دل کے ارماں آنسوؤں میں بہ گئے

عبدالکریم شاد شعروسخن

گارڈن میں ایک دن بیٹھا تھا میں

زندگی کی سوچ میں ڈوبا تھا میں


میں نے پیچھے سے کوئی آہٹ سنی

مڑ کے دیکھا ایک لڑکی تھی کھڑی


ایک لڑکا بھی کھڑا تھا ساتھ میں

ہاتھ اس کا لے کے اپنے ہاتھ میں


کہ رہا تھا جان من! کر دو معاف

جو بھی دل میں ہے وہ کہ دو صاف صاف


ہاتھ لڑکی نے جھڑک کر یہ کہا

بے وفا! اب چھوڑ دے پیچھا مرا


تو نے وعدوں کا بھرم رکھا نہیں

وقت پر ملنے کبھی آیا نہیں


کہ رہی تھی سیر کرنے کے لیے

پر تجھے چھٹی نہیں ہے جاب سے


جب کہا کھاؤں گی میں آئس کریم

جیب کٹنے کا تو لایا عذرِ نیم


جب کہا مووی دکھانے لے چلو

تب کہا مصروف ہوں میں جانے دو


جب کہا شاپنگ کرانے کے لیے

تو گیا راشن بھرانے کے لیے


جب کہا بیلینس ڈلوا دو ذرا

تو نے پوچھا پچھلا سارا کیا کیا


رات میں جب بھی کبھی کی مسڈ کال

تو نہ جاگا اور نہ پوچھا میرا حال


لڑکیوں کو گھورتا رہتا ہے تو

جانتی ہوں بے حیا کیسا ہے تو


میں نے کیا کیا یار! سمجھا تھا تجھے

تو نے ٹائم پاس سمجھا ہے مجھے


میں نے اوروں کو کیا انکار کیوں

ہائے تجھ سے کر لیا اقرار کیوں


اب تو میرے پیار کے قابل نہیں

پاس تیرے عاشقوں کا دل نہیں


کچھ تحمُّل مجھ سے اب ہوگا نہیں

تیرا مجھ سے اب کوئی رشتہ نہیں


میرے سارے خواب ادھورے رہ گئے

“دل کے ارماں آنسوؤں میں بہ گئے”


______________
سن کے لڑکا بھی غضب میں آ گیا

اور لڑکی سے وہ یوں گویا ہوا


کہ چکی تو, اب مری روداد سن

اے ستم گر! اے ستم ایجاد! سن


تو نے عاشق ہی کہاں مانا مجھے

ایک اے ٹی ایم سدا جانا مجھے


میں تری ہر شرط پر راضی رہا

بھول بیٹھا کیا مرا ماضی رہا


تیری تعریفوں کے پل باندھا کیا

تیری خوشیوں کے لیے کیا کیا کیا


تیری خاطر باس کا طعنہ سہا

لے کے چھٹی میں تجھے ملتا رہا


اس پہ جھیلوں یہ ترے نخرے ہزار

ماننا اور روٹھ جانا بار بار


وصل کی خواہش جو کی ظاہر کبھی

ٹال کر ہر بار بولی ‘پھر کبھی’


لب نے بوسے کے لیے تڑپایا ہے

تیری زلفوں نے مجھے الجھایا ہے


بور ہوتا ہوں تری باتوں سے میں

بھاگتا ہوں اب ملاقاتوں سے میں


الغرض تو نے کیا رسوا مجھے

پیار کے قابل نہیں سمجھا مجھے


تیری چاہت سے مجھے بھی کیا ملا

یوں ستم کر کے نہ خود ہی کر گلہ


غیر مجھ کو چھیڑ کر یہ کہ گئے

“دل کے ارماں آنسوؤں میں بہ گئے”


__________________
سنتے سنتے کان میرے پک گئے

صبر کب سے کر رہے تھے، تھک گئے


میں نے چاہا ان کو سمجھا دوں ذرا

عاشقی کا راز بتلا دوں ذرا


مجھ کو ناصح ہونے کا دھوکا ہوا

اور پھر میں ان سے یوں گویا ہوا


معذرت! اک مشورہ دیتا ہوں میں

درمیانی راستہ دیتا ہوں میں


یہ تمھاری عمر ہے کیا کرنے کی

تتلی اور جگنو کا پیچھا کرنے کی


قسمیں کھاتے رہنا جینے مرنے کی

کیا ضرورت تم کو آہیں بھرنے کی


آج کل کا عشق کیا ہے، کھیل ہے

جز دل و جاں بس بدن کا میل ہے


ہے ہوس کا بول بالا چار سو

پڑ گئی پھیکی وفا کی رنگ و بو


تم بھی اس کے دھوکے میں آنا نہیں

اور اس کے بعد پچھتانا نہیں


دورِ طفلی ہو نہ جائے رائیگاں

لوٹ کر آتا نہیں ہے رفتگاں


سیکھنے کی عمر ہے، سیکھو ابھی

عشق کی تلوار کو رکھ دو ابھی


تجربہ تم کو بھی جب ہو جائے گا

عشق کرنا ٹھیک تب ہو جائے گا


نام ابھی ماں باپ کا روشن کرو

وقت آنے پر جو چاہے من کرو


جو ہوا سو ہو چکا سب چھوڑ دو

زندگی کا رخ ابھی سے موڑ دو


اپنی آنکھوں سے مجھے وہ تولتا

اس سے پہلے ہی کہ لڑکا بولتا


جھٹ سے لڑکی نے دیا مجھ کو جواب

بات میری بھی ذرا سن لیں جناب!


کیا ہے اس جھگڑے سے مطلب آپ کا؟

کیا بگڑتا ہے کسی کے باپ کا


پیار کیا سمجھے طبیعت آپ کی

بھاڑ میں جائے نصیحت آپ کی


ہم محبت میں تو بالکل سچے ہیں

پیار میں جھگڑے تو ہوتے رہتے ہیں


ہاتھ میں پھر ہاتھ ڈالے چل دیے

دونوں کچھ سنتے سناتے چل دیے


ہم ذرا سا منہ ہی لے کر رہ گئے

“دل کے ارماں آنسوؤں میں بہ گئے”

آپ کے تبصرے

3000