درد اوڑھے ہے، تھکن اوڑھے ہے، غم اوڑھے ہے
دل بھی پاگل ہے کہ جینے کا بھرم اوڑھے ہے
شہر نفرت کی ہواؤں کا کرم اوڑھے ہے
آگ اوڑھے ہے، دھواں اوڑھے ہے، بم اوڑھے ہے
درد آنکھوں میں اتر آیا ہے پانی بن کر
آتش سوز دروں قطرۂ نم اوڑھے ہے
عشق میں خاک نوردی کی تب و تاب کہاں
یہ جنوں ہے جو نبھانے کی قسم اوڑھے ہے
بعد مرنے کے بھی آیا نہ کوئی میت پر
مفلسی خاک بھی اوڑھے ہے تو کم اوڑھے ہے
گذرے وقتوں کی کہانی ہے یہ ایثار و خلوص
اب تو ہر شخص ہی دینار و درم اوڑھے ہے
حرف کوئی بھی تہ آب معانی نہ گیا
یوں تو ہر لفظ ہی گلگونِ ارم اوڑھے ہے
ماشاء ، زبردست کیا درد ہے