اہل علم ودعوت کا خود ساختہ وقار

تسلیم حفاظ عالی معاملات

داعی کی شخصیت کا موثر اور باوقارہونا دعوت کے مطلوبہ فوائدونتائج کی حصول یابی کے لیے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے۔اس کے طرز تعامل،نشست وبرخاست،رہن سہن اور طریقۂ دعوت سے پیغمبرانہ وقار کا مترشح ہونا ازبس ضروری ہے۔لیکن ایسا وقار جو پیغمبرانہ روش سے متصادم ہوبہرصورت قابل رد ہے۔وقار کا وہ خودساختہ مفہوم جس سے داعی اور مدعو کے درمیان فاصلے پیدا ہوتے ہوں یکسر مذموم ہے۔دعوتی فریضہ انجام دینے والے کےذہن ودماغ کے کسی بھی گوشے میں اگر یہ تصورموجود ہو کہ عام لوگوں کے زیادہ قریب ہونے،ان کے ساتھ گھل مل کر رہنے،بات چیت کرنے،خوش طبعی کرنے اور انھیں بلا تکلف اپنے مسائل و مشکلات پیش کرنے کا موقع دینے سے اس کا وقار مجروح ہوتا ہے،اس کی شخصیت کا استخفاف ہوتا ہےاور اس کے فضل و کمال اور شرف وعظمت کو ٹھیس پہنچتی ہے تو یقیناً وقار کا یہ مفہوم خود تراشیدہ ہے، پیغمبرانہ اسوہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
نبی ﷺ کی ذات مبارکہ سے بڑھ کر بھلا کون باوقار اورصاحب فضل و کمال ہوسکتا ہے۔آپ ﷺ شرف و عظمت اور فضل و کمال کی سب سے بلند چوٹی پر جلوہ فگن تھے۔اخلاق حسنہ، خصال حمیدہ اور جملہ امورِ خیر میں آپﷺ کا وہ منفرد اور امتیازی مقام تھا کہ اصحاب تو اصحاب دشمنانِ جاں بھی آپ کی یکتائی وانفرادیت کے معترف تھے اور انھیں آپ کے فضل و کمال پر کبھی شک نہ گزرا تھا۔فضل و کمال کی تمام بلندیوں پر فائز ہونے کے باوجود آپ ﷺ معمولی سے معمولی انسان کو بھی اہمیت دیتے، اس سے دل کھول کر بات چیت کرتے،اسے بلا تکلف اپنا مدعا بیان کرنے کا موقع دیتے اور بسا اوقات اس سے لطیف مزاح اور خوش طبعی بھی فرماتے۔کتب احادیث میں اس کے متعدد شواہد موجود ہیں۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ دیہاتی لوگوں میں سے ایک آدمی جس کا نام زاہر تھا وہ نبی ﷺ کو دیہات سے کوئی چیز بطور ہدیہ دیتا تھا اور جب وہ واپس لوٹنے لگتا توآپ ﷺ اسے کچھ ساز وسامان دے دیا کرتے تھے۔ اور آپ ﷺ فرماتے تھے : «إنَّ زاهِرًا باديَتُنا، ونحن حاضِرُوه »بے شک زاہر ہمارا دیہاتی ہے اور ہم اس کے شہری ہیں۔ نبی کریم ﷺ کو اس سے محبت تھی ، حالانکہ وہ بد شکل تھا۔ایک دن آپﷺ اس کے پاس آئے،وہ اس وقت اپنا کچھ سامان بیچ رہا تھا۔آپﷺ نے اس کے پیچھے سے جاکر اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔ وہ آپ کو دیکھ نہیں سکتا تھا۔ اس نے کہا: مجھے چھوڑ دو ،یہ کون ہے؟پھر اس نے مڑ کر دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ یہ نبی ﷺ ہیں۔چنانچہ جب اس نے دیکھا کہ آپ ﷺ کا سینہ اس کی پیٹھ سے لگ رہا ہے تو اس نے اپنے آپ کو نبی ﷺ سے چھڑانے کی کوشش نہیں کی۔اور آپ ﷺ فرمانے لگے: «مَنْ يَشْتَري العَبْدَ؟» اس غلام کو کون خریدے گا؟ اس نے کہا اے اللہ کے رسول! «إذَنْ واللهِ تَجِدُني كاسِدًا» تب تو آپ مجھے بہت سستا پائیں گے۔آپ ﷺ نے فرمایا: «لَكِنْ عندَ اللهِ لَستَ بِكاسِدٍ»لیکن تم اللہ کے یہاں سستے نہیں ہو۔یا آپ نےفرمایا: «لَكِنْ عندَ اللهِ أنتَ غالٍ»لیکن تم اللہ کے یہاں بہت مہنگے ہو۔(مسند احمد:۱۲۶۴۸)
اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی کا بیان ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے گزارش کی کہ اسے سواری فراہم کی جائے۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمھیں اونٹنی کا بچہ دوں گا۔ اس نے کہا اے اللہ کے رسول ! میں اونٹنی کے بچے کو کیا کروں گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا : «وهل تلدُ الإبل إلا النوق» اونٹ کو بھی اونٹنی ہی جنم دیتی ہے۔(صحيح ابو داود:۴۹۹۸)
ایک طرف صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ نبی ﷺ کا مزاح بالخصوص حضرت زاہر بن حرام اشجعی رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ ﷺ کی خوش طبعی کے واقعے پر غور کیجیے اور دوسری طرف آج کے دور کے بعض نام نہاد مغرور اہل علم ودعوت کے طرز عمل کو دیکھیے جو لوگوں سے سیدھے منہ بات کرنے کو بھی کسر شان سمجھتے ہیں ۔خندہ پیشانی کے ساتھ عام لوگوں سے ملنا تو دور کی بات کوئی سادہ لوح آدمی اگر آں جناب سے مصافحہ کا شرف حاصل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھا دے تو صرف انگلی ٹچ کرکے آگے نکل جاتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں نبوی دعوت کی نشرواشاعت کا۔ایک عام آدمی کی بات تو رہنے دیجیے آج حال یہ ہے کہ ایک چھوٹا عالم اگر اپنے سے کسی بڑے عالم سے بات چیت کرنا چاہے تو اسے سوچنا پڑتا ہے کہ کہاں سے شروع کرے اور کہاں پرختم کرے۔اتفاق سے سامنے والا اگر کسی عہدے پر فائز ہو تو اس سے بے تکلفانہ گفت و شنید پرخار اور دشوار گزار وادی طے کرنے کے مترادف ہے۔لیکن ذرا لوگوں کے ساتھ نبی ﷺ کے حسن تعامل پر غور کیجیے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کبھی اس طرح نہیں دیکھا کہ کسی شخص نے نبی ﷺ کے کان میں بات شروع کی ہو اور آپ نے اس کے پیچھے ہٹنے سے پہلے اپنا سر پیچھے ہٹالیا ہو۔اور نہ ہی میں نے کبھی یوں دیکھا کہ کسی شخص نے آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑا ہو، پھر آپ ﷺ نے اس کا ہاتھ اس سے پہلے چھوڑ دیا ہو۔(صحیح ابوداود:۴۷۹۴)
آپ ﷺ کے سامنے کبھی سخت سے سخت سوال آجاتا لیکن آپ کسی بھی طرح کےغیظ و غضب کا اظہار کیے بنا نہایت ہی حلم و برد باری،حسن سیاست اورانتہائی حکمت و دانائی کے ساتھ اس کا جواب دیتے ،جس سے سائل اپنی غلطی کی اصلاح بھی کرلیتا اورراہِ راست پر آجاتا۔حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا اے اللہ کےرسولﷺ مجھے زنا کرنے کی اجازت دے دیجیے۔تو لوگ اس کی طرف متوجہ ہو کر اسے ڈانٹنے لگے اور اسے پیچھے ہٹانے لگے۔لیکن نبیﷺ نے اس سے فرمایا کہ میرے قریب آجاؤ، تووہ نبی ﷺ کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔نبیﷺ نے اس سے پوچھا کیا تم اپنی والدہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی ﷺ نے فرمایا :لوگ بھی اسے اپنی ماں کے لیے پسند نہیں کرتے۔ پھر پوچھا کیا تم اپنی بیٹی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں۔نبیﷺ نے فرمایا :لوگ بھی اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند نہیں کرتے۔پھر پوچھا کیا تم اپنی بہن کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں۔نبیﷺ نے فرمایا :لوگ بھی اسے اپنی بہن کے لیے پسند نہیں کرتے۔پھر پوچھا کیا تم اپنی پھوپھی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں،میں آپ پر قربان جاؤں ۔نبیﷺ نے فرمایا:لوگ بھی اسے اپنی پھوپھی کے لیے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی خالہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟اس نے کہا کہ اللہ کی قسم کبھی نہیں،میں آپ پر قربان جاؤں۔نبیﷺ نے فرمایا :لوگ بھی اسے اپنی خالہ کے لیے پسند نہیں کرتے، پھر نبیﷺ نے اپنا دست مبارک اس کے جسم پر رکھا اوردعاکی «اللَّهمَّ اغفِرْ ذنبَهُ وطَهِّر قلبَهُ، وحصِّن فَرجَهُ»اے اللہ! اس کے گناہ معاف فرما، اس کے دل کو پاک فرما اور اس کی شرمگاہ کی حفاظت فرما۔راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد اس نوجوان نے کبھی کسی کی طرف توجہ بھی نہیں کی۔(مسند احمد:۲۲۲۱۱)
یہ تھا نبی ﷺ کا اسلوبِ دعوت اور لوگوں کے ساتھ تعامل کا انداز۔جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ کوئی نادان بچہ اگر مسجد میں معمولی سا شور بھی کردے تو ہماری قوت برداشت جواب دینے لگتی ہے۔بجائے اسے پیار سے سمجھانے کے ہم اس کے کان کھینچنے لگتے ہیں ۔نتیجتاً وہ بچہ جو دھیرے دھیرے نماز کے اہتمام کا عادی بننے والا تھا ،ہماری بداخلاقی کی وجہ سے مسجد ہی سے متنفر ہو جاتا ہے۔پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کی جوانی گزر جاتی ہے، بڑھاپا ختم ہونے کو رہتا ہے لیکن مسجد کا رخ نہیں کرتا۔ایسے میں مسلم شریف کی اس مشہور حدیث پر غور کیجیے جس میں ایک دیہاتی کا مسجد میں پیشاب کرنے اوراس پر آپ ﷺ کےرد عمل کا ذکر ہے کہ آپ ﷺنے کس خوش اسلوبی اور حسن تعلیم کا مظاہرہ فرمایا۔(صحیح مسلم :۲۸۵)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ دعوت اسی وقت موثر ہوگی جب ہم خود ساختہ وقارسے گریز کرکےاپنے اخلاق و کردار،عادات و اطوار اور لوگوں کے ساتھ طرز تعامل کو اسوۂ رسول ﷺ کے سانچے میں ڈھالیں گے۔ اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق بخشے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000