یاد بھی نہیں

سراج عالم زخمی شعروسخن

حالانکہ دیکھنے میں تو برباد بھی نہیں

لیکن یہ سچ ہے یار کہ آباد بھی نہیں


خواہش ہو جس قدر بھی ستم کر لیا کرو

شکوہ تو کیا زبان پہ فریاد بھی نہیں


توبہ کریں تو عشق سے کس بات پر بھلا

جب کہ یہ کفر بھی نہیں الحاد بھی نہیں


ہم کس سے جائیں داد سخن مانگنے یہاں

اپنا تو کوئی شہر میں استاد بھی نہیں


زخمیؔ کہا گیا ہے ہمیں اس قدر سراجؔ

اب تو ہمارا نام ہمیں یاد بھی نہیں

آپ کے تبصرے

3000