میرے ان کے ساتھ نہ بھلائے جانے والے چند واقعات
۲۲؍نومبر ۲۰۲۰م بروز ہفتہ انڈیا کے وقت کے مطابق صبح سوا دس بجے حافظ صاحب طویل علالت کے بعد اسلامی کیلنڈر کے مطابق تقریباً ۹۸ سال کی عمر پاکر وفات پا گئے۔ إنا لله وإنا اليہ راجعون
حافظ صاحب رحمہ الله سے میرے بڑے اچھے مراسم تھے۔ آپ نہ صرف عزیز رکھتے تھے بلکہ مجھے بڑی قدر کی نگاہ سے بھی دیکھتے تھے۔ سن یاد نہیں رہا، بہت پہلے کی بات ہے؛ اطلاع پاکر میرے برطانیہ سے دہلی پہنچنے سے پہلے ہی محترم حافظ شکیل میرٹھی صاحب حفظہ الله کو حکم دے کر اپنی مدرسہ والی مسجد کشن گنج میں میرے خطبہ جمعہ کا اعلان کرادیا تھا۔ میں دہلی پہنچ کر خطبہ جمعہ کے لیے مسجد پہنچا۔ پہلی صف میں حافظ صاحب رحمہ الله بیٹھے ہوئے تھے۔ خطبہ جمعہ اور نماز کے بعد بڑی اپنائیت، محبت اور شفقت سے گلے ملے اور مجھے، حافظ شکیل میرٹھی صاحب اور خواجہ قطب الدین مونس صاحب رحمہ الله کو اپنے ساتھ اپنے مکان پر لے گئے اور پُر تکلف ظہرانے سے ہماری تکریم فرمائی۔ غالبا آپ کے گھر پر میری یہ پہلی حاضرى تھی۔ اس کے بعد اس طرح کی ملاقاتوں اور زيارتوں کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ سوانح لکھنے والے اہل علم حافظ صاحب کی خدمات پر بسط وتفصیل کے ساتھ روشنی ڈالیں گے۔ اس موقع پر ان سے میری جو چند خصوصی، یادگار اور با مقصد ملاقاتیں اور مجلسیں ہوئی تھیں ان کے تذکرہ پر اکتفا کرتا ہوں۔
حافظ صاحب کی امارت کا پہلا سال تھا، میں برطانيہ سے دہلی گیا ہوا تھا۔ حافظ صاحب کی خواہش پر ان کے کشن گنج والے دولت خانہ پر ایک ملاقات رکھی گئی تھی۔ حکم تھا زیادہ وقت لے کر آؤں۔ چنانچہ حسب پروگرام میں اور حافظ شکیل میرٹھی صاحب حفظہ الله، حافظ صاحب رحمہ الله کے دولت خانہ پر پہنچے۔ صبح کے کوئی دس گیارہ بجے ہوں گے۔ حافظ صاحب رحمہ الله جماعت کے تئیں میری فکر مندی، خیالات و جذبات کا علم پہلے ہی سے رکھتے تھے اور کافی متأثر بھی تھے۔ بالخصوص میرے تنظیمی خاکوں اور مشوروں میں آپ نے کافی دلچسپی دکھائی تھی۔ حافظ صاحب کم گو تھے لیکن جب بولتے تھے تو آپ کی زبان سے نکلنے والے جامع جملے سماعت کو لذت بخشتے تھے۔ بات صاف، سلیس اور واضح انداز میں کرتے تھے۔ مجھ سے بڑی گرم جوشی کے ساتھ ملے۔ خیر خیریت معلوم کرنے کے بعد آپ کا پہلا سوال تھا کہ جماعت کی ترقی کے لیے آپ کے ذہن میں ترجیحی بنیادوں پر اوّلین مشورہ کیا ہے؟ میں نے سب سے پہلی بات یہ کہی تھی کہ دستور جمعیت پر مکمل عمل ہو اس کو یقینی بنانا چاہیے۔ پھر میں نے جمعیت چلانے کے لیے چند عملی خطے اور خاکے پیش کیے۔ چونکہ میٹنگ پہلے سے طے تھی۔ حافظ شکیل میرٹھی صاحب نے بتادیا تھا کہ ملاقات کا مدعا کیا ہے اس لیے میں نے حالات کا جائزہ لے کر تیاری کر رکھی تھی۔ نوٹس بھی میرے ہاتھ میں تھے۔ کئی گھنٹہ جاری رہنے والی اس میٹنگ میں بغیر کسی خلل کے حافظ صاحب نے میری تجاویز کو بغور سنا، میرے پیش کردہ عملی خاکوں کو سمجھتے رہے۔ میری گفتگو مکمل ہونے کے بعد جمعیت کے ماضی کے کچھ تلخ واقعات کا تذکرہ فرمایا اور بتایا کہ جمعیت ہی کے لوگ جمعیت کے کاموں کو بگاڑ دیتے ہیں اور جمعیت کی ترقی میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ میں نے کہا شیخ ! دراصل ارکان جمعیت کی ذہن سازی اور تنظیمی تربیت کی سخت ضرورت ہے۔ افراد سازی پر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں اس پر مطلق کام نہیں ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہی افراد جماعت کا ذہن جماعتی بنے گا اور جماعت کے منصوبے کامیاب ہوں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ذمہ داروں کو مشوروں کے بعد پورے عزم اور حوصلوں کے ساتھ ’’لا يخافون لومۃ لائم‘‘ کا مجسمہ بن کر آگے بڑھنا چاہیے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب کام کرنے والے اپنی شبیہ کو صاف ستھری رکھیں گے۔ اگر آپ اپنے کام میں مخلص ہیں اور اپنے موقف میں سچے ہیں تو مخالفتوں سے گھبرانے اور خوف کھانے کی مطلق ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ عہدے دار عموما شخصیات کو خوش کرنے میں زیادہ وقت لگادیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایک طرح سے دستور شکنی ہوتی ہے۔ جب کہ انھیں صحیح موقف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہ کر اللہ کی رضا کے لیے کام کرنا چاہیے۔ جب اللہ راضی ہوجائے گا تو وہ بندوں کے دلوں میں آپ کے لیے محبت ڈال دے گا۔ ورنہ جو لوگ ہر وقت کسی بھی سبب شخصیات کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں وہ نہ ان کو پوری طرح خوش کرپاتے ہیں اور نہ ہی اللہ ان سے راضی ہوتا ہے۔ بات ’’خسر الدنیا والآخرة ذلك ھو الخسران المبين‘‘ پر جاکر ختم ہوتی ہے۔ رکاوٹوں پر دھیان دینے کی بجائے منصوبوں کی تکمیل کی تراکیب پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ ورنہ بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتے رہنے سے آپ کا وقت ضائع ہوجاتا ہے۔ میں نے چند تجاویز کو مرتب انداز میں آپ کے سامنے پیش کیا۔ اس کی تفصیل میری فائل میں موجود ہے۔ لیکن اس کا یہ موقعہ نہیں ہے۔ کسی اور موقعہ پر میں اس کو الگ سے پیش کردوں گا إن شاءالله۔ بہرحال حافظ صاحب رحمہ الله میری تجاویز سے بہت متأثر ہوئے۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا کہ آپ کیوں نہیں یہاں آکر جمعیت سنبھال لیتے؟ میں نے کہا یہ ممکن نہیں ہے۔ البتہ ہر طرح کے تعاون کے لیے میں تیار ہوں۔ حافظ شکیل میرٹھی صاحب نے کہا کہ اس تجویز پر فوری جواب نہ دیں وقت لے کر غور کریں۔ میں نے کہا اگر یہ ممکن ہوتا تو ابھی جواب دے دیتا،ایسا ہو نہیں سکتا!
دوسری مرتبہ حافظ صاحب رحمہ الله سے ميرى ملاقات اور تفصیلی جماعتی گفتگو اس وقت کے ناظم عمومی اور موجودہ امیر شیخ اصغر علی امام مہدی سلفی حفظہ الله کے ساتھ ہوئی تھی۔ یہ مجلس بھی حافظ صاحب علیہ الرحمۃ کے دولت خانہ پر ہی ہوئی تھی اور یہ بھی خاصی طویل تھی۔ جمعیت جماعت پر سیر حاصل بحث ہوئی۔ مشکلات اور پریشانیوں کی ایک لمبی فہرست سامنے آئی لیکن میں نے دستور، تنظیم، درست طریقہ سے کام کرنے اور عملی پروگراموں کی بات کرکے حوصلہ دلایا۔ کامیابی حاصل کرنے کے کئی طریقے اور راستے بتلائے۔ اس پر حافظ صاحب رحمہ الله نے مجھ سے دوسری مرتبہ یہ بات کہی کہ ہمیں آپ جیسا منتظم چاہیے آپ مکمل طور پر یہاں نہیں آسکتے ہیں تو ایک دو سال کے لیے ہی ہمارے پاس آجائیے۔ اس پر شیخ اصغر علی سلفی صاحب حفظہ الله نے امیر محترم کی نہ صرف تائید فرمائی بلکہ آگے بڑھ کر یہاں تک کہہ ڈالا کہ ’’ہم پیچھے ہٹ جاتے ہیں آپ آئیے اور جمعیت سنبھالیے!‘‘میرا جواب پہلے کی طرح نفی میں تھا کہ یہ میرا منصب نہیں ہے اور نہ ہی میرے لیے یہ ممکن ہے۔ البتہ میں نے ان بزرگوں کو یہ آفر کیا کہ اپنے خرچہ پر سال میں دو مرتبہ ایک ایک ہفتہ کے لیے دہلی آسکتا ہوں۔ بقیہ فون پر رابطہ رہے گا۔ حافظ صاحب رحمہ الله نے فرمایا کہ اس طرح سے بات نہیں بنے گی۔ مجھے شدت سے احساس ہوا کہ حافظ صاحب اندر سے جماعت کی ترقی کے لیے کس قدر سنجیدہ اور بے چین ہیں۔ اسی طرح سے شیخ اصغر صاحب حفظہ الله كا یہ کہنا کہ ’’ہم پیچھے ہوجائیں گے آپ آکر جمعیت سنبھالیے‘‘ میں ان کے اس ایثار کو بھی کبھی بھول نہیں سکتا۔ یہ بھی حافظ صاحب کی امارت کے پہلےٹرم کا واقعہ ہے۔
اسی طرح سے ایک اور واقعہ جس کو میں نے حافظ یحی صاحب رحمہ الله کی زندگی ہی میں کئی ساتھیوں کو سنایا ہے۔ یہ واقعہ بھی حافظ صاحب علیہ الرحمۃ کی امارت کے پہلے ٹرم کا ہے۔ حافظ صاحب سے ان کے گھر پر میری ون ٹو ون ملاقات ہوئی۔ حسب معمول کافی جماعتی باتیں ہوئیں۔ ایک مخصوص موضوع پر گفتگو کے پس منظر میں آپ نے مجھ سے فرمایا کہ: ’’آپ ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری صاحب رحمہ الله (اس وقت ڈاکٹر صاحب بقید حیات تھے) کو مرکزی جمعیت کی امارت کے منصب کو قبول کرنے کے لیے تیار کرلیجیے میں اپنا منصب ابھی ان کے حوالے کردیتا ہوں۔‘‘ لیکن محترم ازہری صاحب رحمہ الله نے یہ کہہ کر امارت کا عہدہ لینے سے انکار کردیا کہ : ”ہم لوگ پڑھنے لکھنے والے لوگ ہیں جس جگہ ہیں وہی ہمارے لیے ٹھیک ہے۔ ہاں جمعیت کے ساتھ ہمارا تعلق ہے اور مرتے دم تک رہے گا إن شاءالله۔‘‘ سبحان الله ! اللہ اللہ کیا ایثار و قربانی کا جذبہ تھا۔ ایسی مثالیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیں۔ اس دن سے آفر کرنے والی اور آفر کو ٹھکرانے والی دونوں شخصیتوں کے لیے میرے دل میں خاص جگہ بن گئی۔ رحمهما الله رحمۃ واسعۃ۔
حافظ صاحب کی وفات پر میں نے تعزیت وغیرہ کے لیے ذمہ داروں کو فون ملایا سوائے حافظ شکیل میرٹھی صاحب حفظہ الله کے کسی سے بات نہیں ہو پائی۔ شیخ اصغر علی صاحب حفظہ الله کے متعلق مولوی رئیس فیضی سلمہ اللہ نے فون پر بتایا کہ آپ دہلی سے باہر سفر پر ہیں اس لیے فون لگ نہیں رہا ہوگا۔ شیخ جنازہ میں شرکت کے لیے انتھک کوشش کر رہے ہیں لیکن کورونا کی وجہ سے کوئی کنکٹنگ فلائٹ مل نہیں پارہی ہے۔ حافظ شکیل صاحب سے تعزیتی گفتگو کے دوران اوپر لکھے ہوئے واقعات کا بے ساختہ ذکر آیا۔ اور دیگر یاد داشتیں بھی زیر بحث آئیں۔ حافظ شکیل صاحب پہلے سے یہ سب باتیں جانتے ہی تھے۔ آپ نے مجھے ترغیب دلائی کہ میں ان کو ضبط تحریر میں ضرور لے آؤں تاکہ دیگر جماعتی احباب کو بھی اس کا علم ہو۔ چنانچہ حافظ شکیل میرٹھی حفظہ الله کی ترغیب پر یہ چند سطریں سپرد قلم کررہا ہوں۔ حافظ صاحب رحمہ الله جمعیت سے کئی سال منسلک رہے۔ناظم اعلی، نائب امیر ، قائم مقام امیر پھر دس سال امیر بھی رہے۔ میں نے ایک مرتبہ جرأت کرتے ہوئے حافظ صاحب علیہ الرحمۃ سے کہا تھا کہ آپ کا جو خاندانی بیک گراؤنڈ ہے، آپ کا جو درجہ اور مرتبہ ہے وہ کنگ میکر اور اشراف کرنے کا ہے! یہی پوزیشن آپ کو جچتی بھی ہے یہ عہدے آپ کے قد کو چھوٹا کرتے نظر آتے ہیں۔ نیز یہ عہدے معززین اور صاف ستھری شخصیات کو متنازعہ اور مخدوش کرکے ہی چھوڑتے ہیں الا ماشاءالله۔ عزت دار بے عزت ہوجاتا ہے،یہ فتنہ کا دور ہے عہدہ کا کما حقہ حق ادا کرنا ہر کسی کے بس کی بات بھی نہیں۔ اتنے عوامل و عوارض ہوتے ہیں کہ شریف النفس انسان کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ انسان چاہ کر بھی بسا اوقات کچھ نہیں کرپاتا ہے اور بسا اوقات اجتہادی غلطیاں اسے کہیں کا نہیں چھوڑتیں۔ پھر اصلاح کا موقع بھی ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ نتیجہ میں بدنامی ہاتھ آتی ہے۔ لوگوں کا اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ ہما شما کے طنز و طعنے سننے پڑ جاتے ہیں۔ عام سے عام شخص بھی معززین کے خلاف لکھنے اور بولنے لگتا ہے۔ اس لیے آپ جیسوں کو ان عہدوں سے دور رہنے ہی میں عافیت لگتی ہے۔ چونکہ حافظ صاحب علیہ الرحمۃ سے میری بڑی بے تکلفی تھی۔ خود بھی دل کی بات مجھ سے کہہ دیتے تھے اور میری باتوں کا کبھی برا نہیں مانتے تھے۔ بلکہ میرے اس طرح کے بے تکلفانہ اور بے باکانہ تبصروں نے ان کے دل میں میرے لیے بڑی جگہ بنالی تھی۔ بہرکیف میری ان باتوں کا جواب دیتے ہوئے فرمانے لگے کہ آپ کا کہنا بالکل درست ہے۔ میری خواہش نہیں تھی اور نہ اب ہے لیکن مجھے عہدہ قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ہے! امارت کا یہ بوجھ زبردستی میرے کندھوں پر ڈال دیا گیا ہے۔ ایک لمبے وقفے کے بعد فون کرتا تو فرماتے بڑے عرصہ کے بعد یاد فرمایا ! خیر خیریت معلوم کرنے کے بعد پوچھتے دلی کب آرہے ہیں؟
حافظ صاحب علیہ الرحمۃ باجماعت نماز کے بڑے پابند تھے، اذكار واوراد كا خوب اہتمام کرتے تھے۔ تہجد گذار تھے اور بڑے نفیس انسان بھی تھے۔ آپ کے اندر سے خالص دہلویت ٹپکتی تھی۔ میں نے دیکھا ہے کہ حافظ شکیل میرٹھی صاحب حفظہ الله کے آپ رحمہ الله ہی سے نہیں بلکہ ان کے پورے خاندان سے بھی بڑے گہرے اور عقیدت مندانہ تعلقات تھے۔ شاید یہی وجہ بنی کہ حافظ صاحب علیہ الرحمۃ کی اولاد نے انھی کو دونوں جگہوں( مدرسہ والی مسجد کشن گنج اور قبرستان) میں نماز جنازہ پڑھانے کی ذمہ داری سونپی۔ چنانچہ حافظ شکیل میرٹھی صاحب ہی نے دونوں جگہوں پر آپ کا نماز جنازہ پڑھایا فجزاہ اللہ خیرا۔ الله تعالى حافظ یحی صاحب کی بشری لغزشوں، کوتاہیوں کو درگذر فرمائے، ان کی حسنات کو قبول فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے۔ آمین
آیت درست کردیں اور وہ یوں:
خسر الدنيا والآخرة ذلك هو الخسران المبين