعالی نے تمام جہاں والوں کی طرف مبعوث فرمایا اور انھی پر نبوت اور رسالت کا اختتام کیا۔ اللہ تعالی نے فرمایا: “آپ کہہ دیجیے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ تعالی کا بھیجا ہوا ہوں”۔ (الاعراف: ١٥٨) دوسری جگہ فرمایا: “(لوگو!) تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نہیں ہیں لیکن آپ اللہ تعالی کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے”۔ (الاحزاب: ٤٠)
اللہ تعالی نے آپ کو دنیا جہان کے لیے رحمت اور حجت بناکر بھیجا، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: “اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لیے رحمت بناکر ہی بھیجا ہے”۔ (الانبیاء: ١٠٧)
اللہ تعالی نے آپ کو بطور رہنما، خوش خبری سنانے اور ڈرانے والا بناکر پوری انسانیت کی طرف بھیج کر ہم سب پر بڑا احسان کیا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: “بے شک مسلمانوں پر اللہ تعالی کا بڑا احسان ہے کہ ان ہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا، جو انھیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انھیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، یقینا یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے”۔ (آل عمران: ١٦٤) ایسے ہی اللہ تعالی نے ایک اور مقام پر فرمایا: “اے نبی! یقینا ہم نے ہی آپ کو(رسول بناکر) گواہیاں دینے والا، خوش خبریاں سنانے والا، آگاہ کرنے والا بھیجا ہے۔ اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ”۔ (الاحزاب: ٤٥-٤٦)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت کی ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی نبھایا، سدا امت کے خیر خواہ اور اللہ کے راستے میں پوری تندہی سے جہاد کرتے رہے۔ اللہ نے آپ کے باعث بند آنکھیں اور بند دل کھول دیے۔ آپ کی دعوتی کوششوں سے لوگوں کو ایسا روشن شاہراہ ملا، جس کی رات بھی دن کی مانند ہیں، اس سے وہی منحرف ہوتا ہے جس کی قسمت میں ہلاکت وبربادی ہوتی ہے۔ دنیا کی ساری بھلائیوں اور برائیوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھول کھول کر بتلادیں۔
سب جانتے ہیں کہ دین کی بنیادی باتوں اور ایمان کی شرطوں میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کی عزت وتکریم بھی ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں: (اللہ اور اس کے رسول کی محبت ایمان کے عظیم ترین واجبات، اس کے اہم اصول وقواعد میں سے ہے۔ بلکہ یہ محبت، دین وایمان کے ہر عمل کی بنیاد ہے) [مجموع فتاوی:١٠/٤٨]
اس شخص کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہ کرتا ہو۔ اور آپ سے محبت کیوں کر نہ کی جائے جب کہ آپ سراپا پیکر رحمت ہیں۔ آپ نے اپنی ساری زندگی دعوت دین، لوگوں کی رہنمائی اور انھیں دوزخ سے بچانے میں لگائی۔ آپ بلند اخلاق کے مالک تھے۔ مومنوں کی معمولی پریشانی آپ پر شاق گزرتی تھی اور آپ مسلمانوں کی خوشی اور آسانی سے خوش ہوتے تھے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: “تمھارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمھاری جنس سے ہیں جن کو تمھاری مضرت کی بات نہایت گراں گزرتی ہے جو تمھاری منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں ایمانداروں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں”۔(التوبہ:١٢٨)
اللہ تعالی نے ان لوگوں کی سرزنش کی ہے جو دنیاوی لذتوں کو اللہ اور اس کے رسول کی محبت پر ترجیح دیتے ہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا: “آپ کہہ دیجیے کہ اگر تمھارے باپ اور تمھارے لڑکے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارے کنبے قبیلے اور تمھارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنھیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمھیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں، تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالی اپنا عذاب لے آئے۔ اللہ تعالی فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا”۔ (التوبہ: ٢٤) ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک کہ ایک مسلمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو تمام لوگوں کی محبت پر فوقیت نہ دے۔ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “تم میں سے کوئی اس وقت تک(کامل) مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد، لڑکے اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہوجاؤں”۔ ( صحیح بخاری: ١٥) اور جب ایک مومن صادق اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو تمام دوسری چیزوں پر فوقیت دیتا ہے تو وہ ایمان کی سہی مٹھاس کو پاتا ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جس (کی زندگی) میں چند خصلتیں پائی جائیں وہ ایمان کی شیرینی کو پالیا؛ دوسری تمام اشیاء سے زیادہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرے، جس سے بھی محبت کرے محض اللہ کے لیے کرے، (ایمان کے بعد) کفر کی طرف جانے کو وہ ایسے ہی ناپسند کرے جیسے کہ آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند خیال کرتا ہے”۔ (صحیح بخاری:١٦)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: “نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ان سے اپنی جانوں، اپنے باپوں، اپنے بیٹوں، اپنے بال بچوں اور اپنے مال ودولت سے زیادہ محبت کریں۔ اور ہر ظاہری اور باطنی طریقے سے آپ کی تعظیم وتوقیر کریں۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوستی رکھتا ہے ہم بھی اس سے دوستی رکھیں اور جو آپ سے دشمنی رکھتا ہے اس کو ہم بھی اپنا دشمن رکھیں۔ اور یہ ہم اچھی طرح جان لیں کہ اللہ تعالی تک پہنچنے کا واحد راستہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے۔ بلا آپ پر ظاہری اور باطنی طور پر ایمان لائے کوئی ولی، مومن اور جہنم سے چھٹکارا نہیں پاسکتا۔ اور اللہ تعالی کا تقرب بھی بلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے حاصل نہیں ہوسکتا۔ آپ اگلے اور پچھلے میں سب سے افضل، آخری نبی، شفاعت عظما کے حقدار ہیں اور آپ جیسا رتبہ کسی کا نہیں”۔ (مجموع الفتاوی:٢٧/٣٢٠)
دنیا کے سارے مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں اس لیے کہ آپ سے محبت ایمان کا حصہ، شہادتین کا تقاضہ ہے اور آپ سے بغض رکھنا نفاق کی علامت اور کفر کو واجب کردیتا ہے۔ اور جس کے دل میں یہ محبت ہوگی وہ آپ کی پیروی، آپ کی سنت کا متلاشی اور آپ کے اخلاق وکردار کو اپنائے گا۔ لیکن ان چیزوں کے اپنانے میں لوگوں کے درمیان ایمان اور اتباع کے اعتبار سے فرق پایا جاتا ہے۔
اگرچہ محبت قلبی اعمال میں سے ہے مگر اس کی کچھ علامتیں ہیں جس سے محبت کے دعوے کے صدق وکذب کا پتہ چلتا ہے۔ جب ایک جماعت نے اللہ تعالی کی محبت کا دعوی کیا تو اللہ تعالی نے ان کے دعوے کی پرکھ کے لیے فرمایا: “(اے پیغمبر) آپ کہہ دیجیے اگر تم (حقیقی معنوں میں) اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کو لازم پکڑو اللہ تم لوگوں سے محبت کرے گا”۔ (آل عمران: ٣١)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں: “یہ آیت فیصل ہے ان تمام لوگوں کے لیے جو اللہ کی محبت کا دعوی کرتے ہیں اور ان کی زندگی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر نہیں ہے کہ ایسے سارے لوگ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں۔ وہ اپنے دعوے میں اس وقت تک سچے نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ شریعت محمدی، دین نبوی کو اپنے اقوال وافعال میں داخل نہ کریں…حسن بصری رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ جب ایک جماعت نے اللہ کی محبت کا دعوی کیا تو اللہ نے ان کے دعوے کی سچائی جاننے کے لیے یہ آیت نازل فرمائی کہ(اگر تم اللہ کی محبت کے دعویدار ہو تو میری پیری کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہوں کو معاف فرمادے گا، اللہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے)”[تفسیر ابن کثیر:٢/٥٦٢]
ذیل کے سطور میں محبت رسول کی چند علامتیں ذکر کی جاتی ہیں:
1- تعظیم وتوقیر: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتکریم سچی محبت(رسول) کی دلیلوں میں سے ہے، اللہ تعالی نے فرمایا: “یقینا ہم نے تجھے گواہی دینے والا اور خوش خبری سنانے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے تاکہ(اے مسلمانو) تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کا ادب کرو اور اللہ کی پاکی بیان کرو صبح وشام” (الفتح: ٨-٩) ایمان کا تعلق اللہ اور اس کے رسول دونوں سے ہے اور تسبیح اللہ کے ساتھ خاص ہے اسی طرح تعزیر(مدد)، (توقیر) ادب کا تعلق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔
صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور ادب کی وہ اعلی مثالیں پیش کی ہیں جس کا گمان اس زمانے میں ہم نہیں کرسکتے۔ انھوں نے محبت رسول کی راہ میں اپنی جانوں، اپنے اہل وعیال، اپنے باپ اور ماں کی قربانی پیش کی۔
عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قریش کی طرف سے صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور صحابہ کرام کی محبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دیکھی تو اپنی قوم کے پاس جاکر برملا کہا: “اے میری قوم! میں قیصر وکسری، نجاشی اور بہت سارے بادشاہوں کے پاس گیا مگر کسی بادشاہ کی عزت ان کے دوستوں کے نزدیک اتنی نہیں دیکھی جتنی محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے صحابہ کو محمد کی کرتے دیکھا۔ اللہ کی قسم ان(محمد) کا تھوک بھی ان کے صحابہ میں سے کسی کی ہتھیلی پر گرتا ہے جس کو وہ اپنے چہروں اور اپنے جسموں پر مَل لیتے ہیں۔ جب وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو سارے اس کی بجاآوری کے لیے سرتوڑ کوشش کرتے ہیں، جب وضو کرتے ہیں تو وضو کے پانی کے لیے آپس میں بھڑ جاتے ہیں، وہ گفتگو کرتے ہیں تو سارے لوگ اپنی آواز پست کرلیتے ہیں، حدِ ادب اتنا ہے کہ کوئی نظر اٹھا کر ان کی طرف دیکھتا بھی نہیں ہے”۔ (صحیح بخاری:٢٧٣١-٢٧٣٢)
عمرو بن العاص اپنا حال بیان کرتے ہیں کہ”میری نگاہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی محبوب نہ تھا، اس کے باوجود آپ کی تعظیم وجلال میرے اندر اتنا تھا کہ ان کی طرف نگاہ بھر کر دیکھنے کی ہمت نہ تھی، اگر کوئی مجھ سے آپ کا حلیہ بیان کرنے کو کہے تو میں بیان نہیں کرپاؤں گا اس لیے کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نگاہ بھرکے دیکھا ہی نہیں”۔ (صحیح مسلم:(١٢١)
2- پیری اور اقتدا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت آپ کے حکموں کی بجاآوری، آپ کے منع کردہ چیزوں سے اجتناب اور آپ کے نقش قدم پر چلنے میں مضمر ہے۔ جو مجرد محبت کا دعوی کرتا ہے اور آپ کے اوامر اور نواہی کی تعمیل نہیں کرتا اس کی محبت کا دعوی صریح جھوٹ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی سے متعلق قرآن میں درجنوں آیتیں موجود ہیں اللہ تعالی نے فرمایا: “اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کرو اور اس سے پیٹھ نہ پھیرو جب کہ تم سب سن رہے ہو”۔ (الانفال:٢٠) دوسری جگہ فرمایا: “رسول جو کچھ دیں لے لو اور جن چیزوں سے روکیں رک جاؤ”۔ (الحشر:٧) تیسری جگہ فرمایا: “جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی”۔ (النساء:٨٠) ایک اور مقام پر فرمایا: “اگر تم سب ان کی اطاعت کروگے تو ہدایت یافت ہوجاؤگے”۔ (النور:٥٤)
امام ابن القیم جوزیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: “منہیات کی تعظیم کی پہچان یہ ہے کہ آدمی گناہ اور اس کے اسباب وذرائع سے دوری اختیار کرے اور ہر اس جگہ سے اجتناب کرے جو گناہ سے قریب کرتا ہو۔ مثلا تصویر کَشی، قابل حرج چیزوں اور فضول کاموں سے اپنے آپ کو بچائے تاکہ محرمات اور مکروہات میں ملوث نہ ہو۔ ایسے ہی ان لوگوں سے بچے جو علانیہ معصیت کا ارتکاب کرتے ہیں اور دیگر لوگوں کو اس کی طرف بلاتے ہیں”۔ (الوابل الصیب:٢٦-٢٩)
محب صادق جو اللہ سے ملنے اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ ہرحال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں کی تعمیل کرتا، منہیات سے بچتا اور سنت کے طریقے کو اپناتا ہے، اللہ تعالی نے فرمایا: “ان لوگوں کے لیے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ سے ملنے، آخرت کے دن پر یقین رکھتے اور بکثرت ذکر واذکار کرتے ہیں”۔ (الاحزاب:٢١)
3- نبوی خبروں کی تصدیق: محبت کے دلائل اور ایمان کے لوازمات میں سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان خبروں کی بلا شک وشبہ تصدیق کی جائے جو وقوع پذیر ہوئیں یا ہونے والی ہیں۔ اس لیے کہ آپ کی گفتگو وحی پر مشتمل ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: “وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتے جو بھی بولتے ہیں وہ آسمانی بات ہوتی ہے”۔ (النجم:٣-٤)
اس کی بہترین مثال ابو بکر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے جس میں انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کی تصدیق کی۔ کفار قریش نے بطور طنز ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کہا: ابوبکر! کیا تم اس بات کی تصدیق کرتے ہو جو تمھارا نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کہتا ہے کہ رات رات مکہ سے بیت المقدس کا سفر کر آیا، تو ابوبکر(رضی اللہ عنہ) نے پوچھا کس نے کہا ہے؟ کفار قریش نے کہا: تمھارے نبی نے۔ تو ابو بکر نے کہا: تو سچ ہی ہے، بلکہ اگر اس سے بھی کوئی بڑی بات کہتے تو میں اس کی تصدیق کرتا۔ اسی وقت سے ان کا لقب صدیق پڑگیا”۔ (مستدرک حاکم وصححہ ووافقہ الذہبی)
چنانچہ محب صادق کے لیے ضروری ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام ان واقعات کی تصدیق کرے جو صحیح سند سے ان سے مروی ہے۔
4- سنت کی تعظیم اور اس کےاختیار کرنے کی دعوت: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والا آپ کی سنت کی طرف دوسروں کو بھی دعوت دیتا ہے۔ سنت کے فروغ سے وہ خوش ہوتا اور اس کو حرز جاں بنانے والے سے دوستی اور سنت سے بے اعتنائی کرنے والے، اس کا مذاق اڑانے یا اس کو حقیر جاننے والے، اس میں شک کرنے والے یا اس کی تکذیب کرنے والے کو ناپسند کرتا ہے۔ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “میری طرف سے پہنچاؤ اگر چہ ایک بات ہی سہی”۔ (صحیح بخاری: ٣٤٦١)
5- دین میں بدعت سے دوری: دین اور شریعت کامل اور مکمل ہے، اللہ تعالی نے فرمایا: “آج میں نے تمھارے لیے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمھارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا”۔ (المائدہ:٣) رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کو واضح طور پر پہنچایا اور امت کی بھرپور خیر خواہی کی اور امت کے افراد کو بدعات سے متنبہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “تمھارے اوپر میری اور میرے خلفاء کی سنت کی پیروی لازم ہے، اسے مضبوطی سے تھام لو، دانتوں سے دبالو اور بدعات کے ایجاد سے بچو، اس لیے کہ دین میں ایجاد کی گئی ہر بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے”۔ (رواہ احمد:٤/١٢٦) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی منقول ہے کہ”جو بھی دین میں نئی چیز ایجاد کرتا ہے وہ مردود ہے”۔ (متفق علیہ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا لب لباب یہ ہے کہ بلا کمی اور بیشی آپ کی سنت کی پیروی کی جائے۔ اس لیے کہ آپ کا طریقہ سب سے کامل ہے۔ .
اور دین میں بدعت کا ارتکاب یہ پیغام دیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کی تبلیغ میں کوئی نہ کوئی نقص رہ گیا جس کی تلافی بدعت سے کی جارہی ہے۔ ساتھ ہی لوگوں کے ذہن میں بدعت کی ترویج سے یہ بات بھی پیدا ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مخلوقات میں سب سے زیادہ فصیح وبلیغ ہوتے ہوئے عام لوگوں تک اپنی بات ٹھیک طریقہ سے نہ پہنچا سکے۔
جس نے بھی دین میں بدعت کو رائج کیا اس نے اپنی طرف سے شریعت سازی کی کوشش کی اور ایسے شخص کی محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ادھوری ہے۔ اس لیے کہ اس نے حکمِ نبوی کی مخالفت کی اور آپ کی منہیات کا ارتکاب کیا۔
6- بکثرت درود وسلام پڑھنا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والا آپ سے محبت کے ثبوت کے طور پر بکثرت درود وسلام پیش کرتا ہے۔ اس سے اس شخص کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو عظمت ہے اس کا اندازہ اور درود پڑھنے والے کا درجہ بھی بلند ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: “اللہ تعالی اور اس کے فرستے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی بھیجتے رہا کرو”۔ (الاحزاب:٥٦) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے”۔ (صحیح مسلم:٤٠٨)
جب ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کا اتنا زیادہ ہے تو بھلا کون بخیل آدمی اس سے پیچھے رہے گا؟ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” وہ شخص بخیل ہے جس کے سامنے میرا تذکرہ ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے”۔ (مسند احمد:١/٢٠١) ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو جس کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے”۔ (مسند احمد:٢/٢٥٤)
7- غلو سے بچنا: محبت رسول کا تقاضہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شایانِ شان مقام دیا جائے، آپ کی شان کو گھٹایا جائے اور نہ بڑھایا جائے۔ گھٹانا یہودیوں کا طریقہ رہا ہے جس کی وجہ سے انھوں نے بہت سارے نبیوں کا قتل کیا۔ جب کہ بڑھانا نصرانیوں کا شیورہ رہا ہے جس کی وجہ سے انھوں نے عیسی علیہ السلام کو الوہیت کے مرتبے پر فائز کیا۔ اور دونوں سابقہ طریقہ کفر پر مبنی ہے۔ اور دونوں کے برعکس وسطیت اور اعتدال کا منہج ہی درست ہے۔کسی بھی طور اطاعت الہی اور ارشادات نبوی کا دامن نہیں چھوڑا جاسکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتوقیر کی جائے گی مگر آپ کو معبود ومسجود نہیں بنایا جاسکتا۔ ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو الہی صفات سے متصف کرنا بھی جائز نہیں، جیسا کہ بعض لوگ غیب داں، مشکل کشا، بخشنے والا، روزی اور بیٹا عطا کرنے والا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معین و مدد گار سمجھتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ سارے ایسے اعمال ہیں جن پر سوائے اللہ کے کوئی قدرت نہیں رکھتا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غلو کے اسباب سے منع کیا ہے، ایک حدیث میں فرمایا: “تم سب مجھے اس طرح نہ بڑھاؤ جس طرح نصاری نے عیسی بن مریم (علیہ السلام) کو بڑھایا۔ میں بس اس (اللہ) کا بندہ ہوں تو تم لوگ مجھے اس کا بندہ اور رسول کہو”۔ (صحیح بخاری:٣٤٤٥) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پر لعنت کی جنھوں نے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا اور سختی سے ایسا کرنے سے اپنی امت کو منع کیا۔ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں غلو کیا گویا وہ نصرانیوں کی روش کو اختیار کیا۔
اللہ تعالی ہم سب کو صراط مستقیم پر قائم ودائم رکھے۔

آپ کے تبصرے

3000